ساہیوال واقعہ : حکومتی کارکردگی


ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال میں ہونے واقعات شاید پنجاب کی تاریخ میں ہونے والے سب سے زیادہ تکلیف دہ واقعات میں سے ہیں۔

ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال کے واقعات میں سب سے پہلا فرق سیاسی مداخلت کا ہے۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ کے پیچھے سیاسی محرکات تھے جب کہ ساہیوال واقعہ کے بارے میں سیاسی عہدیداران کو خبر تک نہ تھی۔ ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال کے واقعات میں دوسرا بڑا فرق قانون نافظ کرنے والے اداروں کے مقاصد کا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ میں پولیس کا قطعی مقصد کسی کو مارنا نہیں تھا جبکہ ساہیوال واقعہ میں سی ٹی ڈی کا مقصد صرف اپنے ٹارگٹ کا خاتمہ تھا۔

ماڈل ٹاؤن واقعہ میں سیاسی اور سرکاری عہدیداران کی طرف دیے جانے والے احکامات اور منہاج القرآن کے خدمت گاروں کی مزاحمت کے نتیجہ میں اموات واقع ہوئیں۔ جبکہ ساہیوال واقعہ میں نہ تو سیاسی احکام تھے اور نہ ہی کوئی مزاحمت ہوئی۔

ماڈل ٹاؤن واقعہ کو کتنا عرصہ ہو گیا لیکن آج تک بھی اس وقت کے سیاسی اور سرکاری عہدیداران کسی بھی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مگر ساہیوال واقعہ میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ حکومتی نمائندوں نے نہ صرف دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے بلکہ ایوان میں کھڑے ہو کر اس واقعہ میں ہونے والی معصوم جانی نقصان کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ شاید اسی لئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چند دنوں میں ہی کافی حد تک درست حقائق کو عوام کے سامنے پیش کر دیا اور متعلقہ ذمہ داری کو قبول بھی کیا۔

قوم حکومت وقت سے جس قسم کی تبدیلی اتنے تھوڑا عرصہ میں توقع کر رہی ہے اس تبدیلی کے لئے بہت وقت درکار ہے۔ اس تبدیلی کے حصول کے لئے ہر خاص و عام بندے کو بھی بدلنا ہو گا۔ پچھلی حکومتوں نے اداروں کو جس تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کیا ہے اس کو رات و رات بدلنا نا ممکن ہے۔ اداروں کو اپنے اختیارات کی حدود کا تعین کرنا ہو گا اور عدالتوں کو فوری انصاف کو یقینی بنانا ہو گا۔ لیکن شاید ابھی یہ قوم اتنی زیادہ تبدیلی کے خود حق میں نہیں ہے کیونکہ لاکھوں کی روٹی اسی فرسودہ نظام سے جڑا ہوئی ہے۔

ہم فرشتے ڈھونڈھ کر ایوانوں میں کھڑے نہیں کر سکتے مگر حکومت وقت نے اس واقعہ میں خود کو پچھلی حکومتوں سے بہتر ثابت کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).