موہنجو داڑو کے فقیر کوے


موہنجو داڑو کی تہذیب و تمدن کے قصے اور کہانیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ قصبہ بلھڑیجی جسے سوشلسٹ تحریکوں کے گیت گانے والے کامریڈیوں کی وجہ سے لٹل ماسکو بھی کہا جاتا ہے کے کنارے واقع موہنجو داڑو مٹی کا ڈھیر بن رہا ہے۔ کوّوں کو ہمارے لوگ گیتوں میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ توہم پرستی پر اعتقاد کی وجہ سے کبھی کوے کی کاں کاں کو مہمان کی آمد کا ذریعہ بھی مانا جاتا رہا ہے اور کبھی کبھی بے اولاد مائیں میٹھی روٹی دے کر کوّوں سے اولاد کی دعا کرنے کو بھی کہا کرتی ہیں۔

ڈیموں اور ندی نالوں میں کوّوں کو مچھلی پکڑتے ہوئے تو دیکھا ہے مگر موئن جو داڑو کے کوّوں کی مہمان نوازی اور چوکیداری کو آپ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ آج سے پانچ ہزار سال پہلے جب لوگ غاروں میں رہا کرتے تھے اس وقت موہنجو داڑو کے لوگ ایک مہذب قوم کی طرح زندگی گذار رہے تھے موہنجو داڑو کی تہذیب و تمدن کو دیکھ کر یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ اسے دنیا کے آٹھویں عجوبے کا درجہ دیا جائے مگر موہنجو داڑو کو دریافت کرنے والے سر جان مارشل کو بھی پتہ نہیں تھا کہ ہم ان کی دریافت کے ساتھ یہ حشر کریں گے۔

موہنجو داڑو کی بربادی پر یونیسکو سمیت بین الاقوامی اور مقامی ماہرین کی بارہا تنقید کے باوجود بھی سندھ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ موہنجو داڑو کی دیکھ بھال کے فنڈز کہاں جا رہے ہیں یہ کسی کو پتہ نہیں۔ سوائے انٹری گیٹ اور میوزیم کی ٹکٹ دینے والے ٹھیکیداروں کے علاوہ کوئی بھی اہلکار نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح موہنجو داڑو کا ایئرپورٹ بھی موہن جو داڑو کی طرح دن بہ دن غیر آباد ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

موہنجو داڑو کے ارد گرد کی زمینوں پر صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے وڈیروں اور جاگیرداروں کا قبضہ ہے جس میں سر فہرست بھگیو سردار ہیں جنہوں نے قدرتی جھیلوں اور جنگلوں پر قبضہ کر کے اپنے بچوں کی زمینیں آباد کر رکھی ہیں سوائے ان کی زمینوں کے باقی سب کچھ غیر آباد نظر آئے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ میں 11 سالہ حکومتی ادوار میں موہنجو داڑو پر ایک بین الاقوامی کانفرس اور ایک بلاول بھٹو کے جلسے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

موسمی تبدیلی، سیم و تھور اور حکومتی لاپرواہی کی وجہ سے موہنجو داڑو کی تاریخی تہدیب ماند اور آثار مٹتے جا رہے ہیں۔ کبھی تو موہنجو داڑو پر جرمن، فرینچ، امریکن اور دیگر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے ڈیرے نظر آتے تھے مگر آج چند مقامی افراد کے علاوہ کوئی سیاح بھولے بھٹکے ہی نظرآ سکتا ہے۔ نہ ہی سیاحوں کے لیے رہنے کا کوئی بہتر انتظام نہ ہی کوئی کھانے پینے کی معیاری اشیاء آپ کو ملیں گی۔ موہنجو داڑو پر اترتے ہی وہاں کی اڑتی ہوئی مٹی آپ کا شاندار استقبال کرے گی اور جیسے ہی آپ موہنجو داڑو کے گیٹ سے داخل ہوں گے چھولے اور چپس والے آپ کا پیچھا کرتے ہوئے موہنجو داڑو کے آثاروں کو روندتے ہوئے نظر آئیں گے جیسے کہ وہ آپ کے گائیڈ بن کر گھوم رہے ہوں۔

موہنجو داڑو پر بنائی گئی ڈانسنگ گرل سمبارہ، پریسٹ بادشاہ اور یک سینگا جانور جسے یونیکارن کہا جاتا ہے اس کے اوپر بھی منوں مٹی اور پرندوں کا کیا ہوا گند نظر آئے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ موہنجو داڑو کی دیکھ بھال کرنے والے یا تو ریٹائرڈ ہو گئے ہیں یا پھر آثاروں کے اندر رہتے ہیں کیوں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ اس تہذیب کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔

بچوں سے چیزیں چھینتے ہوئے تو کوّوں کو دیکھا ہے مگر بڑوں کو نشانہ بنانے والے یہ موہنجو داڑو کے کوے اپنی مثال آپ ہیں جیسے ہی آپ نے کوئی کھانے کی چیز نکالی آپ پر موہنجو داڑو کے کوے سیہون شریف کے فقیروں کی طرح ہلہ بول دیں گے اور نا چاہتے ہوئے بھی آپ کو کچھ کچھ دینا پڑے گا۔ جب سیاحوں کے لیے کھانے پینے کے چیزیں ناپید ہوں اور علاقے میں بھوک اور افلاس کے راکاس گھومتے نظر آئیں اور راستوں پر سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈران، سرداروں اور وڈیروں کے بل بورڈ کے علاوہ کچھ نہ ہو تو ایسے میں سیاحوں اور پرندوں کی بھوک اور پیاس کی کون پرواہ کرے گا کہ ان کے لیے بھی کوئی انتظام کیا جائے۔ اگر سندھ حکومت کی کارکردگی اس طرح کی رہی تو پھر وہ دن دور نہیں جب کوے بھی سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).