اپنا تو منشور ہے جالب سارے جہاں سے پیار کرو


کسرتی جسم
چال میں ایک بے ساختہ پن
نہایت سلیقے سے تراشیدہ زلفیں
جن میں مصنوعی سرمگیں کے واضح آثار
گہری شیو

آنکھوں سے جھلکتی ہوئی ادائے بے نیازی
گفتار میں جذبات کی نمایاں آمیزش
لہجہ برسات کی طرح رواں
غصہ جیسے صحرا کی چلچلاتی دھوپ
محبت جیسے اچھلتی کودتی آبشار
ہر صبح ایک نیا روپ
ہر شام ایک نیا ڈھنگ
ہر رات گویا ساعت طرب
لمحوں کی ملاقات برسوں کا فسانہ

برسوں کا فسانہ چہرے کی باریک لکیروں میں نمایاں
غصہ کے بھڑکتے ہوئے الاؤ کو محبت کی ایک بوند کافی
چلیں تو زمانہ ساتھ ساتھ چلے
گویا ہر طرف انقلاب و اضطراب کی کیفیت ہوجائے
رکیں تو ساعتوں کو بھی نیند آجائے

نسبتا فربہ ہونٹوں کی رنگینی، رنگینی طبع کی عکاس فروبہی جسم خاص طور پر فربہی شکم جو گرانی طبع کا اکثر باعث رہتی ہے، یہ فربہی ہے کہ کسی طور کم ہونے میں نہیں آتی ہزار حیلے کیے مگر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مریض محبت پی رحمت خدا کی
کے مصداق نظر آتے ہیں

ہمیشہ منفرد نمایاں انداز کا لباس زیبِ تن کرنا طبیعت کا خاصہ رہا، اس کوشش کبھی میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کبھی مولانا حالی کی نیچرل شاعری کے مصداق مرچ مصالحہ زیادہ ڈال دیتے ہیں جس سے ایک نیا ذائقہ جنم لیتا ہے۔

زندگی میں تجربات ازحد ضروری ہیں دراصل زندگی تجربات کے اتصال اور انضمام کا نام ہے بالکل اسی طرح جس طرح علم کیمیا میں آمیزے دوسرے آمیزوں میں ملاؤ تو نئے آمیزے جنم لیتے ہیں اور فارمولوں کی ترتیب جدید نئے فارمولوں کو جنم دیتی ہے بالکل اسی طرح زندگی تحصیل تجربات کا دوسرا نام ہے اور یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے انہی تجربات سے زندگی کا خمیر اٹھتا ہے اور زندگی ارتقاء و انقلاب کی طرف گامزن رہتی ہے ایک بڑا تجربہ دراصل چھوٹے چھوٹے بہت سے تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بھی بہت سے تجربات کیے اور اکثرتجربات کا نتیجہ تجربہ ختم ہونے سے پہلے نکال لینے کی عادت نے ان کے اکثر صحیح فیصلوں کو غلط ثابت کیا ہے خیر کوئی بات نہیں تجربات ابھی جاری ہیں۔

اخبار پڑھنے کے از حد شوقین ہیں انہیں کون سی خبریں اچھی لگتی ہیں اس کا تو شاید ہمیں ٹھیک طرح علم نہ ہو مگر یہ ضرور معلوم ہے کہ بجلی، گیس اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی خبریں طبع نازک پر بہت گراں گزرتی ہیں، اخبار ان کی زندگی کا بہت بڑا سہارا ہے یہ عملی زندگی میں اخباری باتوں کو لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوست تو اسی وجہ سے انہیں اخباری آدمی کا لقب دے چکے ہیں خیر بات تو موصوف کی طبع کی ہورہی تھی بیچ میں اخبار آگیا پر ہم بھی مجبور ہیں کہ اخبار کے بغیر ان کی ذات نابغہ روزگار کا تعارف تشنہ رہ جاتا، اگر آپ کو اخبار ڈھونڈنا ہے انھیں ڈھونڈ لیجیے اخبار آپ کو مل جائے گا یہ اخبار سے ایک مربع فٹ کی دوری بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

ان کی ذات کے کئی پہلو ہیں ان پہلوؤں سے پردہ اٹھائیے آپ کو ایک نئے انداز کا انسان جلوہ گر ملے گا ان کی ذات بڑی پر رونق تھی اگر یہ کچھ کاموں سے توبہ تائب نہ ہو گئے ہوتے، پٹاخے چلانے کے شوق سے توبہ اس وقت کرلی جب ایک نیا اور قیمتی قمیض کئی پٹاخے ایک دم چل جانے سے جل گیا اور اس میں کئی چھید ہوگئے اس وقت پٹاخے چلانے کے منتظم اعلی صاحب موصوف تھے۔

نیلام گھر کے طارق عزیز کی قمیض میں چنٹ دیکھ کر موصوف کو بھی اسی طرح کا سوٹ پہننے کا شوق پید ہوا تو قریبی درزی کو سمجھا بجھا کے اس طرح کا سوٹ سینے پے راضی کیا گیا درزی نے دل پہ پتھر رکھ کے سوٹ میں چنٹیں بھردیں مگر جب سوٹ پہنا گیا منظر کچھ یوں تھا جیسے کسی ستون پہ لفافہ چڑھا دیا گیا ہو خیر قمیض اتارا گیا بلکہ اتروایا آگیا تو موصوف نے نت نئے فیشن اختیار کرنے سے جزوی توبہ کرلی۔

انھوں نے شاید اخبار میں پڑھا یا کسی حکیم نامدار سے ملاقات میں تذکرہ چھڑا کہ سکوائش انسانی جسم اور روح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے جو سردیوں میں جی بھر کے مالٹے کھا لے یا اس کا اسکوائش پی لے اسے گرمیوں میں گرمی نہیں لگتی بس پھر کیا تھا شہر کی فروٹ منڈی کا دورہ کیا گیا اور پوری 58 پلی مالٹے خریدے گئے جو دو بڑی ریڑھیوں پر لاد کر کوچوان بڑی احتیاط کے ساتھ گھر تک لائے اور جب 58 پلیوں کے منہ کھلے تو محلے داروں کے منہ بھی کھلے کے کھلے رہ گئے گھر کے ہر گوشے ہر کونے میں مالٹوں کا ایک انبوہ کثیر تھا اتنی بڑی مقدار میں مالٹوں کا جوس نکالنا بڑی جان جوکھم کا کام تھا خیر کسی نہ کسی طرح یہ معرکہ سر ہوا جوس نکالا گیا، گرم کیا گیا، ایسنس ڈالا گیا، ٹھنڈا کیا گیا، بوتلوں میں بھرا گیا، محلے کے چالیسیوں گھروں کو جب اگلی صبح مالٹے کے چھلکوں کی سڑاند نے آلیا تو لوگوں نے محسوس کیا کے محلے میں کچھ نیا ہوا ہے ان ساری باتوں خجلتوں اور قباحتوں سے بھی اعراض کا معاملہ ہو سکتا تھا اگر وہ اسکوائش کسی کام کا بن گیا ہوتا، شاید کوئی مصالحہ ڈالنے میں کمی بیشی ہوگئی یا طریقہ کار میں ترمیم کر بیٹھے اسکوائش کا ذائقہ کچھ کسیلا سا ہو گیا، جس نے ایک گلاس پیا دوسرا مانگنے کی زحمت نہ کی پھر اس کے بعد موصوف کے منہ سے کبھی مالٹوں کے سکوائش کے کثیر فوائد نہیں سنے۔

انہوں نے ایک بار ٹیلی ویژن میں ایڈورٹائزمنٹ دیکھ کر لاہور سے فون پر آرڈر دے کر کپڑے سینے والی مشین منگوائی اور بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگے سیلز مین سے برابر فون پر رابطے میں رہے خیر ایک طویل انتظار کے بعد وہ مشین جب گھر پہنچی اور انہوں نے مشین کا پہلا دیدار کیا تو ایک مایوسی نے ان کو گھیر لیا حیرت سے آواز گویا رندھ سی گئی کوئی لاکھ یقین دلوائے مگر وہ ماننے پر تیار ہی نہ تھے کہ یہ چھوٹی سی مشین کپڑے بھی سی سکتی ہے یوں لگتا تھا جیسے وہ انہیں کھلونا دے کر جا رہا ہے، پھر بروقت فیصلہ کیا گیا اور گھاٹے منافع کا کچھ لحاظ نہ رکھتے ہوئے مشین واپس بھیجوا دی گئی

کلاس روم میں مانیٹر کو ایک دن میں تین بار مارنے کا ریکارڈ قائم کرنے کی بات ہو یا استاد کو گریجویٹ سے بات کرنے کی تمیز سکھانے کا معاملہ ہو، آپ کو ہر انداز میں ایک نیا رنگ ملے گا نیا روپ ملے گا۔

شرط لگانا ان کی عادت ثانیہ ہے وہ اس امید پر ہر نئی شرط لگاتے ہیں کہ شاید یہ شرط جیت جائیں اورسابقہ شکستوں کا ازالہ ہوجائے مگر فی الوقت تک ک ایسا ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔

پینٹ شرٹ میں خوب دکھائی دیتے ہیں زندگی میں انہوں نے کتنی بار پتلون پہنی اس کو تو ٹھیک طرح سے گنا نہیں جا سکتا مگر جب بھی پہنی کمال نظر آئے، ایک بار پینٹ شرٹ میں ملبوس ہو کر کسی سفر سے گھر واپس آرہے تھے کی اپنی گود میں ایک رنگین شاپنگ بیگ رکھ لیا جس نے دوران سفر اپنا خوب رنگ چھوڑا تو موصوف کی سفید شرٹ رنگ برنگی ہوگی جب بس سٹاپ پر اترے تو گھر جانے کے ایسے راستے ڈھونڈتے رہے کہ کہ جن پر چل کر کم سے کم لوگ ان سے ملیں۔

کرکٹ خوب کھیلتے ہیں بیٹنگ کا انداز اچھوتا اور نرالا ہے خود کو آؤٹ ہونے سے بچانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں مگر اکثر لیٹ کٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوجاتے ہیں۔

فطرت کے بہت حد تک دلدادہ ہیں پھول، خوشبو اور ہرے بھرے میدان ان کی جان ہیں، اگر ان سے زندہ رہنے کے لیے پسندیدہ ترین جگہ کا نام پوچھا جائے تو شاید مالدیپ کے خوبصورت جزیرے کا نام لیں گے جہاں فطرت کا حسن اپنی تمام ترجلوہ آرائیوں کے ساتھ موجود ہے۔

کھدر پہننے کے شوقین تھے مگر ایسا دل چلا کے کھدر کا نام لینا بھی شاید اب گوارا نہیں۔ مونچھوں کے ساتھ اکثر چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے آخر ایک دن میدان بالکل صاف کردیا۔ سائیڈ بزنس یعنی بغلیں کاروبار کے از حد شوقین تھے اور اس ٹوہ میں لگے رہتے تھے کہ کوئی اچھا سا سائیڈ بزنس کیا جاوے تاکہ آمدن دوچند ہو جاوے لہذا ایک اچھوتا کاروبار سوچا گیا اور آن کی آن میں اس کو عملی جامہ پہنایا گیا، لہذا اپنے گھر کی بیٹھک میں پلاسٹک کی خالی کپیاں بنانے کا کارخانہ قائم کیا گیا، مشین نے شروع میں خاصا پریشان کیا کپیاں خراب بننا شروع ہو گئیں تو بہت دل آزاری ہوئی جب وہ ٹھیک بننا شروع ہوئیں تو ایک اور مصیبت نے آلیا کہ اتنی کثیر تعداد میں پلاسٹک کی کپیوں کا چھوٹے سے شہر میں کوئی خریدار ہی نہ تھا گھر میں کپیاں ہی کپیاں تھیں مگر گاہک ندارد، پھر کیا تھا مشین کو بیچنے کا فیصلہ کیا گیا کافی تگ و دو کے بعد اس مشین کا گاہک بھی وہی روسیاہ بنا جس سے یہ خریدی گئی تھی اس نے مشین تو واپس رکھ لی مگر پیسے دینے کی بجائے ایک سکوٹر دے دیا اسکوٹر کو یوں گھر لایا گیا جیسے چیل کے منہ سے بچہ چھڑا کے لایا جاتا ہے، 14 دن تک سکوٹر گھر میں کھڑا منہ چڑاتا رہا آخر کار اس کوبیچ دیا گیا اوربغلی کاروبار اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔

انہوں نے سپوکن انگلش کورس مکمل کرنے کے کچھ عرصہ بعد کورین لینگویج کورس بھی کرلیا، کمپیوٹر ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کا کورس اس کے علاوہ ہے گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں میں اپنے معلم کے ساتھ پورے شہر کو چیر کر دوسری طرف جانا شاید ابھی بھی نہ بھولے ہوں۔

نصف درجن ایم اے کرچکے ہیں اور نصف درجن سے زائد کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ اس انسان کی شخصیت کا ہلکا سا عکس ہے جو عرصہ 20 سال سے ہمارے ساتھ ہر خوشی اور غم میں شانے سے شانہ ملا کر کھڑا ہے اس کی شخصیت کے ہزار روپ سہی مگر ہر روپ میں آپ کو ایک سچا کھرا اور سادہ انسان ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).