پنجاب پولیس اور بدمعاشیہ


میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب​ / اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
ہم میں سے کسی نے بھی اپنے اللہ کو تو نہیں دیکھا لیکن اس رب ذوالجلال کی قدرت کو دیکھ کر اس کے ہونے کی شہادت دیتے ہیں گزشتہ سال وسط ستمبر میں خان صاحب نے ملک کی انتہائی اعلی، بددیانت، اور پڑھی لکھی بے حس ایلیٹ کلاس (بیوروکریسی) سے خطاب کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا بال بال کرپشن میں جکڑا ہوا ہے۔ جو سیاستدانوں کو کرپشن کے گُر بتاتے ہیں۔

لیکن ”کارروائی“ ہمیشہ سیاستدانوں کے خلاف ہوتی ہے۔ خان صاحب کا ان بیوروکریٹس سے خطاب بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔ جب احتساب کا شکنجہ ان کے گرد کسا جانے لگا تو ارباب شہزاد ایسے لوگوں کو بھی یاد آ گیا کہ ہماری یہ احتساب اور قانون سے بالاتر ایلیٹ کلاس ”عالمِ پریشانی“ میں ہے اور ٹھیک طرح سے ”پرفارم“ نہیں کر پا رہی میں حیران ہوں کہ گذشتہ کئی دھائیوں سے یہ لوگ قوم کا ناطقہ بند کیے ہوے تھے تب ارباب شہزاد جیسے لوگ کہاں تھے؟

ارباب شہزاد کو اس محکوم عوام کا تو کبھی خیال نہیں آیا۔ اس ملک میں جتنی بھی حکومتی سطح پہ کرپشن ہوئی ہے اس میں یہ سب بیوروکریٹس برابر کے شریک ہوتے تھے۔ یہ ممکن ہی کیسے ہے کہ کوئی بھی وزیر مشیر یا حکومتی پارٹی کا کوئی عہدیدار حکومتی سطح پہ کرپشن یا کوئی بھی کام اس محکمہ کے سیکریٹری کی مرضی، منشاء یا منظوری کے بغیر کر پائے۔ وزیر اعظم کو انھیں خطاب کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ ایلیٹ کلاس سمجھتی ہے کہ ہم دنیا میں صرف حاکمیت کے لئے آئے ہیں اور عوام ہماری محکوم ہے۔

مہذب ملکوں میں کہاں ہے یہ بیوروکریسی سسٹم؟ یہ صرف انگریزوں نے ان ملکوں میں متعارف کرایا جنہیں وہ ہمیشہ غلام بنا کر رکھنا چاھتے تھے راقم الحروف کی نظر میں تو ان سب کا کڑا اور بے رحمانہ احتساب شروع ہو جانا چاہیے تھا جو کہ ابھی تک ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ انھیں ارباب شہزاد جیسا مسیحا جو مل چکا ہے۔ یہ لوگ اپنی کلاس کے لوگوں کو بچانے کے لئے قانون قاعدے حتی کہ آئین کو بھی اپنے پاوں تلے روند دیتے ہیں۔

جیسے بہت عرصہ پہلے راولپنڈی کے ایک اے ڈی سی جی کولاھور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ سے سزا ہوئی ہائیکورٹ سے نکلنے اور اڈیالہ روڈ تک پہنچنے سے پہلے اس کی سرکاری رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیے جانے کے صوبائی سیکریٹری داخلہ اور چیف سیکریٹری پنجاب کی طرف سے احکامات جاری ہو چکے تھے۔ لیکن یہ بیوروکریسی تب بھی جاتی امرا والوں کا دُم چھلا بنی ہوئی تھی اور آج بھی امید بہار کی آس لیے ماڈل ٹاون اور جاتی امراء کی مکینوں سے مکمل رابطے میں ہے۔

ابھی جبکہ حکومت اور حالات دونوں یکسر بدل چکے ہیں لیکن چھٹتی نہیں کافر منہ سے لگی ہوئی۔ موجودہ بیوروکریسی کے متعلق میں پہلے بھی سوشل میڈیا پہ اپنے بلاگز میں یہ بات کہہ چکا ہوں باقی مہذب ملکوں کی طرح یہاں بھی بیوروکریسی سسٹم کو ختم ہونا چاھئیے اور اپنے منشور کی implementation کے لیے ہر آنے والی حکومت اپنی ٹیم لے کر آئے جو پڑھے لکھے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اھل افراد پر مشتمل ہو کیونکہ گزشتہ کچھ دھائیوں سے سیاستدانوں نے بیوروکریسی سے ملکروطن عزیز کو تماشبینوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا ہے اگر یہ ایلیٹ کلاس ٹھیک ہوتی تو نواز شریف اور زرداری ملک کا دیوالیہ نہ نکال چکے ہوتے بلکہ موجودہ بیوروکریٹ تو ابھی تک ماڈل ٹاون اور جاتی امراء کے مکینوں سے رابطے میں ہیں اگر یہ کہا جاے تو مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ وھاں سے ڈائریکشن لے رہے ہیں۔

کیونکہ جن بیوروکریٹس کو سالہا سال سے شریف برادران نے کھڈے لائن لگا کر رکھا ہوا تھا انھیں یہ تبدیلی بھی راس نہ آ سکی۔ اور ن لیگ کے دور اقتدار میں سالہا سالہاسال سے مزے کرتے بابو آج بھی اعلی پوسٹوں پہ موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سب کا بھی بے رحمانہ احتساب ہو۔ عوام نے موجودہ حکومت کو ووٹ ان کرپٹ زدہ بیوروکریٹس کو تخفظ دینے کے لیے نہیں دیے تھے۔ عوام کی حالت بدلنے کے لیے دیے تھے۔ قوم نے حکمرانوں کو ”لائنسں ٹو کِل“ کرپشن کے مگر مچھوں کے خلاف دیا تھا۔

کرپشن کنگز کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے نہیں۔ جناب وزیر اعظم صاحب آپ کو ووٹ دیے گئے تھے تاکہ غریبوں کو تعلیم روزگار اور انصاف ملے۔ آپ نکل پڑے تھے اپنے ایک ایچیسونین بیوروکریٹ دوست کا دکھڑا سنانے کہ اپنے بچے کو ایچیسن پڑھانے کے لیے اس کو کیا مشکلات درپیش آئیں۔ آپ کی اس ایلیٹ کلاس سے تقریر نے عوام کو مایوس کیا تھا۔ میں نے اس وقت بھی آپ کی تقریر کے فورا بعد سولہ ستمبر کو اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ اس خطاب کا کچھ بھی اثر نہیں ہونے والا۔

آپ کی حکومت الٹا اس کا نقصان اٹھائے گی۔ آپ نے اتنے بڑے سیاسی مافیا کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ لیکن ایک بیوروکریٹ کے کہنے پہ۔ آپ نے اس کرپشن بددیانت نا اھل اور بدقماش ایلیٹ کلاس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہوئی کہ دو مہینے بعد ہی آپ نے کہہ دیا کہ بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی۔ تو جناب انھیں آپ کے بھاشن کی نہیں ڈنڈے کی ضرورت تھی۔ لیکن لگتاھے۔ افسوس کے ساتھ۔ لگتا ہے کہ۔ رضیہ غنڈوں میں پھنس چُکی ہے ورنہ جنابِ وزیراعظم آپ کبھی ایسے کرپشن زدہ لوگوں سے مخاطب نہ ہوتے۔

انتہائی دکھ ہوا تھا وہ سب دیکھ کر جس کا میں نے اپنے بلاگز میں ذکر بھی کیا تھا کیونکہ مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے آپ کے ورکرز کی بائیس سالہ جدوجہد اور قربانیاں اس ملک کی بدمعاشیہ کے سرغنہ ارباب شہزاد نے اپنے پاؤں تلے روند کر رکھ دیں۔ اور قوم کو یہ بتا دیا کہ یہ ملک ہمارے جیسی ایلیٹ کلاس کے لیے بنا ہے۔ اور۔ بحثیت قوم تمھارا کام صرف نعرے لگانا اور خون دینا ہے۔ اسی طرح دوسری طرف پنجاب پولیس کا بھی یہی حال ہے ابھی تک تھانہ جات اور ناکہ جات بک رہے ہیں ابھی تک حرام کی کمائی اوپر تک جا رہی ہے۔

بلکہ اب سنا ہے کہ پولیس میں اعلی سطحی تبادلہ جات کا ایک ریلا آنے لگا ہے جو کہ راقم الحروف کی نظر میں وقت کی ضرورت تو ہے ہی۔ لیکن اس کے لیے کیا کوئی جامع پالیسی بنائی گئی ہے یا ہمیشہ کی طرح تھانوں اور ناکوں کا اسٹاک ایکسچینج کھلنے لگا ہے۔ مناسب ہوتا اگر ایسا کرنے سے پہلے کوئی جامع پالیسی تیار کر لی جاتی یا جو اصلاحات کا واویلا کیا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم قطر سے واپس آتے ہی کوئی تھیلے سے اصلاحات کی بلی نکالیں گے اور وہ راتوں رات نافذ ہو جائے گی جس کے بعد تمام پنجاب پولیس کے سرکاری گماشتے توبہ تائب ہو جائیں گے خیر جس ملک میں سارے کام اب عمران خان نے ہی کرنے ہیں کیونکہ تین چار وزرا کے سواء باقی وفاقی اور صوبائی وزراء تو ماسوائے سوشل میڈیا پہ تصویریں اپلوڈ کرنے کے ابھی تک تو کچھ کر کے دکھا نہیں سکے عوام کو کیا خاک ریلیف دیں گے۔

خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی مناسب ہو گا کہ اعلی سطح پہ جن افسران کو شریفوں نے کھڈے لائن لگا رکھا تھا انھی فیلڈ میں لایا جاے بلکہ یہ سلسلہ نچلی سطح شروع سے کرنا ہو گا جو چھوٹے ملازمین بھی عرصہ دراز سے پولیس لائینز میں سفارش نہ ہونے کے باعث کھڈے لائن لگے ہوے ہیں ان کوبھی فیلڈ میں لایا جاے۔ کرپشن یا جرائم میں ملوث اہلکاروں اور افسروں کے خلاف Peeda Acta کے تحت کارروائی کر کے انھیں محمکہ جات سے نکال باھر کیا جاے اسی طرح اوپری لیول تک اس کو بڑھایا جاے۔

نئی بھرتیوں میں نہ صرف میرٹ کو ملحوظ رکھا جاے بلکہ ان کی ڈیوٹی کا دورانیہ آٹھ گھنٹے مقرر کیا جائے ایک سپاھی کے لیے یا پاکستان میں کسی بھی سرکاری ملازمت کے لیے تعلیمی قابلیت ایف اے مقرر کی جائے اس سے ملک میں شرح خواندگی بڑھے گی نیز اہل کاران و انسٹرکٹر کی تربیت کا فریضہ کم از کم دس سال کے لیے پاکستان آرمی کو سونپ دیا جاے۔ جدید تفتیشی طریقہ کار کے لیے ان کو کورسز کروائے جائیں تاکہ موقع واردات سے شواھد کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ڈیوٹی اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کرنے سے ان کی کام کرنے کی صلاحیت میں ضافہ ہو گا لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اگر خان صاجب سردار عثمان بزدار کو اگر پنجاب میں کامیاب دیکھنا چاھتے ہیں تو پھر ایڈمنسٹریشن کے معاملات کو بہترطرقہ سے چلانے کے لیے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کی ٹیم تشکیل دیں جو بیوروکریسی اور پنجاب پولیس اصلاحات کے معاملات بشمول ٹرانسفر پوسٹنگز کو بھی ہینڈل کریں ورنہ اس ملک کی بے لگام پولیس اور بدمعاشیہ آپ کی حکومت کو گرانے کے لئے کوشاں ہے۔

اور اس ساری بددیانتی نالائقی کا دوسرا نام آپ کا آئی جی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی ہے جو اس وقت بھی وزیر اعلی کی بجاے کسی ”اور“ کے زیر اثر ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں موصوف کا ٹریک ریکارڈ اتنا قابل ستائش بھی نہ ہے کیونکہ پنجاب میں موصوف کے متعلق مشہور ہے کہ۔ ”جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے“ 2013 میں موصوف لاھور میں بطور سی ای پی او تعینات تھے جب کرسچئین کالونی کو نذر آتش کیا گیا مارچ 2009۔ لاھور میں ڈی آئی جی آپریشن تعینات تھے جب قذافی اسٹیڈیم کے قریب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور پوری دنیا سے کرکٹ ٹیموں نے پاکستان آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا۔

ان پہ مجرمانہ غفلت کا الزام لگا کر انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 2014 میں ملتان جلسہ کا واقعہ جس میں پاکستان تحریک انصاف کے سات کارکن جاں بحق اور درجنوں لوگ زخمی ہو ئے موصوف اس وقت وھاں بطور آر پی او تعینات تھے اور پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کی تمام تر ذمہ دارہ ضلعی انتظامیہ اورہ پولیس پہ عائد کی تھی پرویز مشرف دور میں بطور ڈی پی او سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل میں فائرنگ کے تبادلے میں سات ججز ہلاک ہوئے تب بھی ان پہ مجرمانہ غفلت کا الزام لگا کر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

موصوف کو جب آئی جی پنجاب بنایا گیا تو ساھیوال سانحہ رونما ہوا۔ ان حالات میں یہی محسوس ہو رہا ہے جیسے موجودہ آئی جی پنجاب کی سربراھی میں حکومت کسی بڑے سانحے کی منتظر ہے جو موجودہ حکومت کو عوامی پریشر کے نتیجے میں ”باعزت طور پہ“ گھر کی راہ دکھا سکے ویسے بھی راقم الحروف کی نظر میں موجودہ آئی جی پنجاب کے ہوتے ہوے پی ٹی آئی حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر کسی تگڑی اپوزیشن کی ضرورت نہیں بلکہ بطور آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی ”میں کَلا ای کافی آں“ لہذا ضرورت اس امر کی بھی ہے جرائم کی بیخ کنی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کسی ایسے شخص کو آئی جی پنجاب کو مقرر کیا جائے جس کا ٹریک ریکارڈ بہتر ہو کیونکہ موجودہ آئی جی کے ہوتے ہوئے نہ تو پولیس اصلاحات لائی جا سکیں گی اور اگر ان اصلاحات کو نافذ کر بھی دیا گیا تو شاید ان پہ عملدرآمد ممکن نہ ہو سکے۔

کیونکہ شنید ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں انھیں جب بھی ہٹایا گیا تو حمزہ شہباز کے پیاروں میں ہونے کی وجہ سے ہر دفعہ بروقت کمک پہنچ جاتی رہی۔ نیز نئی ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی تیار کی جائے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب پولیس پی ٹی آئی ْ کے خلاف اپوزیشن کا رول ادا کر رہی ہے جس سے بے چاری تبدیلی کی خواھشمند عوام تھانوں میں ان شیر جوانوں کے ہاتھوں خوار ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).