تحصیل احمد پور شرقیہ کے سرکاری سکولوں کی پکار اور آئین


تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس لئے دنیا بھر کی حکومتیں اپنے شہریوں کو تعلیمی سہولیات اورمعیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے اقدامات کرتی ہیں۔ اپریل 2010 ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی پارلیمان نے دستور میں آرٹیکل 25 (اے ) کا اضافہ کیا۔ جس کے تحت معیاری تعلیم کو کسی بھی شہری کا بنیادی حق قرار دیا گیا مگراسی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ہی تعلیم کے اہم ترین شعبے کوصوبوں کے سپرد کرکے اس بنیادی حق کی فراہمی کو کاغذی کارروائی تک محدود کر دیا گیا۔

آرٹیکل 25 (اے ) میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست پانچ برس سے سولہ برس تک کی عمر والے بچوں کو قانون کے مطابق مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی۔ بروکن پرامیسز رپورٹ کے مطابق کم ازکم دو کروڑ باون لاکھ بچے جن کی عمریں پانچ سے سولہ برس کے درمیان ہیں سکول نہیں جاتے۔ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا محض 2.8 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو کہ عالمی معیار کے مطابق طے کردہ 4 سے 6 فیصد سے بہت کم ہے۔

پاکستان کے دیگر صوبوں کے برعکس پنجاب میں گزشتہ برسوں میں سکولز ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جہاں اساتذہ کی خراب کارکردگی کے باعث پنجاب پبلک سکول سپورٹ پروگرام کے تحت سرکاری سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے توسط سے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی پالیسی پر گامزن رہا۔ وہاں وہ انہی سرکاری سکولوں میں بنیادی تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ ضلع بہاول پور کی سب سے بڑی تحصیل احمد پور شرقیہ میں بوائز پرائمری سکولوں کی کل تعداد 189 ہے تاہم ان تمام سکولوں میں صفائی کے لئے ایک بھی خاکروب تعینات نہیں۔

جس کے باعث اساتذہ اور طلبہ کو وقتی طور پر خاکروب کے فرائض بھی سرانجام دینا ہوتے ہیں۔ اسی طرح 175 سکولوں میں درجہ چہارم کا کوئی ملازم نہیں جبکہ 16 سکولوں کی چاردیواری ندارد ہے۔ اسی طرح تحصیل بھر کے کل 226 گرلز پرائمری سکولوں میں 221 میں خاکروب، 85 میں درجہ چہارم کے ملازمین، 23 سکولوں کی چاردیواری، 122 سکولوں میں ٹوائلٹ کی کمی جبکہ 100 سکولوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ تعلیمی ذرائع کے مطابق تحصیل بھر کے 37 بوائز مڈل سکولوں میں سے کسی بھی سکول میں خاکروب نہیں۔

جبکہ متعدد سکولوں میں درجہ چہارم کے ملازمین، ٹوائلٹ اور چاردیواری کی کمی ہے۔ تحصیل بھر کے 31 گرلز مڈل سکولوں میں سے بھی زیادہ تر چاردیواری، ٹوائلٹ اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ تحصیل بھر میں کئی سکول ایسے بھی ہیں جن کی عمارتیں خطرناک ہیں جبکہ کئی سکولوں میں بجلی، پلے گراؤنڈاور لایبریریوں کی سہولت بھی موجود نہیں۔

کہنے کو تو یہ ضلع بہاول پور میں ایک ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی بھی قائم ہے جو ہر چند کہ کہیں ہے نہیں ہے۔ سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے نان سیلری بجٹ کی مد میں سالانہ لاکھوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں جو سکول کونسل کی مشاورت سے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن یہ فنڈز بھی محکمانہ آپادھاپی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اساتذہ کے مطابق اکثر سکولوں کو اپ گریڈ کرنے کی بجائے محکمہ کی جانب سے ان کے سروں پر انرولمنٹ مہم کے تحت بچوں کے داخلے یقینی بنانے کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے۔ اساتذہ کی منت سماجت کے بعد زیادہ تر والدین اپنے بچے سکولوں میں تو بھیج دیتے ہیں لیکن جب وہ سکولوں کی حالت دیکھتے ہیں تو بچوں کو دوسرے سکولوں میں داخل کرادیتے ہیں، جس پر محکمہ کی جانب سے اساتذہ کی جواب طلبی بھی ہوتی ہے۔

یہ تو تحصیل احمد پور شرقیہ میں سکولوں کی مجموعی صورت حال کا مختصرجائزہ تھا۔ یہاں ہم تحصیل احمد پور شرقیہ کے نواحی موضع کوٹ خلیفہ کی بستی زرگر میں قائم گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول قائم کا ذکر کرنا چاہیں گے جواپنی اپ گریڈیشن کے لئے محکمہ تعلیم کی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔ 2003 ء میں قائم ہونے والا یہ سکول دو کنال رقبے پر محیط ہے اور اس کی عمارت محض دو کہنہ سال کمروں پر مشتمل ہے۔ اساتذہ کی کل منظور شدہ اسامیاں پانچ ہیں لیکن اس سکول میں فی الوقت تقریباًدو سوطالبات تین معلمات کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن اس سکول کودرجہ چہارم کے عملے، فرنیچر، کلاس رومز اور دیگر بنیادی سہولیات کی کمی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔

یہ سکول گردونواح کے درجنوں دیہات کو تعلیمی سہولیات فراہم کرتا ہے تاہم آج تک اس کا درجہ پرائمری سے نہیں بڑھ سکا۔ اس سکول سے پانچویں کا امتحان پاس کرنے والی بیشتر طالبات اہل دل معلمات کی رہنمائی سے اسی سکول میں مڈل کلاسزپڑھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اس علاقے سے گرلز مڈل سکول اور ہائی سکول دس کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہیں۔ زیادہ تر والدین سفری اخراجات پورے نہ کر سکنے کی بنا پر اپنی بچیوں کو تعلیم نہیں دلا پاتے، اسی بنا پر سیکڑوں بچیاں پرائمری کے بعد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رہنما جمیلہ ناز (ایڈووکیٹ) کا کہنا ہے کہ بہترین امتحانی نتائج کے حامل اس سکول کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا۔ بستی زرگر کی اکثریتی آبادی چھوٹے کاشتکار اور مزدور طبقہ پر مشتمل ہے جو اپنی بچیوں کواس سکول کی وجہ سے پرائمری تک آسانی سے تعلیم دلا دیتے ہیں جبکہ اس بستی میں مڈل سکول نہ ہونے سے وہ اپنی بچیوں کو آگے تعلیم نہیں دلا پاتے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے کی بچیوں کو سستی تعلیم فراہم کرنے پرائمری سکول زرگر کوجلد از جلد مڈل سکول کا درجہ دیا جائے۔

سکول کونسل کے ممبراور مقامی رہائشی اللہ ڈتہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ حکومت اور محکمہ تعلیم ان کے علاقے کومسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا علاقہ انتہائی غریب لوگوں پر مشتمل ہے جن کا پیشہ زراعت ہے اور جو انتہائی غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس علاقے میں لڑکیوں کے لئے مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بچیوں کو پرائمری کے بعد باقی تعلیم نہیں دلوا سکتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا کہ پرائمری سکول بستی زرگر کو مڈل کا درجہ دے کر مکینوں کی دیرینہ خواہش پوری کی جائے۔

علاقے کی سرکردہ شخصیات محمد فیاض، عبدالطیف، عبدالرزاق، رفیق احمد، اللہ بچایا، محمد نواز، محمد وسیم، محمد منیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مڈل سکول اس اہل علاقہ کا حق ہے جو انہیں ہر حال میں ملنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اگر پرائمری سکول بستی زرگر کو اپ گریڈ کر دیا جائے تو اہل علاقہ کو نجی تعلیمی اداروں کی مہنگی تعلیم سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے گا، علاقہ مکین اورسکول کونسل کے ممبرمحمد جاویدنے کہا کہ دو سوسے زائد طالبات کے لئے دو کمرے ناکافی ہیں، کلاس رومز نہ ہونے کی وجہ سے طالبات کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے بچیوں کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی گرمی وسردی سے بچنے کے لئے طالبات کے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی، اہل علاقہ کے مطابق چند ماہ قبل تک سکول چار دیواری اور پینے کے پانی سمیت دیگر کئی بنیادی سہولیات سے محروم تھا اور اسی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی زیادہ تھی، زیر تعلیم بچیوں کی تعداد بھی خاصی کم تھی تاہم حال ہی میں تعینات ہونے والی ہیڈ ٹیچر کی کاوشوں اور مسلسل محنت سے سکول کے تعلیمی معیار میں خاصی بہتری نظر آئی ہے، اس دوران سکول کی چار دیواری کے علاوہ پینے کے صاف پانی کا بھی انتظام کیا گیا اورسکول کونسل کو فعال بناکر باہمی مشاورت سے نان سیلری بجٹ کے مثبت اور بامقصد استعمال کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کیے گئے، اہل علاقہ نے سکول سٹاف کی تدریسی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پرائمری پاس کرنے کے بعد بھی طالبات کو اس سکول میں مڈل کی کلاسز پڑھائی جاتی ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول بستی زرگر سمیت تحصیل بھر میں بنیادی سہولیات سے محروم سکولوں کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے کی مہم اچھا اقدام ہے لیکن اس سے پہلے سکولوں کی حالت زار بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).