کنچے


25 سال بعد اس کی ہاتھی دانت جیسی سفید، شیور لیٹ لمحہ بہ لمحہ اسے اس کے گاؤں کے قریب لیے جا رہی تھی، اس کی گاڑی اصل میں ماضی کے راستے پر دوڑنے والا سرپٹ گھوڑا تھا جو اب عین اس جگہ آ رکا تھا جہاں وہ روز شب تصور میں آ کر کھڑا ہوتا تھا اور ماضی کے کمرے کی کھڑکی سے اپنے بچپن کو اس کمرے میں گھومتا پھرتا دیکھتا تھا۔

کار کا دروازہ بند کرتے ہوئے گزرے وقت کا دروازہ اس کے لیے کھلتا چلا گیا۔ 25 سالوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا سوائے محلے کی کچی دیواروں کے پکے ہونے اور ان کی چھتوں پر دھوپ سینکتے ڈش انٹینوں کے۔

اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے گلی کی وہی پرانی بے ڈھبی اینٹیں اچھل اچھل کراسے گلے لگانے کے لئے بے تاب ہیں اور اسے کہہ رہی ہیں کہ ان کے درمیان جمی مٹی کو وہ پھر سے بچپن کی طرح کریدے اور کنچے کھیلنے کے لیے ان کے درمیان جمی مٹی میں دوبارہ سے چھوٹے چھوٹے وہ گڑھے کھود ڈالے جو اس کی بچپن کی یادوں نے اکثر اس کے ذہن میں کھودے تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے قدموں کو گلی کی اینٹیں پکڑ رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ پھر سے وہ نیلے ہوائی چپل پہن کر آ جائے اور ان کے غبار آلود جسموں پر دھول اڑاتا ہوا پھر سے فاتحانہ انداز میں چلے جیسے وہ بچپن میں کوئی چڑیا کا بچہ پکڑ لینے پر ہاتھ لہراتا ہوا تیز قدموں سے چلتا تھا۔

چند منٹ کے فاصلے پر اس کے گھر کی طرف جانے والے راستے کے دائیں بائیں کچھ بھی نہ بدلا تھا، ہاشم کی دوکان اس وقت بھی دوپہر کے ان اوقات میں بند ہوا کرتی تھی جس کے آگے صاف تھڑے پر وہ اور اس کے ہم عمر کنچے کھیلا کرتے تھے۔

دوکان کے سامنے کنچے کے لیے کھودے گئے ان چھوٹے گڑھوں نے اس کے پاؤں روک لیے، اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال لیے اس کی نظریں ان کے اندر تک چلی گئیں اور وہاں ایسی جڑیں کے وہ وہیں رکا رہ گیا۔

وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گزرنے والے پل کی طرح آ گیا جب رنگ برنگے کنچے کل کائنات ہوا کرتے تھے، جن کی جیت کی خوشی پہلی تنخواہ سے زیادہ، جن کی خوبصورتی اور چمک اس کی بیوی کی غزالی اور کاجل والی آنکھوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوا کرتی تھی، وہ کنچے جیبوں میں جلترنگ بجاتے تھے اور بھری جیب کے بھاری بھر کم ڈیبٹ و کریڈٹ کارڈ تھے۔

وہ پھر سے نیلے ہوائی چپل پہن کر ہاشم کی دوکان کے پچھواڑے پیپل پر چڑھتا چلا گیا اور اس کے منہ کا بوسہ لینے والی ان پتے دار ٹہنیوں پر پھر سے جھولتا ان کو توڑتا پکڑن پکڑائی کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔

بارش کے دنوں میں نیلے ہوائی چپلوں کے ساتھ لگنے والے کیچڑ کی خوشبو پھر سے اس کے نتھنوں کو کھولتے ہوئے اس کے دماغ میں آ بیٹھی تھی، وہ پھر سے خان محمد، ارشد اور اس کے دیگر ہم عمروں سے نیچے گرنے والے کنچوں کو بچاتے ہوئے ان سے گتھم گتھا تھا اور اپنی ٹنڈی ململ کی قمیض پھر سے کیچڑ سے گندی کر ڈالی تھی۔

اس نے جوہڑ پر کپڑے دھونے کے لیے جاتی ہوئے ماں کی انگلی پھر سے پکڑی تھی اور پتھر اٹھا اٹھا ساون کے مینڈکوں کو مارنے میں مصروف ہو گیا تھا، اب اس کے ساتھ اس کے باقی دوست بھی کیچڑ سے لدی بھاری چپلوں کے ساتھ ساون کی بیربہٹیوں کو ڈھونڈنے چل نکلے تھے جن کو پکڑ لینے والا ایک فاتح کی طرح تفاخر سے دوسروں کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ لہراتا یہ تأثر دیتا تھاکہ ہاں میں ہوں دنیا کا امیر ترین شخص بیر بہٹیوں کے خزانے کا مالک، تھا کسی میں دم جو انہیں ڈھونڈ کر اپنا بنا لیتا۔

یادوں کے اس تسلسل کی آندھی میں اڑتی اڑتی ایک یاد بہت زور سے اس کے دماغ سے آ ٹکرائی۔ کنچوں کے لیے کھودے گئے گڑھوں نے اسے وہ دن یاد دلا دیا تھا جب وہ اپنی ماں سے پورے دو روپے کے کنچے خرید کر دینے کی ضد کر رہا تھا اور زمین پر لیٹ گیا تھا لیکن اس کی خواہش تو اس دن کے کھانے سے بھی مہنگی تھی کہ اس کی ماں نے نمک والی وہ مرتبان جیسی خالی شیشی بھی اسے دکھا دی تھی جو ان کی کل جمع پونچی محفوظ رکھنے والے بنک کا کام دیتی تھی، وہ لمحے اس کی روح کی راہداریوں میں سے گزر رہے تھے وہ اپنی ماں کے ہاشم کی دوکان کی طرف اٹھنے والے بوجھل، نا امید قدموں کی آواز بہت صاف سن رہا تھا، اس نے بہت زور سے ماں کا ہاتھ تھام رکھا تھا جب وہ ہاشم کی دوکان میں داخل ہوئے تھے۔ ”گھر وچ کھان جوگا نہیں تے فرمائشاں ویکھو ماں پتر دیاں، پہلے دو ہزار روپے دا ادھار اس دا پیو واپس کرے گا“۔

ایک بار پھر وہ اپنی ماں کے آج بہت قریب تھا جس کی آنکھوں کی التجا وہ اپنے قریب سے دیکھ رہا تھا جتنے قریب سے وہ اپنی آنکھوں سے عینک کی شیشوں کو دیکھتا تھا۔ صبر کرنا اس نے اسی دن پہلی بار سیکھا تھا جب اس کی ماں نے اسے پیار سے بانہوں میں اٹھا کر بالوں میں ہاتھ پھیر پھیر کر سلا دیا تھا اس دوران وہ خود جانے کتنی بار خیال ہی خیال میں ہاشم کی دوکان میں کنچوں کے ڈبے کو ہاتھ لگا کر واپس لوٹ آئی تھی۔

وہ ابھی ماں کی گود میں ہی تھا کہ ہاشم کی دوکان کے نئے لگے شٹر کی اوپر ہونے والی آواز نے اسے 2017 میں لا پھینکا تھا، دوکان کھولنے والا ہاشم نہیں تھا لیکن اس کی شکل و صورت ہاشم سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔

ہاشم کی دوکان کے کھلنے سے اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔ کنچوں پر پڑتی دھوپ جیسی چمک اور وہ دوکان میں گھستا چلا گیا، اس نے ہزار چاہا کہ ہاشم کا پوچھے لیکن اس کی زبان سے یہی نکلا ”مجھے وہ کنچوں کا پورا ڈبہ چاہیے“ دوکاندار لڑکا پہلے تو اس شہری حلیے کے شخص کو دیکھ کر مخمصے میں پڑ گیا، پھر بول اٹھا ”دو سو کے ہوں گے جی سارے“

اس نے چمڑے کے مہنگے بٹوے میں سے ہزار کا نوٹ نکال کر دوکاندار کی طرف بڑھا دیا اور ڈبہ فوراً اٹھا کر ماں سے بچھڑے بچے کی طرح گلے سے لگا لیا۔
”بقایا تم رکھ لو، چاچے ہاشم کا بہت پرانا حساب چکانا تھا“ دوکاندار کو کہتے ہوئے وہ دوکان سے باہر نکل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).