ترکی کا کمبل جس نے میرے باپ کو بھکاری بنا دیا


جیسے ہی جہاز ممباسہ سے نکلا اور کھلے سمندر میں تیرتا، دوڑتا، اُڑتارواں دواں ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ پاکستان میں زلزلہ آگیا ہے۔ اسلام آباد میں مرگلہ ٹاور گرگیا ہے اور کچھ عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بعد میں خبر ملی کہ زلزلہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں آیا ہے۔ پھر خبر ملی کہ مظفرآباد اورہندوستانی کشمیر کے علاقوں میں زلزلے کی شدت ہے۔ پھر پتہ لگا کہ بالا کوٹ اور باغ تو تباہ ہی ہوگئے ہیں۔ پورے کے پورے شہر زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ آبادی صفحہ ہستی سے مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔
ہر خبر کے ساتھ میری حالت غیر ہوتی جاتی تھی، یہ تو میرا علاقہ تھا۔ چٹہ بٹہ کا رہنے والا تھا میں۔ میرے ماں باپ، گھر، بچے، دوست، احباب، رشتہ دارسب چٹہ بٹہ میں تھے۔

جہاز کے ٹی وی والے کمرے میں صبح سے شام تک جب بھی فرصت ملتی میں بیٹھا خبریں دیکھتا اور سنتا رہتا۔ بی بی سی ریڈیو کے اُردو پروگرام کے وقت خبروں سے صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔ خبریں بہت ساری تھیں۔ مانسہرہ، ہزارہ، ایبٹ آباد، چٹہ بٹہ کی خبریں، تباہی کی خبریں، موت کی خبریں، زخمیوں کی خبریں، دنیا بھر سے آنے والی امداد کی خبریں، نقصانات کی خبریں۔ کام کا مزا ختم ہوچکا تھا۔

کراچی پہنچتے پہنچتے خبر مل گئی تھی کہ چٹہ بٹہ میں تباہی ہوئی ہے، مکان گرے بھی ہیں، مویشی کا نقصان بھی ہواہے، لوگ بھی مرے ہیں مگر میرا گھر محفوظ تھا۔ میرے گھر میں کوئی مرا بھی نہیں تھا۔ میں نے اوپر والے کاشکر ادا کیا۔ شکرانے کی نماز پڑھی۔ دیر تک اوپر والے کے آگے سجدہ میں گر کر سر کو جھکا کر دُعا مانگی تھی، رویا تھا، جتنا بھی شکر کرتا کم تھا، میرے مولا کی شان، میرے گھر والوں کو بچالیا، میرے رشتہ داروں کو بچالیا۔

چٹہ بٹہ مانسہرہ سے نکل کر مظفرآباد کے راستے پر پہاڑوں کے درمیان چھوٹی سی جگہ ہے۔ میرا بچپن یہاں گزرا، یہاں ہی میں بڑا ہوا تھا۔ یہاں ہی میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بعد میں کراچی آگیا تھا۔ کراچی میں مختلف کام کیے تھے۔ پہلے ایک ہسپتال کی لیبارٹری میں چائے بنانے اور ڈاکٹروں کو پلانے کی نوکری کی پھر ایک این جی او کے آفس میں بھاگ دوڑ کے کام کا انچارج ہوگیا، جہاں چائے پلاتے پلاتے مجھے کھانا پکانا بھی آگیا۔ تھوڑے دن میں نے آپریٹر کا کام بھی کیا۔ پھر کراچی میں کینٹ اسٹیشن کے سامنے ماہ روز ہوٹل میں نوکری مل گئی تھی۔

یہاں میرے کئی کام تھے۔ آنے والے مہمانوں کو کمرہ الاٹ کرنا، ان سے ہوٹل کے کرائے کے بارے میں کمی بیشی کے سلسلے میں بات چیت کرنا، ٹھنڈے گرم پانی کے نظام کو بحال رکھنا، کھانے پینے کی چیزوں کا خیال رکھنا، ایک طرح سے میں منیجر کا اسسٹنٹ بھی تھا اور وقت پڑنے پر کھانا بھی پکادیتا اور رات کو منیجر بھی بن جاتا تھا۔ شروع میں مجھے یہ نوکری اچھی لگی تھی۔

اس نوکری کے دوران ہی چٹہ بٹہ میں میری شادی آسیہ بی بی سے ہوگئی تھی۔ آسیہ ہمارے گاؤں کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ میں نے تو صرف اس کے خواب دیکھے تھے اور سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے میری زندگی میں آجائے گی۔ مگر کراچی میں تین سال کی محنت سے بھیجا ہوا پیسہ، پھر کراچی کے ایک ہوٹل کا منیجر چٹہ بٹہ میں بڑی اہمیت رکھتا تھا۔

شادی کے بعد پہلے دو سال میں میرے دو بیٹے پیدا ہوگئے تھے۔ کینٹ اسٹیشن کے قریب ہی ریلوے لائن کے ساتھ بنی ہوئی کچی آبادی کے پکے مکانوں میں سے ایک مکان کرائے پر لے کر میں آسیہ کو کراچی لے آیا تھا۔

اسے کراچی بالکل بھی اچھا نہیں لگا، دو چھوٹے چھوٹے کمرے چھوٹا سا باورچی خانہ، غسل خانہ اور گھر کے دوسرے لوازمات بڑے ہی غیر تسلی بخش تھے۔ کہاں اونچے نیچے پہاڑوں کے درمیان کی زندگی، کھلی فضائیں، اونچے اونچے لانبے لانبے درخت، صاف ہوا، چشمے کا میٹھا گنگناتا ٹھنڈا گرم پانی اور گاؤں دیہات کے سیدھے سادھے لوگ۔ لوگ ایسے کہ جن کے پاس دولت کی کمی تو ہے پر وقت اور خلوص کی کوئی کمی نہیں تھی۔ وہاں کے لوگ کراچی کے بہت سے لوگوں کی طرح چاپلوس اور دھوکے باز نہیں تھے، محنت کرنے والے اور محبت سے گزارہ کرنے والے بھولے بھالے لوگ۔ جو دل میں وہی مُنھ پر۔

یہاں کے تو ڈھنگ ہی نرالے تھے۔ ایک لمحہ بھی سکون کا نہیں تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ٹرین کی گھن گرج، ٹریفک کی چیخم دھاڑ، گندے پانی کی نالیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے گندے بچے، نہ جانے چار سال کیسے گزار دیے تھے اس نے۔

بڑی مشکل سے میں راضی ہوا تھا کہ اب کراچی چھوڑ کر واپس مانسہرہ چلتے ہیں۔ چٹہ بٹہ میں رہیں گے۔ کچھ کاشت کاری کریں گے کچھ جانور پالیں گے۔ زندگی کھلی فضا میں، آزاد ہواؤں میں سکون سے گزرے گی۔ سارے پلان بن گئے تھے، سارا منصوبہ مکمل تھا۔ میں ہوٹل سے استعفیٰ دینے ہی والا تھا کہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے کیمیل پور کے محمد افضل سے باتیں ہوئیں، ملاقاتیں ہوئیں پھر دوستی ہوگئی۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ میں پانی کے جہاز میں کیوں نہیں کام کرتا ہوں۔ نوکری دلانا اس کی ذمہ داری۔ کچھ سالوں میں اتنا کما لو گے کہ چٹہ بٹہ خرید لو گے، اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

پھر نہ جانے کیسے کیا ہوا، شاید قسمت کے کھیل ایسے ہی ہوتے ہوں گے میں سنگاپور کی ایک جہاز کمپنی میں ملازم ہوگیا۔ بیوی بچے واپس چٹہ بٹہ پہنچ گئے، میں سمندروں کے طویل سفر پر روانہ ہوگیا۔ کام بڑا اچھا تھا، کبھی تین مہینہ کبھی چار مہینہ غائب اور پھر تین تین چار چار مہینوں کی چھٹی بھی ملتی تھی، تنخواہ اتنی کہ کراچی میں جو سال بھر میں کماتا تھا وہ یہاں پر ایک مہینہ کی آمدنی تھی۔

میرے ساتھ اچھا ہوگیا، قسمت کا یہ پلٹا بہت دلکش تھا۔ بیوی بچے چٹہ بٹہ میں میرے ماں باپ کے پاس خوش تھے، میں نے بڑی تیزی سے پکّا گھر بنالیا تھا۔ گھر میں پانی کا کنکشن لگ گیا تھا۔ انگریزی غسلخانہ، باورچی خانہ، بڑا سا صحن، بچے بھی خوش، دنیا جہاں کے کھلونے ان کے پاس تھے اور گھر میں ہر قسم کی خوشحالی بھی۔ میں نے اپنے ماں باپ کو حج بھی کرا دیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے ہم لوگ چٹہ بٹہ کے معزز لوگ بن گئے تھے۔ یہ تھا پیسوں کا کمال۔

شروع میں سوچا تھا کہ تین سال میں نوکری چھوڑدوں گا مگر سال گزرتے گئے، تنخواہ بڑھتی گئی اورمیں نوکری نہیں چھوڑسکا۔

بچے چٹہ بٹہ میں ہی پڑھ رہے تھے۔ اب تو وہاں اچھے خاصے اسکول کھل گئے۔ تھے ہمارا زمانہ نہیں تھا کہ ایک سرکاری اسکول کے علاوہ کوئی اور اسکول تھا ہی نہیں۔ بچے میرے ذہین تھے اور اسکول میں اچھا ہی پڑھ رہے تھے۔

ایسی پرسکون زندگی میں یہ زلزلہ بھونچال لے آیا تھا۔ ممباسہ سے نکل کر کھلے سمندر میں میں چٹہ بٹہ کے بارے میں ہی سوچتا رہا ان لوگوں کے بارے میں جو میرے پیارے تھے۔ جن کے ساتھ میں نے زندگی گزاری تھی۔ میرے رشتہ دار، دوست، میرے بچپن کے ساتھی، ہماری مسجد کے مولوی صاحب، موذن، میرے اسکول کے استاد، شہر کے دوکاندار، وہ تمام لوگ، نہ جانے ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہوگا۔ کون کون بچا، کون کہاں گیا کیسے بکھرے ہوں گے لوگ۔

اتنا بڑا زلزلہ تو پہلے کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ اوپر والے نے کس جرم کی سزا دی ہم لوگوں کو۔ پھر اچھی خبریں بھی آتی گئیں، پتہ لگا کہ میرے گھر والے سب ہی محفوظ ہیں۔ زیادہ شہر برباد بھی نہیں ہوا ہے۔ کچھ زخمی ضرور ہیں مگر مرنے سے بچ گئے ہیں۔ کراچی پہنچتے پہنچتے یہ پتہ لگ گیا تھا کہ چٹہ بٹہ بڑی تباہی سے بچ گیا ہے۔ بالا کوٹ، مظفرآباد، گڑھی خدا بخش، باغ تباہ ہوگئے ہیں۔ اگّی، کالا ڈھاکہ، اَپرچھٹّا میں تباہی آئی ہے۔ چٹہ بٹہ میں کچھ نقصان تو ہوا ہے مگر جانیں بچ گئی ہیں۔
میرے لیے تو یہی خوشی کی بات تھی۔ مال دولت مویشی گھر مکان سب کچھ ہوجائے گا۔ سب کچھ دوبارہ بن جائے گا، جان چلی گئی تو کچھ نہیں ہوسکتا۔

کراچی پہنچتے ہی میں نے کوشش کی تھی کہ پنڈی کا ٹکٹ مل جائے مگر ساری فلائٹیں بھری ہوئی تھیں۔ ایرو ایشیاء کے جہاز پر ساڑھے چار بجے کی پرواز میں مجھے جگہ ملی۔ جہاز کو نکلنے میں دیر ہوئی، جہاز پانچ بجے اُڑا تو سات بجے پہنچا۔ ساڑھے سات بجے باہر نکل کر میں نے گاڑی کی اور رات گئے دیر سے گیارہ بجے اپنے گھر کے سامنے تھا۔ میرا گھر محفوظ تھا۔ رات کی تاریکی میں ہزارہ، حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ سے گزرتے ہوئے چٹہ بٹہ تک کوئی خاص تباہی نظر نہیں آئی مجھے۔ سڑک کے دونوں اطراف سفید، نیلے اور ملے جلے رنگوں کے بے شمار خیمے ضرور نظر آئے تھے۔

یہ پتہ ہونے کے باوجود گھر میں سب کچھ محفوظ ہے چٹہ بٹہ میں کوئی عزیز دوست رشتہ دار مرا بھی نہیں ہے مگر نہ جانے کیوں بے شمار اندیشے تھے کہ خودبخود دماغ میں چلے آتے تھے۔ ایک اَنجانا خوف بے قراری، بے چینی سی تھی۔

آسیہ مجھے دیکھ کر جیسے کِھل اُٹھی۔ چودہ سالہ اسماعیل، بارہ سالہ رفیق اور آٹھ سالہ نازیہ مجھے دیکھ کر خوش ہوگئے تھے۔ سب سے مل کر میں نے نظر دوڑائی تو اباجی اور اماں جی نظر نہیں آئے۔ میرے دل میں بے شمار وسوسے جاگ اُٹھے تھے۔
”آسیہ اباجی اماں جی کہاں ہیں؟ “ میں نے گھبرا کر پوچھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2