کیا صحافت گھر کی لونڈی ہے؟


16 نومبر 2018 کا دن تھا۔ امریکی میڈیا میں تاریخ رقم ہوئی۔ امریکہ کی وفاقی عدالت کے فیصلے نے صحافی کو دنیا کے طاقتور شخص پر جیت دلائی۔ کامیابی عالمی صحافتی ادارے ”سی این این“ کے بیٹ رپورٹر برائے وائٹ ہاوس جم اکوسٹاکو کے حصے میں آئی۔ شکست وائٹ ہاوس کے مکین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقدر بنی۔ ٹرمپ نے امریکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر پریس کانفرنس کی تھی۔ صحافی اکوسٹاکو کے سوال پر ٹرمپ مشتعل ہو گئے۔ صحافی کا وائٹ ہاوس سے جاری صحافتی کارڈ معطل کر دیا گیا۔ سی این این نے اس بات کی پروا نہ کی کہ ہمارے رپورٹر نے دنیا کے طاقتور شخص سے پنگا لیا ہے۔ ادارے نے ٹرمپ کے خلاف مقدمہ کر دیا۔ دعوی کیا گیا کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو کسی صحافی سے خبر چھیننے کا اختیار نہیں رکھتا۔

مقدمہ ٹرمپ کے مقرر کردہ جج ”ٹموتھی جے کیلی“ کی عدالت میں پیش ہوا۔ جج نے سی این این کی دلیل قبول کر لی۔ وائٹ ہاوس کو حکم نامہ جاری ہوا کہ وہ صحافی کا پریس کارڈ دوبارہ جاری کرے۔ فیصلے کے بعد اکوسٹاکو نے معطل کیا گیا پریس کارڈ وصول کیا اور صحافتی سرگرمیوں کا دوبارہ سے آغاز کر دیا۔ اس فیصلے کو صحافتی آزادی کے حوالے سے بڑی اہمیت دی جانے لگی۔ وائٹ ہاوس کے اس اقدام کے خلاف امریکہ کا پورا میڈیا متحد ہوگیا۔ یہاں تک کہ حکومتی حمایت یافتہ ”فاکس نیوز“ بھی صحافی کے حق میں آ کھڑا ہوا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟

کیا طاقتور سیاستدانوں۔ حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کی پاکستانی میڈیا کے خلاف گھناونی سازش کے خلاف تمام ادارے ایک صفحے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ لوگ جرات دکھا سکتے ہیں؟ کیا حکومتی دائیں بازو کے میڈیا ہاوسز حکومت کے خلاف دوش بہ دوش کھڑے ہونے کی جسارت کر سکتے ہیں؟ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی میڈیا کو پابہ زنجیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ عمل کوئی نیا نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ آمریت کے ادوار میں پہلا نشانہ میڈیا ہی رہا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم جدید دور میں قدم رکھ چکے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ مگر ہم اب بھی ماضی کی روایات لیے چل رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ میڈیا کے ادارے تتر بتر ہیں۔ کوئی حکومتی اور مقتدر قوتوں کے سامنے سجدہ ریز ہے تو کچھ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ کچھ میڈیا ہاوسز کے مالکان اپنے اوپر بنے نیب کیسز کو چھپانے اور دبانے کے لیے اپنا منہ ناجانے کس آنچل میں چھپائے ہوئے ہیں۔ کہیں ملکی اداروں کے سامنے وہ نہ آ جائیں۔

سب اداروں کو علم ہے کہ کون سی خبر درست ہے اور کون سی نہیں مگر باوجود اس کے حکومتی نا اہلی چھپانے کے لیے پچھلی حکومتوں پر تنقید برساتے ہوئے۔ حکومتی شبیہ کو بہتر سے بہتر انداز میں دکھانے کو اپنا فریضہ سمجھ رہے ہیں۔ روزانہ ایسے موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں جن کا عوامی مفاد سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہاں مگر وہ عوام کو سیاست اور صحافت سے نفرت پیدا کرنے میں معاون ضرور ثابت ہوتے ہیں۔ حکومت نے مختلف طریقوں سے میڈیا کو اپنے ہاتھ میں کرنے کی کوششیں کیں ہیں اور چند میڈیا کی کالی بھیڑوں کو قریب کر کے ان کو آشیرواد دیا ہے۔ جن کا کام صرف بندر کے کرتب فوٹو سیشن پر ڈگ ڈگی بجا کر مداری کی طرزپر لمبے راگ الاپنا ہے۔ عوام میں تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں وزیراعظم صحافی حضرات کو غیر ملکی دوروں پر ساتھ لے جاتے تھے اور ان پر خطیر رقم خرچ ہوتی تھی۔ مگر سچ یہ بھی ہے حکومت صرف جہاز کا خرچہ برداشت کرتی تھی باقی اخراجات صحافتی ادارے برداشت کرتے تھے۔ صحافیوں کے ساتھ ہونے کا فائدہ یہ ہوتا کہ دورے کے متعلق وزیراعظم وقتا فوقتا غیر رسمی گفتگو کرتے رہتے اور صحافی رپورٹنگ اور اپنے تجزیات پیش کرتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس روایت کو بھی ختم کردیا اس کی اصل وجہ پرائیوٹ طیارے میں خالی سیٹیں رکھنا نہیں بلکہ حکام کا ڈر ہے کہ وہ صحافیوں کے نرغے میں آ جائیں گے۔ مجبوراً پریس کانفرنس جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ صحافیوں کے تند و تیز سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ دنیا ان کی ناکام دوروں کو دیکھ پائے گی۔

خبر کا حصول خواہ وہ آن دی ریکارڈ ہو یا آف دی ریکارڈ ایک صحافی کا حق ہے۔ کوئی بھی اس کے حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ لیکن اب یہ آزادی اس سے چھینی جا رہی ہے۔ اس کو اس کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ بلند و بانگ دعوے دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ میڈیا نے اس قدر ترقی کی ہے کہ اس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ مگر افسوس آج بھی ہمارے ملک میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں عام انسان تو جا سکتا ہے مگر ایک صحافی کے لیے وہ نوگو ایریا ہے۔ کچھ چینلز کے صحافیوں پر وہاں جانے پر پابندی عائد ہے۔ کیا وہ علاقے اور ادارہ آئین پاکستان سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا نظام افراد نہیں بلکہ اوپر بیٹھی ایک ذات چلا رہی ہے۔ جہاں سازشیں بنی جاتی ہیں وہیں ان کے خاتمے کے لیے لڑنے کی استطاعت وہ ذات دیتی ہے۔

اداروں پر فرضی معاشی بحران پیدا کرکے نفسیاتی طور پر بلیک میل کیا جارہا ہے۔ ہزاروں ورکرز کے گھر کا چولہا بند پڑا ہے۔ کسی صحافتی تنظیم کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ خیر حالات جو بھی ہوں وقت ہے گزر ہی جاتا ہے۔ مگر یہ حکمران اپنے منہ پے وہ دھبے لگا رہے ہیں جن کو ساری عمر مٹایا نہ جا سکے گا۔ بڑے بڑے سیاست دان آئے اور چلے گئے آج اپنی مٹی کی خوشبو کے لیے ترستے ہیں۔ آج ان کا نام تک لینے والا کوئی نہیں۔ آپ فرشتے نہیں کہ آپ احتساب کے عمل سے بچ جائیں۔ سب راز افشا ہوں گے۔ کڑے احتساب بھی ہوں گے۔ آپ کے اپوزیشن میں آتے ہی ساری قلعی کھل جائے گی اور آپ لوگ تبدیلی کے نام سے ڈریں گے۔ حکومت پہ مزید تنقید اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ اپنی تباہی کے لیے یہ لوگ خود ہی کافی ہیں۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور تمام ادارے صحافت کی ساکھ کو بچانے کے لیے ایک ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).