رمشہ کا قتل، نفیسہ شاہ کی پی ایچ ڈی اور منظور وسان کا خواب


 

عورت بھی انسان ہے، رمشہ وسان کے قاتلوں کو گرفتار کرو اور رمشہ وسان کا قتل غیرت کے نام پر بے غیرتی ہے آج یہ نعرے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے گونجتے رہے۔ ضلع خیرپور کے گاؤں حاجی نواب علی وسان کی آٹھویں کلاس کی طالبہ رمشہ وسان کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس کا اپنے گاؤں کے اپنی ہی ذات کے وسان لڑکے کے ساتھ عشق چل رہا تھا جس کی خبر اس کے گاؤں کے وڈیروں تک جا پہنچی۔

وڈیروں نے لڑکی اور لڑکے کے والدین کو بلا کر یہ فیصلہ کیا کہ گاؤں میں پیار محبت کرنا گناہ ہے اور اس معاشقے کا گاؤں کی اور لڑکیوں پر برا اثر پڑے گا۔ اگر یہ معاشقہ شادی میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب غیرت مند سرداروں اور ان کی برادری کی لڑکیاں بے غیرتی کے نام پر پیار کی شادی کرتی پھریں گیں۔ مگر رمشہ کے باز نہ آنے پر اسے ذوالفقار علی وسان جو پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر خواب منظور وسان کے بھانجے اور گوپانگ اور وسان خونی جگھڑے کا اہم کردار رہا ہے اور دیگر جرائم میں بھی ملوث پایا گیا ہے اس نے رمشہ اور اس کے گھر والوں کو سبق سکھانے کے لیے رمشہ کو اغوا کیا۔ پولیس، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر خواتین کے حقوق کے علمبردار لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔

رمشہ کی ماں وسان فیملی کے با اثر سرداروں کو قرآن شریف کا واسطہ دے کر ان کا در کھٹکٹھاتی رہی جس پر منظور وسان نے یہ کہتے ہوئے اس کے والدین کو تسلی دی کہ مجھے رمشہ کے گھر واپس لوٹ آنے کا خواب آیا ہے۔ پھر بالآخر منظور وسان کا خواب سچ ہوا اور رمشہ گھر واپس آ گئی۔ جب رمشہ اور اس کے گھر والوں نے اس اغوا اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اس وقت بدنام زمانہ ذوالفقار وسان دیگر ساتھیوں کے ساتھ رمشہ کے گھر میں گھس گیا اور اسے گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کر دیا۔

آئی جی سندھ، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی کارکردگی اور وفاداری ڈی پی او پاک پتن کے معاملے میں سب کے سامنے ہیں اور ان کے نوٹس لینے کے باوجود بھی پولیس نے اپنی مدعیت میں ہی کیس داخل کیا اور معاملے کو غیرت کا نام دے دیا، جس سے لگتا ہے کہ بقول بابر اعوان کے “نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا” والا ہی معاملہ رہا۔ رمشہ وسان کے بیہمانہ قتل پر ساری غیرت مند آنکھیں اشک بار ہیں مگر نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب گھریلو صارفین کے گیس کے اضافی بلوں کی وجہ سے بہت پریشان ہیں جب کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری پر وزیر ریلوے شیخ رشید کے الزامات کا جواب دینے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اور ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھٹو زرداری جو کبھی کبھار اس طرح کے معاملوں پر ٹوئٹر پر پنچ مارتی رہی ہیں مگر لگتا ہے کہ آج کل وہ انسٹاگرام پر بہت مصروف ہیں۔

باقی رہی پاکستان مسلم لیگ ن وہ خود ڈیل اور ڈھیل کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں۔ رمشہ وسان کی حلقے کی پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے ڈاکٹر نفیسہ شاہ جنہوں نے غیرت کے نام قتل پر پی ایچ ڈی کی ہے وہ بھی خاموش تماشانی بنی ہوئی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خود منظور وسان کو خواب میں نظر آ جائیں۔ چاہے آپ پورے ملک میں رمشہ وسان کا نوحہ پڑھیں یا پھر نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ماتم کریں، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

قانون بنانے اور قانوں نافذ کرنے والے اپنی اپنی مصلحتوں میں مصروف ہیں۔ شاید اگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہوتے تو وہ رمشہ کے قتل کا نوٹس لے کر قاتلوں گرفتار کروا دیتے مگر یہاں پر نقیب اللہ محسود کے والد بھی ابھی تک انصاف کی دہائی دیتے ہوئے آرمی چیف اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔ اس ملک کا یہ المیہ ہے کچھ دن ہی یہ سیاستدان اس طرح کے واقعات پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں مگر جیسے ہی اسیمبلیز میں قانون سازی کا وقت آتا ہے، وہ نیب اور دیگر اداروں کو کنٹرول کرنے کے نت نئے طریقوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنی مدت پوری کر دیتے ہیں۔

ایسے میں کون سنے گا ایک غریب رمشہ وسان کی دہائی۔ بس کچھ ہی دنوں میں یہ خبر سننے میں ملے گی کہ رمشہ کے والدین نے با اثر قاتل کو معاف کر دیا ہے۔ اس بے حس معاشرے میں رمشہ جیسی بے گناہ کمزور عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی رہیں گی اور قاتل ذوالفقار وسان جیسے لوگ بے خوف و خطر دندناتے پھرتے رہیں گے اور پریس کلبوں کے سامنے نوحے اور ماتم جاری رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).