پیروں تلے جلتی دھرتی


سنہ 1980 کی بات ہے، پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کا آغاز کیے ابھی سال ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا کہ ایک دن شعبہ فلسفہ کے سابق سربراہ کا، پروفیسر خواجہ غلام صادق، مجھے فون آیا۔ خواجہ صاحب اس وقت لاہور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے چیرمین اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ریجنل ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ خواجہ صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر محمد افضل صاحب، جو ان دنوں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چئیرمین تھے، تشریف لا رہے ہیں اور ایک مذاکرہ میں شرکت کریں گے، جس کا عنوان ہے:

Motivational Program for the Youth

 خواجہ صاحب نے مجھے حکم دیا کہ تم نے اس مذاکرے میں شرکت کرنی ہے اور ذرا تیاری کرکے آنا۔ میرا خیال تھا کہ مذاکرے میں میرے جیسے نوجوانوں کو ہی مدعو کیا گیا ہو گا۔

مذاکرے کے دن میں چند منٹ کی تاخیر سے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ریجنل آفس پہنچا تو مذاکرہ شروع ہو چکا تھا۔ ان شرکا کے نام مجھے آج بھی یاد ہیں: ڈاکٹر رفیق احمد، شیخ امتیاز علی، ڈاکٹر رشید جالندھری، ڈاکٹر مجید اعوان، ڈاکٹر مس اقبال ڈار، ڈاکٹر رفیعہ حسن، اشفاق احمد، اور محترمہ نوید شہزاد۔

اتنے سینیر اور مشہور و معروف افراد کو دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا کہ میں ان کے سامنے کیا بات کروں گا۔ جب ڈیڑھ دو گھنٹے گزر گئے تو میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا۔ اس پر ڈاکٹر افضل صاحب میری طرف متوجہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ میں حیران ہو رہا ہوں کہ اتنے سینیر افراد کے ساتھ مجھے یہاں کیوں مدعو کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر افضل صاحب نے کہا فارمل ہونے کی ضرورت نہیں، آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہیں۔ خواجہ صاحب نے میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں سٹوڈنٹس یونین کا صدر رہ چکا ہوں۔ گویا میرے مدعو کیے جانے کا جواز فراہم کر دیا۔

گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اس محفل میں اب تک جتنی باتیں ہوئی ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے، سوائے ایک بات کے۔ جس بات سےاتفاق ہے وہ یہ ہے کہ اس ملک میں یوتھ موجود ہے۔ ظاہر ہے جہاں انسان موجود ہوں ان میں کچھ بچے، کچھ نوجوان، کچھ جوان اور کچھ بوڑھے ہوں گے۔ یہاں اس یوتھ کی بات ہو رہی ہے جو سکول اور کالج میں جاتا ہے اور جس کی تعداد ہمیں معلوم ہے۔ گفتگو اس مفروضے پر ہو رہی ہے کہ یوتھ میں بہت اشتیاق پایا جاتا ہے، بس پروگرام کی کمی ہے۔ اگر انھیں مثبت پروگرام مہیا کر دیا جائے تو وہ فوراً سرگرم عمل ہو جائیں گے۔

میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے اندر دھرتی سے، اس کے پھلوں پھولوں سے، اس کی عمارتوں سے، اپنے ہم نفسوں سے بے گانگی راہ پا رہی ہے۔ آج جب میں گورنمنٹ کالج جاتا ہوں تو، مجھے طلبہ میں کالج سے وہ وابستگی نظر نہیں آتی جو جی سی کا شعار تھی۔ ہمارے زمانے میں کالج شام تک بھرا ہوتا تھا، اب اگرچہ تعداد میرے زمانے سے زیادہ ہے، لیکن کالج بے رونقی کا تاثر دیتا ہے۔

اس بے گانگی کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی دھرتی سے اس وقت پیار کرتا ہے جب اسے یہ یقین ہو کہ یہ رہنے کے قابل جگہ ہے۔ ہم روز برواز اس دھرتی کو رہنے کے لیے مشکل بناتے جا رہے ہیں۔ سارتر نے کہا تھا:

The other man is hell.

 ہم میں ہر شخص دوسرے کے لیے داروغہ جہنم بنا ہوا ہے۔ جب دھرتی پاوں کے نیچے جلنے لگے تو لوگ اسے چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان حالات میں آپ کوئی معاشرتی بہبود کا پروگرام شروع کریں گے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔

میری بے گانگی والی بات ڈاکٹر افضل صاحب کو بہت پسند آئی اور انھوں نے اس بات پر کام کرنے پر زور دیا لیکن شرکائے محفل میں سے کسی نے ان کی بات پر توجہ نہ دی حالانکہ شرکا میں دو کا تعلق نفسیات کے مضمون سے تھا۔

تقریباً چالیس برس بعد اس بات کے یاد آنے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے حالات آج بھی وہی ہیں جو اس وقت تھے۔ ملک میں سیاسی اتھل پتھل تو بہت ہوئی لیکن ہمارا جمہوری ڈھانچہ آج بھی روح سے خالی ہے۔ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں ایک انسان عزت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے، اس کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں، کوئی ان پر دست درازی نہیں کر سکتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہاں عام شہری کی نہ عزت محفوظ ہے نہ اس کے کوئی حقوق ہیں۔ وہ زور آوروں کے رحم و کرم پر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک کے نوجوان ہر قیمت پر یہاں سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔

میرا تعلق اس بدنصیب نسل سے ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس ملک کو ٹوٹتے دیکھا ہے۔ مشرقی پاکستان ہم سے بہت دور تھا، سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا ہمیں وہاں کی جھوٹی خبریں دے رہا تھا اور ہم ان پر یقین کر رہے تھے۔ آج اگرچہ حالات کسی قدر بدل چکے ہیں لیکن ہمارے ارباب بست و کشاد ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی کی خبریں بتا کر لوگوں کو بہلایا جا سکتا ہے۔ ان کو صرف اتنا بتانا ہے کہ حضور جاگیے اور آنکھیں کھولیے، وقت بہت بدل چکا ہے۔ اب عام لوگ ظل سبحانی کو سربازار بے لباس دیکھ رہے ہیں اور اس پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جنت میں داخلے اور جہنم کے باہر نکلنے کے راستے پر پہرا ہو گا۔ یہ بات درست لگتی ہے۔ دوزخ میں کوئی اپنی مرضی سے نہیں رہنا چاہتا۔ اگر اسے موقع ملے تو وہ ضرور اس سے نکل بھاگنے کی کوشش کرے گا۔ ٹھیک ہے کہ زمین پر جنت نہیں بن سکتی لیکن یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ کدھر سے کدھر کو بھاگ رہے ہیں۔ وہ جانوں پر کھیل کر لانچوں اور کنٹینروں میں بند ہو کر اس پاک سر زمین سے بھاگ رہے ہیں۔ حب الوطنی کے ترانے نشر کرنے سے حب الوطنی کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے بلکہ اس دھرتی کو اس لائق بنانا ہو گا کہ یہاں بسنے والے اس کو رہنے کے قابل گردانتے ہوں۔اس موقع پر یار عزیز باصر سلطان کاظمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:

کرتے نہ ہم جو اہل وطن اپنا گھر خراب

ہوتے نہ یوں ہمارے جواں در بدر خراب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).