گم گشتہ ستارا: کولن ڈیوڈ


 

ہزاروں سال پرانی تہذیب کا امین یہ خطہ جہاں آج بھی منوں مٹی تلے دفن نوادرات آئے دن نکلتے رہتے ہیں آج اپنے ہیروں کی قدر کرنے سے قاصر ہے۔ کوئلے کی کان میں جوہری کہاں سے لائیں۔ ہم ہیروں کو بھی زندگی کے ایندھن میں جھونک کر بھول جاتے ہیں۔ شائد صدیوں بعد کوئی منوں مٹی تلے ان ہیروں کو بھی کھوج نکالے۔

 کولن ڈیوڈ بھی ایسا ہی ایک ہیرا تھا ۔ جو جگمگایا اور بجھ گیا۔ 1936 میں پیدا ہونے والے ڈیوڈ نے 1960 میں پنجاب یونیورسٹی سے فائن آرٹ میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ اور پھر لندن سلیس یونیورسٹی اعلی تعلیم کے لئے چلے گئے۔ سلیس یونیورسٹی نے ان کے فن کو نئی جلا بخشی۔ مشہور مصور ولیم کولڈ اسمتھ ان کے کام پر اثر انداز ہوئے۔

وطن واپسی پر ڈیوڈ کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی اور پھر بیس سال نیشنل کالج آف آرٹس کے ساتھ وابستہ رہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنی استاد اینا مولکا احمد کی ناراضی مول لے کر ان کی مصورہ بیٹی زارا سے شادی کی۔

ان دنوں پاکستانی آرٹ کے منظر نامے پر آرٹسٹ اظہار کے نئے نئے طریقوں پر تجربات کر رہے تھے۔ ایسے میں کولن نے اپنے طبعی رجحان کے مطابق اپنا ایک مخصوص انداز اپنایا۔ انہیں اوپٹیکل آرٹ میں خاص دلچسپی تھی۔ آپٹیکل آرٹ میں کالے سفید رنگ کے استعمال سے فریبِ نظر پیدا کیا جاتا ہے۔ 1960 کی دہائی میں کولن نے الوژن کے اس عنصر کو بہت خوبصورتی سے اپنی مصوری میں ااستعمال کیا۔ کولن کی نیوڈ پینٹنگز مصوری کے شائقین کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔

ڈیزائن کا عنصر جو ان کے کام میں پایا جاتا تھا، رنگوں کا چناؤ اور اپنے موضوع پر عبور ان کے کام کو باقی آرٹسٹوں سے ممتاز بناتا تھا۔ کمپوزیشن میں موضوع جتنا اہم ہوتا تھا، خالی جگہ یعنی نیگیٹو اسپیس بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی تھی۔

ملک میں سیاسی حالات کی تبدیلی اور آزادی اظہار پر پابندی کے بعد ان کی نیوڈ تصاویر جو ان کی پہچان تھیں ، پس منظر میں چلی گئیں اور آرٹسٹ کو دوسرے موضوعات کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنا الگ انداز قائم رکھتے ہوئے لینڈ اسکیپ تخلیق کئے۔ یہ مناظر حقیقت نگاری سے ہٹ کر اپنے اندر نئی کہانیاں لئے ہوتے تھے۔

انہوں نے کھیلتے ہوئے بچوں کو نہایت عمدگی سے اپنا موضوع بنایا۔ ایک پینٹنگ میں ان کا بیٹا ٹافی کا ریپر کھولنے میں محو ہے۔ بچے کی انگلیاں اور اس کے چہرے کے تاثرات اس کے انہماک کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں۔

ملک میں آزادیِ اظہار پر کڑی بندشیں لگ چکی تھیں۔ ایسے میں کولن ڈیوڈ مجبور تھے کہ وہ اپنا کام کسی گیلری میں نمائش کے لئے پیش کرنے کے بجائے اپنے گھر میں ہی نجی نمآئش میں مخصوص لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ 1990 تک وہ اسی طرح خاموشی سے اپنے کام کی نمائش کرتے رہے لیکن بدقسمتی سے ایک نمائش کا دعوت نامہ کسی انتہا پسند کے ہاتھ لگ گیا۔ انتہا پسندوں کا مسلح گروہ گھر میں داخل ہوا اور متعدد فن پاروں کو ضائع کر ڈالا۔ ان میں مصور کی بیٹی کا پورٹریٹ بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ پاکستان کی آرٹ ہسٹری پر سیاہ دھبہ چھوڑ گیا۔ میڈیا تک بات پہنچی اور ملک بھر میں پھیل گئی۔ مصوروں اور ادیبوں نے مل کر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ ہڑتالیں بھی کی گئیں۔ نقصان تو تھا لیکن اس سانحے نے نہ صرف فنونِ لطیفہ سے وابستہ لوگوں کو ہم آواز کر دیا بلکہ ان دنوں ہر زبآن پر ہہی قصہ تھا ۔ کولن جو کبھی عام پبلک میں آپنا کام نہ لآتے تھے ان کو عام لوگوں کی طرف سے بے انتہا سپورٹ ملی۔ 1995 میں انہیں صدارتی تمغہء امتیاز سے نوازا گیا۔

کولن ڈیوڈ نے 2008 میں وفات پائی۔

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).