شہر ہائے ذغالی


سِن پندرہ سال پر سات سال اوپر گزر گئے ابھی تک میری داڑھی نہیں آئی۔ البتہ بہت سی داڑھیاں رسی کی طرح بَٹی ہوئی میرے پاؤں سے لپٹی ہوئی ہیں۔ نجانے کب قیامت ان بیڑیوں کو کھولنے آئے گی؟ چوک پہ کھڑا ٹریفک پولیس میری طرح پچھلے سات سالوں سے یہیں ہے۔ اِس سے پہلے کوئی اور تھا جو اس کی طرح بے ہنگم گاڑیوں کے آہنی اژدھام کو سمیٹنے کی کوشش میں دن سے شام کر دیتا۔ اِس کے منہ میں دبی سیٹی لعاب دہن کی وجہ سے کبھی کبھی ٹھیک سے آواز نہیں نکالتی۔

پر ایسا تب ہوتا ہے جب اِس کے اعصاب خراب ہونے لگتے ہیں۔ زمین سے تقریباً تین فٹ اونچی چار ضرب چار اور چپٹی آلمانی، اطالوی بیش قیمت سریع الحرکت گاڑیوں میں بیٹھے مغرور مالکان جن کی گردنیں ڈالرز کے کلف سے اکڑ چکی ہیں، اکثر اس کے اشاروں کو روندتے گزر جاتی ہیں۔ تب یہ پیلی کھٹارا موٹر کی کھڑکی میں آدھا دھڑ گھسائے ڈائیور پہ پِل پڑتا ہے۔ جو دو چار تھپڑ کھانے کے بعد اُدھڑی واسکٹ درست کرتے ہی شیشہ اوپر چڑھائے موٹی موٹی گالیاں دے کر اپنی بھڑاس نکال لیتا ہے۔

میں اس کے تاثرات دیکھ کر محظوظ ہو جاتا ہوں۔ اذیت میں یہ ذرا سی عیاشی غنیمت ہے۔ چوک کی منڈیر پہ بیٹھا لولا لنگڑا فقیر ایک دھماکے میں ٹانگ گنوا بیٹھا۔ پہلے اداکاری کرتا تھا۔ اب سچ مُچ بیساکھی اس کے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔ دراصل یہ ایک جاسوس ہے۔ مجھے اس پہ سخت ترس آتا ہے۔ نازو نعم میں پلا اب وقت کی دھتکار کھاتا نجانے کِس دن کا منتظر ہے۔ اس کی ماں اِسے کشکول اٹھائے بھیک مانگتے دیکھ لیتی تو کلیجہ پسلیوں کے پنجر توڑتا پیروں میں آ گرتا۔

جِسے تسلیاں اٹھا کر واپس اپنی جگہ نصب کر دیتیں۔ ”عظمت و شہادت کا بیڑا غرق۔ ۔ جو محبتوں کے سمندر پی کر بھی سیر نہ ہو سکی۔ ” موڑ کاٹتے ہوئے ایک گاڑی میری بلی کے اوپر سے گزر گئی۔ یہی روزکا معمول ہے۔ نجانے کتنی گاڑیوں کے پہییوں سے میری حماقتیں چپکی ہوئی ہیں۔ کسی کو کیا خبر؟ جیسے بچپن سے بے خبر یہ مزدور کم سن بچیاں! میلے کچیلے ارغوانی و جامنی دوپٹے اوڑھے شیشے صاف کرتی ونڈ سکرین پہ جمی میل کی طرح ہیں۔

یہ کسی کی دھول اتارتی ہیں کوئی ان کی گرد اتارتا ہے۔ ان کی ننھی مٹھیوں میں بند ریزگاری سے چولہے جلتے ہیں۔ ایک معلمہ ماں بیٹے کو چومتی باتیں کرتی یہاں سے گزرتی ہے۔ چھ ماہ کا بچہ کیا سمجھتا ہوگا سوائے محبت کے۔ یہاں اسی چوک کے پاس ایستگاہ پہ ایک نوجوان اپنی نوخیز محبوبہ سے مل کر جدا ہوتا ہے۔ چار گھڑی کی ملاقات عوامی بس کے آتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ دونوں کے لب ایک دوسرے کو دیکھ کر پھیل جاتے ہیں جس سے میں نے اندازہ لگایا ہے عنقریب ایک گھر بسنے والا ہے۔

کتابیں تھامے ٹک ٹک کرتی کالی سینڈل میں پُھدکتی سفید سکارف اوڑھے لڑکیوں کا ایک ٹولہ بھی یہیں سے گزرتا ہے۔ نجانے کون سے بے غیرت والدین اِن کو اس بے حیائی پہ اکساتے ہیں۔ شروع دنوں میں اِنھیں دیکھ کر خون کھول جاتا تھا۔ میں چپ کر کے دیکھتا رہتا تھا۔ اب اکثر سوچتا ہوں! میرے بہن بھائی تو کیا اُن کی نسلوں کو بھی شاید تعلیم کی ایسی نعمت میسر ہو۔ ۔ مل بھی جائے تو کیا؟ آخر کٹھ پتلیاں ہی تو بننا ہے سب کو۔

جن کی سوچ کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اگر کبھی وہ خود سے تھرکنا چاہیں تو ان کے ماتھے پہ کلنک لگا کر معیوب کر دیا جاتا ہے۔ جنھیں اِنھی کی ساتھی کٹھ پتلیاں بطخ کے سیاہ بچے کی طرح چھانٹ کر نکال دیتی ہیں۔ پھر تنہائی کے طعنے گدھ کی طرح اُس کا وجود ادھیڑ ادھیڑ کر باقیات بھی نہیں چھوڑتے۔ بعد از مرگ کئی نسلیں اسی شش و پنج میں رہتی ہیں کہ لاوارث مرحوم آخر تھا کون۔ غدار یا وفادار؟ میں نے یہ زندگی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

چُندھیا دینے والی موٹروں کی بتیوں کی طرح جو بندے کو اندھا بھی کر سکتی ہیں۔ میں تو دیے کی لاٹ کی طرح جیون بِتا کر آیا ہوں۔ جو دوسروں کے تیل پہ جلتے جلتے جل ہی گیا۔ میں بجھے چراغ کی طرح مفلس والدین کا اضافی بیٹا تھا۔ جس کے نصیب میں مدرسہ محض اس لیے آیا کہ میں کم خونی کی وجہ سے کام کرنے لائق نہ تھا۔ کھیت میں ذرا سی دیر جڑی بوٹیاں اکھاڑ کر ہانپنے لگتا۔ کم کام کے عوض مالک آدھی دیہاڑی بھی اینٹھ لیتا۔

ایندھن کے لیے سوکھے پتے چننے ماں باہر بھیجتی تو واپسی پہ چہرہ خزاں آلود ہو جاتا۔ پشت پہ لادے بوجھے کے ساتھ ہی وجود گھسیٹتے گھسٹتے گھر پہنچتے ہی بوجھے سے پہلے گر جاتا۔ میری ماں خود بیمارستان تھی۔ جہاں ہر بیماری موجود ہوتی ہے۔ پھیکی رنگت، پچکے چہرے میں دھنسی بے رونق آنکھیں، سوکھی ہریڑ کی طرح کھردرے ہاتھ، سُکڑی پیشانی پہ پھیلی فکریں، پپڑی جمے ہونٹوں پہ صدقے قربان۔ ہم پہ واری واری جاتی۔ ۔ ۔ ۔ میری ماں کے پاس بس دو لباس تھے۔

پنڈلیوں تک لمبی کرمزی گھیرے دار قمیص کے نیچے سفید شلوار جسے نماز پڑھتے وقت وہ اتار دیتی۔ پاکی پلیدی کا بہت حساب جو رکھتی تھی۔ جب تک وہ نماز پڑھتی کمرے کا دروازہ بند رہتا۔ ہمارا گھر ایک ایسے گاؤں میں تھا جہاں سورج کی کرنیں بھی زمین پہ دیر سے پڑتیں۔ پر مجھے حیرت ہے ایسے دشوار گزار علاقے میں جہاں قانون پہنچ سکتا ہے نہ سہولیات۔ وہاں مذہب کیسے پہنچ جاتا ہے؟ اور کیوں پہنچ جاتا ہے؟ اس تاریک کمرے کے شہتیر سے بندھا چوبی پنگھوڑا ہمیشہ آباد ہی رہتا۔

کیوں کہ روزی رساں تو خدا ہے۔ پر اس نے پنگھوڑے میں بلکتے بچے کو کبھی چھاتی سے نہیں لگایا۔ کارنس پہ سجے پلاسٹک کے دو گلدان جن میں سالوں سے سرخ گلاب اب گردوغبار سے سیاہی مائل ہو چکے تھے۔ ٹوٹے فریم میں سجی بابا کی تصویر، چھ تانبے کے گلاس اور اللہ کا نام۔ ہمارے پاس زندگی گزارنے کے لیے زندگی سے زیادہ بیش قیمت کچھ بھی نہیں تھا۔ باورچی خانے کی کالی دیواروں کو سال میں ایک بار لپائی کرتے مگر چھت خوفناک حد تک سیاہ ہو چکی تھی۔

مجھے اِس مُشکی سائباں سے بہت خوف آتا۔ نجانے کب باھیں پھیلا کر مجھے نگل لے۔ گِنے چُنے مٹی کے برتن جن میں کوئی ایک ٹوٹ جاتا تو ماں پھوٹ پھوٹ رونے لگتی۔ سردیوں میں آلو یا شلجم، کا چھلکوں سمیت شوربہ بنتا جسے خشک خمیری روٹی کے ساتھ سب شوق سے کھاتے۔ گرمیوں میں کھیرے، ککڑی، یا پیاز کو روٹی میں لپیٹ کر من و سلویٰ کی طرح پیش کیا جاتا۔ دادا دن رات کھانستے کھانستے تمباکو کا پنڈا بن چکا تھا۔ باورچی خانے کے ساتھ اس کا کمرہ سردیوں میں جنت اور گرمیوں میں عذابِ الہی بن جاتا۔

وہ سارا دن درخت کے نیچے ہوا کے ٹھنڈے میٹھے جھونکوں کی دعائیں مانگتے، پاس پڑی مٹی کی ڈھیری پہ تھوکتے گزار دیتا۔ رات ہوتی تو وہ حالت ہوجاتی جیسے تھکا اونٹ سرائے کو تکتا ہے۔ ہمارے سمیت چار چچاؤں کے ڈھیر سارے بچے صحن میں سال کے بارہ مہینے اودھم مچائے رکھتے۔ تین سال کی عمر تک بچے بنا شلوار اور چپل کے یک چولے میں مست رہتے۔ اس کے بعد سفید پوشی کا تہہ بند باندھ لیتے۔ تعلیم کا تصور دین تک محدود تھا۔ روٹی اور سپارے کو چوم کر آنکھوں سے لگانا ہمارا عقیدہ تھا۔

جب میری ماں میری آنکھوں میں سرمہ ڈال کے ماتھا چوم کے سیپارہ ہاتھ میں تھماتی تو میں کہتا! ”قاری صیب کُتا۔ “ وہ مسکرا کر کہتیں۔ ” قربان جاؤں تم پہ“ کاش ماں نے کبھی تو پوچھا ہوتا میں سفید صافے والے مقدس آدمی کو اتنی نجس گالی کیوں دیتا ہوں۔ عصر کی نماز کے بعد شکستہ مسجد کے کچے صحن میں بچوں کے دائرے میں منہ بسورتے خود کو فِٹ کر دیتا۔ لا ریے برفی۔ لا ریے برفی۔ قاری میرا جھومتا سر جھنجھوڑ کے چِلاتا۔

لا ریب فیہ۔ جو دھیرے دھیرے پھر سے لا ریے برفی بن جاتا۔ ماں کہا کرتی تھی! ، میں مولوی بنا تو دین و دنیا سنور جائے گی۔ گاؤں کے لوگ گھر آ کے پکوان دیں گے۔ میرا مستقبل تابناک تھا۔ پر میرے مزدور باپ نے باقی بچوں کی خوش آئیندگی کے لیے مجھے وظیفے پہ لگا دیا۔ مولوی کہتا اللہ کی راہ میں اولاد وقف کرنا بچوں کی زکات نکالنے کے مترادف ہے۔ اس بچے کے عوض گھر میں جو برکتیں آئیں گی اس کا تصور محال ہے۔ خدا کی راہ میں بھینٹ کا رواج بہت پرانا ہے۔

پھر ایک بچے کے کرموں کا پھل سات نسلوں کو ملنا الگ بونس۔ میری ماں البتہ کُملا سی گئی تھی۔ سب سے پہلے اس نے یہی پوچھا! ”چُھٹی کتنے دن بعد ملا کرے گی؟ “ بابا نے اسے بری طرح جھڑک دیا۔ کہا! ”تو اپنی اور آنے والے بچے کی خیر منا۔ دائی کہتی ہے تجھے اس بار متوازن غذا نہ ملی تو تیرے سمیت آنے والے جی کی بھی چھٹی ہو جائے گی۔ ” آنے والا جی اب تک آچکا ہوگا اور مسجد میں سپارہ تھامے قاری کو گالیاں بکتا سبق پڑھنے جاتا ہوگا۔

جہاں سے میرے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ وظیفہ ملتے ہی میں مسجد سے ہی مدرسے منتقل ہو گیا۔ پھر میری زندگی کو پنکھ لگ گئے۔ میں نے پرائے جوتے پہن کر صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کیا۔ یہاں سپارہ تھا نہ قاری صیب کی چھیڑ خانی۔ بس ورزشیں کرواتے اور تقریریں سُنواتے۔ میرے بال شانوں تک لمبے ہو چکے تھے۔ جو میں نے لیلیٰ کے عشق میں بڑھائے تھے۔ میں اُس دن کا منتظر تھا جب سیاہ غلافی نینوں والی اپنی مخروطی انگلیوں سے میرے گیسو سنوارے گی۔

اس کا وجود کافور، مُشک اور عود کے خمیر سے گندھا ہوا تھا۔ انار کے دانوں جیسے رسیلے لب مثلِ عقیق و یاقوت، احمریں رخسار، گل اندام، سیماب صفت جس کے ہونٹوں پہ سلام سلام کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ ہر شب میرے خواب میں آتی۔ اکثر شفاف ریشم پہنے اِٹھلاتی ہوئی سفید گلاب ہتھیلی پہ سرخ شراب کا جام دھرے ادائے دلبری سے وہ میرے خشک ہونٹوں سے لگاتی۔ جو میرے لبوں کو مَس کرتے ہی لیلیٰ کے لبوں میں ڈھل جاتا۔ جس سے ٹپکتا گاڑھا شہد میرے حلق میں اترتے ہی ہلچل مچا دیتا۔

اچانک میرے اندر سو آدمیوں کی قوت آ جاتی۔ میں اس کے بدن کو دبوچ لینے کی حد تک قریب لاتا وہ کپاس کی طرح بکھرتی جاتی۔ اس سفید فام کا بدن چھوتے ہی میں سرور و مستی کی طلسماتی دنیا میں داخل ہو جاتا۔ اس کے طلائی کھنکھتے گنگنوں کی چھن چھن مدھر ساز بجاتی ہوش ربا سماں سا باندھ دیتی۔ لیلیٰ اکثر داہنے باہنے نفیس ریشم اوڑھے سہیلیوں کے جھرمٹ میں نمودار ہوتی۔ اس کی ہر ایک سہیلی مجھ پہ دل و جان سے فدا۔ کوئی تازہ بیل سے اتارے انگور کے خوشے میرے منہ کے قریب لا کر میری تواضع کرتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ثروت نجیب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ثروت نجیب

ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے گرافک ڈیزائنر اور جرنلسٹ ہیں۔ کابل ٹائمز اور یوریشیا کے لیے لکھتی ہیں۔ سارک ادبی شعبہ اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی ممبر ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔

sarwat-najeeb has 6 posts and counting.See all posts by sarwat-najeeb