بانڈار، بلوچستان کی قدیم ثقافتی تفریح


لاندی کا ذکر ہوچکا تو بانڈار کا ذکر بھی ہوجائے۔ بلوچستان کے پشتون ایریا میں ایک روایتی اور قدیم ”انٹرٹینمنٹ“ بانڈار ہے۔ بانڈار میں بجائے جانے والے آلات میں دف، تھال اور ٹین شامل ہیں۔ بانڈار نہ تو محفل موسیقی ہے کیوں کہ آلات ِموسیقی از قسم طبلہ، ہارمونیم، وائلن وغیرہ کچھ بھی اس میں نہیں بجایاجاتا۔ یہ محض محفل شعر وسخن یا سماع بھی نہیں کیوں کہ بہر حال اس کی شاعری کے ساتھ کچھ بجنے بجانے کی آوازیں شامل ہوتی ہیں۔ اس لیے بانڈار کو بانڈار ہی کہا جائے۔

بانڈار کی قدیم شاعری دیہی ماحول میں کی گئی دیہی زبان کی شاعری ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ شعر کی پیدائش نثر سے پہلے ہوئی ہے کیوں کہ شعر انسان کی ایک فطری صلاحیت کا نام ہے۔ شعر کہنے کے لیے کسی محنت وکسب حتی کہ تعلیم کی بھی نہیں بس حسِ لطیف ضرورت ہوتی ہے۔ دیہات کے بانڈاری شاعر جو اپنا نام لکھنے سے بھی عاجز ہوتے تھے کچھ ایسی لافانی شاعری کہہ گئے کہ آج بھی زبانوں پر ہے۔ بہت سی غزلیں، گیت اور نوحے آج بھی لوگوں کو از بر ہیں جو بانڈاروں میں کہے جاتے ہیں اور ان کے شاعروں کو گزرے ہوئے عشرے بیت گئے۔

بانڈار کی شاعری بھیڑ بکریاں چراتے پہاڑی چراگاہوں، ندیوں کنارے، باغات اور کھیتوں کے بیچ، شادیوں اور تہواروں میں تخلیق کی گئی ہوتی تھی اس لیے وہ سارے رنگ اس میں نظر آتے ہیں۔ یادیں، نوحے، حادثے، شخصیات، رسومات، تغزل، تشبیب، حسن، طنز ومزاح، واقعات، قصص، منقبت، نعت اور حمد سبھی کچھ اس شاعری میں ملتا ہے۔ یوں تو اس میدان میں سب ہی کو اپنا گھوڑا دوڑانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہر شخص کچھ نہ کچھ بنا کر پیش کرلیتا ہے۔

مگر کچھ لوگوں نے اس میں امتیازی شہرت پائی۔ یہ عموما دیہی ماحول کی سطحی اور عمومی شاعری ہوتی ہے جسے بعض اوقات ترنم کے بل پر کامیاب بنادیا جاتا ہے مگر بہت سے ممتاز شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس جہت میں بھی باکمال شاعری کی۔ نادر تشبیہات، استعارے وکنائے متعارف کرائے گئے۔ خوبصورت احساسات، منظر کشی اور رموز پیش کیے گئے۔ بہت سے ایسے شاعروں کی شاعری سننے کے بعد یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اگر انہیں پڑھنا لکھنا آتا ہوتا، انہیں پڑھا لکھا ماحول ملتا، ادبی محفلیں اور ادبی لوگ ملتے تو شاید یہ بھی اپنی زبان کے ممتاز شاعروں میں سے شمار کیے جاتے۔ شاید ان کے بھی کلام شائع ہوتے۔ مگر دیہات، غربت اور بے تعلیمی نے ان کی شخصیت کو اٹھنے نہ دیا۔ یہ عمدہ صلاحیتیں یوں ہی رل گئیں۔

یہ نظم کی طرح کلام ہوتا ہے جس کے ایک ایک بند کے بعد ٹیپ کا مصرعہ بار بار دہرایا جاتا ہے۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس کے گانے کی باری ہوتی ہے وہ پہلے ٹیپ کا مصرعہ اپنے طرز پر اٹھاتا ہے۔ اس کے بعد وہ پہلا بند اٹھاتا ہے۔ پہلے بند کے اختتام کے ساتھ جب ٹیپ کا مصرعہ پڑھاجاتا ہے تو سارے ہم نوا اس کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ دف، تھال اور ٹین بجانے والے ہاتھ بھی حرکت میں آجاتے ہیں۔ یوں یہ قوالی سے ملتی جلتی کوئی صورتحال بن جاتی ہے۔

بانڈار ایک ثقافتی تفریح ہے جو آج بھی انتہائی مقبول ہے۔ میوزک کے جدید سے جدید ذرائع آچکے ہیں۔ موبائل فون میں ہرشخص کے پاس درجنوں کی تعداد میں گانے موجود ہیں مگر بلوچستان کے پشتون علاقے اور بلوچستان کے سرحد سے لگنے والے افغان علاقوں میں یہ آج بھی پوری طرح مقبول ہے۔ عید، شادی، منگنی اور دیگر خوشیوں کے مواقع پر جو ”چس“ بانڈار میں ملتی ہے وہ کسی میوزک پارٹی وغیرہ میں کہاں؟ شہروں میں آکر اس کی شاعری کا لہجہ بدل گیا ہے۔

مگر یہ اب بھی وہی بانڈار ہے۔ اس میں دف، تھال اور ٹین کے ڈبے کے بجنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اس میں جو سواد ہے وہ طبلے، ہارمونیم وغیرہ کے ملغوبہ آوازوں میں کہاں۔ یہ قدیم دور سے ہی میوزک کنسرٹ، کنجرپن یا اس طرح کے دیگر ناموں سے یاد نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے شروع سے ہی ایک ثقافتی تفریح سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے یہ دینی طبقے میں بھی یکساں مقبول تھا۔ حتی کہ مساجد کے حجروں میں جو طلبہ قیام پذیر ہوتے تھے جمعہ کی رات کو جب ان کی پڑھائی کی چھٹی ہوتی تو بانڈار ان کی سرگرمیوں کا لازمی حصہ ہوتا تھا۔

اس میں طلبہ، امام مسجد اور محلے کے لوگ سبھی شریک ہوتے۔ البتہ محلے کے لوگ صرف سامعین ہوتے۔ گائیکی اور دف، تھال وغیرہ بجانے کے تمام امور یہ باریش سفید پوش مولوی ہی سنبھالتے۔ ان کے معاملات میں کوئی اہل محلہ مداخلت کی جرات بھی نہ کرتا، کیوں کہ کوئی ان کے ”معیار“ کا گائیک یا ”میوزیشن“ ہوتا ہی نہ تھا۔ ملا، طالب کی یہ سرگرمی سب میں پسند کی جاتی تھی۔ آج بھی بزرگ لوگ اس دور کو یاد کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ نے ماضی کی مٹتے ہوئے اقدار کا رونا روتے ہوئے جہاں اور دوسری چیزوں کا ذکر کیا تو بہت زیادہ افسوس کے ساتھ یہ بھی کہا : ”اب مساجد ومدارس کے حجروں میں بانڈار بھی نہیں ہوتے“۔

جب کیسٹوں اور ٹیپ ریکارڈ کا دور تھا تو کوئٹہ کی میوزک سٹوڈیوز میں بانڈار کی ریکارڈنگز بھی کی جاتی تھی۔ اس کی بھی کیسٹیں ملتی تھیں۔ کیسٹوں کا دور فنا ہوا تو اب موبائلوں میں اور یوٹیوب پر بھی بانڈار موجود ہے۔ پی ٹی وی کے ثقافتی پروگراموں میں بانڈار کو بھی پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے بجانے کے آلات اب بھی وہی ہیں۔ یہ اب بھی اپنی پرانی شکل میں بہت حسین لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).