بلاول اور شیخ رشید کا رشتہ


کوئی مہینہ بھرپہلے کاواقعہ ہے، ن لیگ کے دو سینئر رہنما اسلام آباد میں میڈیا سے ہم کلام ہونے جارہے تھے۔ تیاریاں جاری تھیں اور آپس میں گفتگو بھی، کیمرہ اور مائیک کھلے تھے اور آف دی ریکارڈ کچھ گفتگو میڈیا کے دفاتر میں سنی جارہی تھی۔ مشاہد اللہ کا موقف تھا کہ بلاول کا مزاج سیاسی ہے، رانا ثناء کا اصرار تھا کہ اردومیں ڈھنگ سے بات کرنے کا سلیقہ بہرطور ضروری ہے، مشاہد اللہ بولے یہ مسئلہ تو والدہ اورنانا کے ساتھ بھی تھا، وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجائے گا۔ مگر رانا ثناء کو وہی اردو کی فکر تھی، بولے کہ پاکستان میں سیاست کرنا تھی، عوام سے رابطہ رکھناتھا تو پاکستانی اسکولوں میں پڑھنا بہتر ہوتا۔ جس پر مشاہد اللہ نے روایتی جملے بازی کے اندازمیں جواب دیا، ”یہ تو دور اندیشی کی بات تھی، دوراندیشی کامظاہرہ کسی اور معاملے میں کیاگیا“۔

لیگی رہنما جو اپنے کسی انتہائی اہم مسئلے پر بات کرنے آئے تھے، بلاول پر یہ تبصرہ کیوں کررہے تھے، کیا وہ اتنے ہی فارغ تھے؟

جی نہیں جناب، انہیں جگہ خالی ہونے کا انتظار تھا۔ وہ جو جگہ جو میڈیا انہیں دینے والا تھا۔ ظاہر ہے جب بلاول اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود خطاب کرتے ہیں تو کیمروں کی توجہ ان کی طرف ہی ہوتی ہے کہ بھٹو کا نواسہ، بے نظیر کا بیٹا، کیا کہنے والا ہے۔ بس بلاول لاہور میں وکیلوں سے خطاب کررہے تھے اور میڈیا براہ راست وہ خطاب دکھا رہا تھا۔ لیگی رہنما اسلام آباد میں اپنی باری کے منتظر تھے، خطاب سن رہے تھے اور تبصرے بھی کررہے تھے۔ بلاول کاخطاب ختم ہوا۔ کیمرے بند ہوئے تو انہوں نے شکوہ کیا کہ تیز روشنیوں کے باعث انہیں تقریر میں کافی مشکل پیش آرہی تھی۔ پتہ نہیں رانا ثناء نے یہ بات سنی یا نہیں، اوراگر سنی تو سمجھ سکے یا نہیں

یہ پرانی باتیں آج یاد کرنے کا مقصد بلاول کا تازہ بیان ہے۔ جس میں انہوں نے شیخ رشید کے بارے میں وہی زبان استعمال کی جو رانا ثناء استعمال کرتے ہیں، یقینا وہ اس بیان پر بہت خوش ہوں گے۔ بلاول وہ فارمولے سیکھ رہے ہیں جو کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ یقینا وہ بالواسطہ یا براہ راست رانا ثناء اسکول آف پالیٹکس سے فیض پارہے ہیں۔ عنقریب وہ ٹھمکوں کے بارے میں بات کرنے کے قابل بھی ہوجائیں گے۔ اور تو اور دوسری جماعت کے قائد کے گھروالوں میں نامناسب رشتے بنانا بھی سیکھ جائیں گے۔

پانامہ لیکس کو پاجامہ لیکس بولنے کی مشق بھی کوئی ایسی مشکل نہیں۔ اور ابھی ہفتہ بھر گزرا ہوگا کہ نوعمر جیالے نے وزیراعظم عمران خان کے مرحوم والد پر اسی طرح کرپٹ ہونے کا الزام لگادیا جیسے تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ایسے القابات سے نوازتی رہتی ہیں۔ بلاول کو اس بات کی کیا فکر کہ کوئی ان سے الزام کے ثبوت مانگ سکتا ہے۔

اب جب سب ہی بلاول کے شیخ رشید سے متعلق بیان کو غلط ٹھہرارہے ہیں تو ہمیں کیا پڑی اس کی وکالت کرنے کی، اس محاذ پر ہمارا پیارا دوست غازی ڈٹا ہواہے، خدا اسے سدا غازی رکھے۔ شمع جونیجو اور دیگر لوگوں کے دھیان دلانے پر بلاول نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ بات کرتے ہوئے انہیں اخلاقی معیار کو برقرار رکھنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ سیاست میں اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے الطاف حسین اور عمران خان کو انکل کہہ کر مخاطب کرنے والے بلاول کسی کے لیے گٹر اور شیطان جیسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیوں ہوئے۔

بلاول کو تمیز سکھانے والے خود کو ان کی جگہ رکھیں، اور سوچیں کہ کوئی مسلسل انہیں بلو رانی بلو رانی کہتارہے، پھر میرا بلاول میرا بلاول کی گردان کرے تو وہ کب تک برداشت کریں گے۔ آخر شادی نہ کرنے کی عجیب وغریب وجہ بتانے والے شیخ رشید بلاول بھٹو سے کیا رشتہ قائم کرنا چاہ رہے تھے۔ لاول نئے دور کی سیاست کا علمبردار ہے اس سے باہمی احترام پر مبنی نیا رشتہ بنانے کے بجائے گلی محلوں کے لونڈوں لپاڑوں جیسی زبان کا استعمال یہی دن دکھانے والا تھا۔ جو کچھ بلاول آکسفورڈ اوربے نظیر سے نہیں سیکھ سکے وہ شیخ رشید، رانا ثناء اورمولانا فضل الرحمان جیسے لوگوں کے ذومعنی فقرے سکھا رہے ہیں۔

شیخ رشید پر بلاول کے اس بیان کا یقینا کچھ اثر نہیں ہوگا کیونکہ انہیں ایسے بیانات دینے اور سننے کی عادت ہے، آخر سینئر پالیمنٹیرین وغیرہ وغیرہ جو ہیں، مگر یہ بیان سیاستدانوں، حامیوں، صحافیوں سب کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت دے رہاہے اور وہی مصرعہ سنا رہاہے جو بچپن میں کسی کو گنگناتے سنتے تھے، ”پہلے بات کو تولو، پھر سوچ سمجھ کر بولو“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).