5فروری۔۔۔ یوم یکجہتی کشمیرکی تین دہائیوں کا سفر


پانچ فروری کا دن کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہارکے طور پر تین دہائیوں سے اس عزم کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کی بھرپور اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھتے ہوئے عالمی برادری کو اس جانب مبذول کرنے میں کامیابی حاصل کر لی جائے گی کہ کشمیریوں کو ان کا حق حق ِ خودارادیت دینے کے لئے بھارت پر زبردست دباؤ ڈالا جائے۔ یہ دباؤ اس نوعیت کا ہو کہ بھارت کشمیرمیں استصواب رائے کروانے کے لئے مجبورہو جائے۔ یہ دن آزادکشمیر اور پاکستان سمیت دنیا کے ہر اس ملک میں منایا جاتا ہے جہاں کشمیری اور پاکستانی موجود ہیں۔

عوامی سطح سے لے کر حکومتی سطح تک تقریبات کا انعقاد اس نہج پر کیا جاتا ہے کہ ہر زبان کی صدا اور ہر دل کی پکار میں کشمیررچا بسا ہوتا ہے۔ مظلوم و مقہورکشمیریوں کی تصویر ہر دل کے نہاں خانے میں اس اندازسے سجی ہوتی ہے کہ اس کی کسک دل کا ہر گوشہ محسوس کرتا ہے۔ صرف پانچ فروری ہی نہیں، ہرلمحہ، ہر پل اور ہر وقت ان مظلوموں اورمقہوروں کے چیخیں فضا میں گونجتی اور کوہساروں اور وادیوں میں سے یہ التجا کرتی سنائی دیتی ہیں کہ ہمیں ہماراحق کب ملے گا!

یہ اعزاز کشمیریوں کو حاصل ہے کہ انہوں نے قیام  پاکستان سے پہلے ہی الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ کشمیریوں کی منزل صرف اور صرف پاکستان ہے۔ اس قرارداد نے کشمیری کی ڈوگرہ حکومت اور بھارت کی  ہندوحکومت کے سینے پر کاری ضرب لگائی جس سے وہ بلبلا اٹھے اورانہوں نے اپنا سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ، ہرحال میں بھارت سے ہی الحاق کرے حالانکہ کشمیر کی آبادی مسلم اکثریت پر مبنی تھی۔

مقبوضہ کشمیر جواس وقت تین صوبوں جموں ’کشمیر اور لداخ پر مشتمل ہے، کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ دو لاکھ سے زائد ہے جس میں مسلمانوں کا مجموعی تناسب 68 فیصد اور ہندوؤں کا 30 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان صوبہ کشمیر میں آباد ہیں جہاں ان کا تناسب 97 فیصد سے بھی زائد ہے جبکہ لداخ میں ان کی تعداد 48 فیصد‘ ہندوؤں کی 6 فیصد اور بدھ مت سمیت دیگر ذاتوں کی 46 فیصد ہے۔ 1947ء میں کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب ایک اندازے کے مطابق 90 فیصد کے لگ بھگ تھا لیکن بعد میں آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کی علیحدگی اور مقبوضہ کشمیر سے لاکھوں مہاجرین کی پاکستان آمد کے باعث یہ تناسب کم ہو گیا نیزبھارت نے ایک منصوبے کے تحت ایک جانب کشمیر میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا اوردوسری جانب ہندوؤں کو آباد کرنا شروع کر دیا جس کے باعث تناسب مزید کم ہو گیا۔

ان اقدامات کے ذریعے بھارت اقوام متحدہ کی قرارداد برائے استصواب رائے پر اس اندازمیں عمل پیرا ہونا چاہتا تھا کہ کشمیر کی اکثریت، غیرمسلم آبادی میں تبدیل ہوجائے اورپھریہ اکثریت بھارت کے حق میں ووٹ دے لیکن 70 برس سے ایسانہیں ہوسکا اسی وجہ سے بھارت اِ س قرارداد پر، اقوام متحدہ اورعالمی برادری کے شدید دباؤ کے باوجود عمل نہیں کررہا۔ 1947 ء میں بھارت خود ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کرگیاتھا۔ اسے کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں، اپنی شکست واضح طورپردکھائی دینے لگی تھی اوراس سے پیشترکہ مجاہدین آگے بڑھ کر سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرتے ہوئے بھارتی رسد کاواحدراستہ بھی اپنے قبضے میں کرلیتے، بھارت معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا اوراگلے ہی دن اس اعلان کے ساتھ جنگ بندی عمل میں آگئی کہ دونوں افواج اپنی اپنی پوزیشن پر واپس چلی جائیں، حالات پرامن ہوتے ہی، کشمیر میں استصواب رائے کرواتے ہوئے قضیہ ختم کردیاجائے گالیکن یہ قضیہ ختم ہونے کی بجائے فزوں ترہوتاچلاگیا اوراب اسے 70 برس مکمل ہوچکے ہیں۔

1988 ء میں مسلح تحریک آزاد ئی کشمیر شروع ہوجانے کے بعد بھارت نے بڑی تعداد میں کشمیریوں کو شہید کرنا شروع کردیا۔ نہتے کشمیری جب بھی ظلم وتشدد کے خلاف احتجا ج کرتے اور جلسے جلوس نکالتے، ان پر اندھا دھند گولیاں برسا دی جاتیں۔ ان کی املاک کو نذر آتش کردیاجاتا اور ان کی جائیدادوں کو بم دھماکوں سے تباہ کردیا جاتا۔ اس صورتحال نے اِس پار مقیم کشمیریوں اور پاکستانیوں کو بھی زبردست غم وغصے میں مبتلا کرڈالا اور وہ اپنے کشمیری بھائیوں کی حالتِ زار پر سخت رنجور ہوئے۔

ان حالات میں ظلم وجبر کی چکی میں پسنے والے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے پاکستان میں عوامی سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اس دن پوری قوم نے زبردست طریقے سے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا جس کا عالمی رائے عامہ پر بھی انتہائی مثبت اثر پڑا اور بھارت بھی پہلی مرتبہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگیا کہ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی میں تنہا نہیں ہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم ان کی پشتیبان ہے۔ پاکستان میں پہلی بار 1990 ء میں جب عوامی سطح پر یوم یکجہتی کشمیر انتہائی جوش وخروش اور قومی جذبے کے ساتھ منایا گیا تو اگلے ہی برس 1991 ء میں وزیراعظم پاکستان نے بھی اس دن کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ چنانچہ 5 فروری 1991 سے یوم یکجہتی کشمیر کو قومی دن کے طور پر منایاجاتا ہے۔

اس دن پوری دنیا میں مقیم کشمیری اورپاکستانی مظلوم و مقہور کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے اورعالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کے لئے جلسے جلوس، سیمیناراوردیگرپروگرام منعقد کر تے ہیں۔ کشمیریوں کی حالیہ 30 سالہ مسلح اور مسلسل جدوجہدنے بھارت کو شدید زک پہنچائی ہے۔ اس دوران اگرچہ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن اس کے باوجود ان کے پایہ ٔ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔

تحریک آزاد ئی کشمیر میں اس وقت شدت آئی جب نوجوان کشمیریوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر ریلیاں نکالناشروع کردیں۔ بھارت اس اچانک تبدیلی سے زبردست بوکھلا گیا اور اس نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دیناشروع کردی۔ بھارت نے جب بھی تحریک آزاد ئی کشمیر میں شدت دیکھی، اسے دبانے کے لئے پاکستان سمیت کل جماعتی حریت کانفرنس کومذاکرات کی میز پرلے آیا۔

ہم ہرسال یوم یکجہت ئی کشمیر مناکرکشمیریوں کی جدوجہد اور ان کے موقف کی واضح اوردوٹوک الفاظ میں حمایت وتائیدکرتے ہیں لیکن جنت دلپذیرکشمیر کو بھارت کے قبضے سے چھڑانے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے ٹھوس اقدامات کا اٹھایا جانا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام ہرمرحلے پر کشمیری قوم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان کی بقاء اورجنوبی ایشیاکو ایٹمی جنگ سے بچانے کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ کشمیرکامسئلہ جلدحل ہو۔ پون صدی تک اِس وعدے کے ایفا نہ ہونے اور ہر نئے دن ظلم کی ایک نئی تصویر بن جانے والے تحریک آزادی میں مصروف کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کی اخلاقی ’سیاسی و سفارتی حمایت ہمیشہ جاری رہی ہے۔

پچھلی تین دہائیوں سے اس حمایت ویکجہتی کے عملی مظاہر کے طور پر پانچ فروری کو قومی دن کی صورت دے رکھی ہے۔ اِس دن پوری قوم کراچی سے خیبر تک اور دیگر دنیا میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی پوری شدت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک جانب جہاں مظلوم و مقہور کشمیریوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تم اس تحریک میں تنہا نہیں ’ہم تمھارے ساتھ ہیں اور یہ کہ جو زخم تمھارے جسموں پر لگتے ہیں ہم انہیں اپنے دلوں پر محسوس کرتے ہیں وہاں وہ بھارت کو بھی یہ باور کرواتے ہیں کہ کشمیری تنہا نہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

پانچ فروری کو یوم یکجہتی ٔ کشمیر کا دن اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت نے کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے بے شمار پاکستانی فوجیوں اور عام شہریوں کو شہید کیا ہے۔ بھارت نے مشرقی پنجاب کے فوجی ائیربیس اور اوڑی حملے کی آڑ میں پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کرنے کا جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی سطح پر ہزیمت زدہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ 8 جولائی 2016 ء کو نوجوان کشمیری مجاہد برہان مظفروانی کو فوجی مقابلے میں شہید کرنے کے بعد احتجاج کرنے والے نہتے اور معصوم کشمیریوں پر جس طرح ظلم و ستم اور تشدد کے پہاڑ توڑے گئے ’اس نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔

پیلٹ گنوں کا بڑی تعداد میں استعمال کرتے ہوئے معصوموں کو بینائی سے محروم کردینے کی نئی ریت کی بنیاد رکھ د ی گئی۔ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا گیا اور کوشش کی گئی کہ عوام کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وادی بھرمیں مسلسل اڑھائی تین ماہ کرفیو تک نافذ رہا لیکن اس سب کے باوجودکشمیریوں نے تمام حربوں کا ڈٹ کرنہ صرف مقابلہ کیا بلکہ وہ دنیا کو اپنی آخری واحد منزل کا پتا بتاتے ہوئے پاکستان کے قومی پرچم میں اپنے شہیدوں کے تدفین کو ایک شاندار اعزاز سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں جس پاک سرزمین کی مٹی کو وہ اپنی زندگی میں اپنے ہونٹوں سے نہ چوم سکیں، اُس کے پرچم میں لپٹ کر قبرمیں اترتے ہوئے شاید وہ اپنی تشنہ خواہش کی تکمیل کرلیں۔

٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).