پاکستانی معیشت، اسلام اور نوجوان


کچھ دنوں سے پاکستانی معیشت سے متعلق سیاسی رہنماؤں اور اپوزیشن کی طرف سے بیانات آ رہے ہیں اور وزیر معیشت اسد عمر کی جانب سے معیشت کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا گیا ساتھ ہی پچھلے دنوں گوگل پر ڈالر کی 76 روپے خبر سن کر ہنسی آئی کہ بھائی یہ پاکستانی کرنسی اور پاکستانی ریاست کے حکمران نہیں جو 76 روپے ڈالر پر کوئی رے ایکشن نہیں دیں گے۔ یہ امریکی ڈالر ہے اور یہ جعلی خبر سن کر ڈونلڈ ٹرمپ کو دل کا دورہ پڑ تے پڑھتے رہ گیا ہو گا۔

تو آئیے آگے چلتے ہیں آج ہماری معیشت، کرپشن، اسلامی تہذیب اور انصاف کی بات کرلی جائے تو کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار تین سیکٹرز پر ہوتا ہے پرائمری سیکٹرز، سیکنڈری سیکٹرز اور ٹرشری سیکٹرز۔ کسی بھی ملک کی جی ڈی پی تین سیکٹرز پر انحصار کرتی ہے اور جی ڈی پی نکالنے کے لئے گڈز اینڈ سروسز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔

دور قدیم میں مسلمانوں نے سوئی سے لے کر جہاز بنانے تک ایجادات کر ڈالیں تو مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی مگر جیسے ہی اسلامی تہذیب اور قرآن سے دوری ہوئی نا انصافی کرپشن، رسوائی اور ذلت نے ہمیں جکڑ لیا آج دیکھا جائے تو لوگ کرپشن کو معیشت کے زوال کا سبب کہہ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو بھارت، ملائیشیا، بنگلہ دیش دنیا کے کرپٹ ترین ملک ہونے کے باوجود سرمایہ کاروں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں 30 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاروں کا سرمایہ ان ممالک میں لگا ہوا ہے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھارت غربت زدہ ملک ہے وہاں یہ کرشمہ کیسے سرانجام ہوا تو باریکی میں اس عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان ممالک میں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کو اہمیت دی جاتی ہے عدالتوں میں بروقت مساوی بنیادوں پر اکثریتی فیصلے انصاف کی بنیاد پر اپنا مقام بناتے ہیں ان ممالک کی پارلیمنٹ میں پاکستانی اسمبلی اور سینیٹ کی طرح جنگل کا سماں نہیں۔

ان ممالک کی طویل پالیسیز کی وجہ سے سرمایہ کار یہاں کا رخ کرتے ہیں عدالتوں میں انصاف، پارلیمنٹ اور اسمبلی میں تہذیب، ربط و تسلسل اور کسی بھی حکمران کی مدت پوری کرنے کی وجہ سے یہاں سرمایہ لگانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ کار کے آنے سے معیشت کیوں کر بڑھے گی کیونکہ وہ تو اپنی بنی بنائی مصنوعات کو بیچ کر پیسہ کماتا آپ کے ملک میں کوئی مینوفیکچرنگ انڈسٹری نہیں لگاتا یہاں تک کہ آپ کا خام مال تک استعمال نہیں کرتا۔ پہلے تمام ممالک میں پرائمری سیکٹر اہمیت رکھتا تھا لیکن آج کے دور میں اور جدیدیت کو دیکھتے ہوئے ‏ٹرشری سیکٹر نے پرائمری سیکٹر کی جگہ لے لی ہے۔

کوئی بھی ملک معیشت کے تیسرے سیکٹر کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک کی جی ڈی پی کو دوسرے ممالک میں بڑھاتے ہیں تو پھر اس صورتحال میں ان ممالک کو یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے profit کا 50 فیصد دیتے ہیں تو آپ کا جواب ہوگا بالکل نہیں، ہرگز نہیں، کسی صورت نہیں، جی نہیں، یہ ممکن نہیں جیسے جوابات آپ لوگوں کے ذہنوں کی زینت بنیں گے اس مثال کو سامنے رکھ کر سی پیک کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سی پیک کو پاکستانی معیشت کے لیے خوشحالی کا نشان سمجھ رہے ہیں، کچھ لوگ ریاست کے حکمرانوں کی جانب سے پری پلان منصوبہ۔

اگر دیکھا جائے تو کثیرالقومی کمپنیوں کی طرح سی پیک بھی ایک کمپنی ہے جس میں چائنہ پاکستان کے لیے سرمایہ لگانے والا ملک ہے اور یہ سی پیک کا قرضہ صرف قرض نہیں بلکہ قرض کے ساتھ ہمیں سود بھی دینا ہوگا مثلا خراج، لگان اور سود۔ یہ مجھے آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاشی غلامی جیسے الفاظ ان تینوں کی تعریف کو بہتر طور پر واضح کر دیتے ہیں اور پھر چند عالمی سرمایہ داروں کی طرف سے پوری دنیا کو معاشی طور پر ہائی جیک کرنا، ورلڈ ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور آئی ایم ایف کا نعرہ لگانا اور قرضے کی آڑ میں مفلوج بنا کر اپنے اشاروں پر نچانا یہ سب معیشت کو کمزور کرنے کے ہتھکنڈے ہیں دوسری جانب دیکھا جائے تو ہماری نوجوان نسل آج کل کی مختلف ایپس جیسے ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ اور مختلف قسم کی پورن ویب سائٹس کے چنگل میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ پاکستان کی% 60 ساٹھ فیصد آبادی کو پورن ویب سائٹس کا صارف کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان ویب سائٹس کو استعمال کرنے میں ہمارے سیاستدانوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نامورشخصیات کے نام سر فہرست ہیں اور وہ پورے دل اور خوشی سے ان ویب سائٹس کو استعمال کرتے ہیں مختلف سوشل میڈیا پر گروپس کی شکل میں اور پورن ویب سائٹس کی آڑ میں تعلیم کو ٹارگٹ کرکے نوجوان نسل، ٹین ایجرزکو ان تمام چیزوں کی جانب راغب کیا جا رہا ہے کسی بھی ملک کے نوجوان اس ملک کے تمام سیکٹرز مختلف ایجادات اور آئیڈیاز دینے والے سب سے اہم ذریعہ ہیں اگر ان لوگوں کو تعلیم کے نام پر ان تمام چیزوں میں لگا دیا جائے تو اپنے ملک کی معیشت، مستقبل، تہذیب سب برباد ہوجائے گی۔

معیشت کو بڑھانے میں سیاحت اور کسی بھی ملک کے قدرتی اور معدنی وسائل دوسرا اہم ذریعہ ہیں قدرت نے ہمیں ان تمام چیزوں سے نوازا لیکن اس کے باوجود ہمارے ظالم، جابر حکمران ہوس کے مارے اور لالچی ہم پر مسلط ہوگئے جو پیسا کمانا چاہتے ہیں، اپنے اکاؤنٹ کو فل کرنے کے چکر میں بھیک مانگنا گوارا کرتے ہیں مگر ان کام چور ہٹ دھرم حکمرانوں نے سیاحت اور معدنی وسائل پر کام کرنا گناہ کبیرہ سمجھا۔

اگر معیشت کو بچانا ہے تو ان باتوں پر عمل کرنا ہوگا

1۔ اسلامی تہذیب کو پھر سے اہمیت دی جائے کیونکہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے

2۔ معیاری، شعوری، تربیتی اور ہنرمند تعلیم کو مساوی بنیادوں پر عام کیا جائے

3۔ سیاحت معدنی، قدرتی وسائل کی کھوج کے لئے انتھک محنت، کوشش اور جدوجہد کی جائے

4۔ ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن اور تحقیق کے لیے ادارے قائم کیے جائیں

5۔ پانچ سالہ منصوبہ بندی اور طویل المدت والی Policies تشکیل دی جائے

6۔ گڈز اینڈ سروسز پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ملک میں خام مواد اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں آجائے

7۔ کرپشن کو ہتھیار بنا کر جانے والی حکومتوں سے سیاسی بدلہ نہ لیا جائے

8۔ ملک میں تحقیق کے زیادہ سے زیادہ ادارے بنائے جائیں تاکہ نئی ایجادات ہو اور ہماری نوجوان نسل اس طرح زیادہ سے زیادہ راغب ہو سکے

8۔ تعلیم سب کے لئے کو صرف نعرہ نہ بنایا جائے بلکہ ہر طبقے کے لئے تعلیم کو مساوی بنیادوں پر عام کیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).