ذاتی انانیت میں پیامِ اصلاح


اگر بات علم کی حد تک ہی کی جاے توہم سب من حیث القوم غیر معمولی عقل و دانش پر اپنے وجود کی عمارت کو تعمیر کرتے ہوے دِکھائی دیتے ہیں اور اپنی فانی و ناپا ئیدار شخصیت کے ساتھ نا انصافی کرتے ہوئے اپنے منہ سے نکلی ہر بات کو آ خری حد تک درست مانتے ہیں اور درستگی کا بھی وہ انتہائی درجہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں غلطی کرنے کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہ ہو۔ اِس مفلوک الحال فکری انداز کے پیچھے جو چیززیادہ شدت سے کارفرما ہوتی ہے میرے نزدیک اُسے۔ ”ذاتی انانیت“ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ لفظ اپنے حجم کے اعتبارسے تو بالکل مختصر وجود رکھتا ہے البتہ یہ ایک لفظ پوری بشری معاشرت کے عروج و زوال پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

اِس ذاتی ا نانیت سے بھرپور اجتماعی انسانی رویوں کی یہ غیر فطری تعمیر ہمارے اندر وقتی فتح کا جذبہ جگانے کی صلاحیت تو بخوبی رکھتی ہے مگر دائمی طور پر خاموشی کے ساتھ ہمارے فکری و عقلی زوال کی پرورش کر رہی ہوتی ہے۔ راقمُ ا لحرو ف ذاتی انانیت کے خلاف ہرگز آواز بلند نہیں کرنا چاہتا ہاں البتہ اِس ذاتی انانیت کے طریقہء استعمال کے خلاف ضرور کھڑا ہونا چاہتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ ذاتی انانیت مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں میں ہمارے درمیان ہمہ وقت موجود رہتی ہے اور در پیش صورتِ حال کی مناسبت سے ہمارے ذہنوں اور دلوں کے اندر دیوانہ وار گردش کرتی رہتی ہے۔ ذاتی انانیت کے یہ بدلتے ہوئے رنگ و روپ کبھی سیاست کے میدانوں میں اپنے سیاسی قائدین کو نا جائزتحفظ دینے یا دلوانے کے ساتھ ساتھ نا حق طرف داری کرتے ٹیلی ویژن سکرینوں پر ہر روز ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ تو کبھی مذہبی و معاشرتی روا داری اور برد باری کی کوششوں کو روندتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی علاقائی تعصب کو پروان چڑھاتے ہیں۔ تو کبھی نسلی فرق کو امتیازی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی ذات پات کو اونچ نیچ کے لبادے میں اوڑھتے ہیں۔ تو کبھی زبان اور جنس کو بہتر و بدتر کے پیمانے پر تولتے ہیں۔

زمانہء حال پر بات کی جائے تو بہت ہی احتیاط اور اِختصار کے ساتھ راقم الحروف یہ بات کہنے پر مجبور ہے کہ آج ہم فاطرِ ارض وسماں کے بنائے قوائدو ضوابط کو چھوڑ کر صرف اپنی ذاتی انانییتوں کو پوجنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کی ہم ایک تندرست اور توانا معاشرہ تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔

کیوں نہ ہم ذاتی انا نیت کا استعمال بہتر بنائیں۔ ؟ کیوں نہ اس ذاتی انانیت کو جھوٹ کے خلاف اٹھنے کا ٹاسک دیں۔ کیوں نہ اِس ذاتی انانیت میں وہ جرات پیدا کریں جو صرف حق سچ کو دوست رکھے۔ کیوں نہ اس ذاتی انانیت کو علاقائی تعصب کے خلاف کھڑا کریں۔ کیوں نہ اس ذاتی انانیت کو غیر فطری مذہبی خلفشار کی بیخ کنی کا ذریعہ بنائیں۔ کیوں نہ یہ ذاتی انا نیت زبانی وعملی بد دیانتی کے مقابلے میں لائی جائے۔ !

دنیا میں کوئی بھی معاشرہ علم کی فراوانی میں ادب و عمل کو پشت دکھا کر خود کو زمانے کی رفتار کے مطابق مضبوط اور کامیاب زمانی بنیادوں پر کھڑا ہر گز نہیں کر سکتا۔

تو پھر کیوں نہ انا نیت کے اس جنون کے ذریعے علم کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی برابری کی سطح پر عزت و تکریم سے نوازا جائے۔ خالق ارض و سماں کی تخلیق کردہ ہر شے و شخصیت اپنی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اسی کی مناسبت سے میرے نزدیک ”علم“ کو آخری حد تک عملی جامہ پہنا کر ہی ہم علم کے ادب اور اس کی اہمیت کا بہترین حق ادا کر سکتے ہیں۔

تو آئیے آج ہم سب اپنے آپ سے عہد کریں اور اپنے ضمیر کو اِتنا اِختیار دیں کہ وہ ہماری فکری طور پر لاغر شخصیتوں کو جھنجھوڑ کر ہمیں ذاتی انانیتوں کے بہترین اِستعمال پر آمادہ کرے۔ میں یہ بات یقین کی آخری حدوں کو چھُو کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم مجمو عی طور پر اپنی زندگیوں میں اوپر ذکر کیے گئے فارمولے کی آبیاری کا آغاز کر دیں تو وہ وقت دور نہیں جب ہم حقیقی بنیادوں پر دنیاوی و اُخروی کامیابی کو اپنا مستقل رفیقِ سفر بنا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).