مرنے اور مارنے سے ارادے سرد نہیں ہوتے


فیض آباد کے اس پل کے نیچے سے گذر رہا ہوں جہاں بیٹھ کر سال بھر پہلے ایک “خادم” نے دارالحکومت کی شہ رگ بند کر دی تھی۔ آج وہاں ایک بڑا بینر لگا ہوا ہے جس پر جلی حروف میں تحریر ہے“ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے”۔

شہر اقتدار میں انڈین فورسز کی طرف سے کئے گئے مظالم کی تصاویر آویزاں ہیں۔ سر بریدہ لاشے، بچوں اور عورتوں پر مظالم، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، گولیوں سے چھلنی سینے، تشدد زدہ لاشیں اور روتے پیٹتے لواحقین کی تصویریں جگہ جگہ لگی ہیں۔

یقیناً ایک لمبے عرصے سے تشدد سہتے کشمیری سنگینوں تلے اپنی آزادی کے لئے نبرد آزما ہیں۔ ہندوستان کی ایک بڑی فوج اور ایٹمی طاقت ظلم کے ذریعے کشمیریوں کے جذبے کو سرد نہیں کر سکی۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے کہ جہاں طاقت استعمال کی گئی، جہاں نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا، جہاں کوئی برہان وانی مارا گیا، جلتی پہ تیل کا کام ہوا۔ شعلے بھڑک اٹھے، جذبے گرما گئے اور حوصلے بجائے ماند پڑنے کے ان میں شدت آ گئی۔

اگر ماورائے عدالت ظلم مسئلوں کے حل ہوتے تو ٹاڈا جیسے قانون اب تک بہت کچھ حل کر چکے ہوتے۔ تشدد اور جبر قوموں کے جذبے سرد کر سکتے تو جتنا گذشتہ ستر سال میں وہاں ہو چکا اب تک کشمیری برف ہو چکے ہوتے۔

 بس یہی کہنا ہے ہمیں اپنےسیکورٹی اداروں سے اور یہی سوچنا ہے ہمارے پالیسی سازوں نے بھی، کہ جبر کا راستہ نفرت کی دیوار کی بنیادوں میں چلتا ہے۔ جوں جوں جبر بڑھتا ہے نفرت کی دیواریں اور مضبوط اور بلند ہوتی جاتی ہیں۔ کسی کو مار دینا بہادری نہیں، اسے زندہ رکھنا اور اپنا بنا کر رکھنا شجاعت ہے۔ کسی کو اٹھا لینا اور اپنوں سے جدا کردینا اذیت ہے، کسی بچھڑے کو اپنوں سے ملا دینا عبادت ہے۔ کسی کو دوران انصاف دل کا دورہ پڑ جانے کی خبر چلا دینا حماقت ہے، کسی کو انصاف فراہم کرنا سنت ہے۔

آج کشمیر ڈے پر کشمیر کی مثال لے لیجئے۔ مرنے اور مارنے سے ارادے سرد نہیں ہوتے، مزید بھڑکتے ہیں، ابھرتے ہیں، آگ دہکاتے ہیں، ،متوجہ کرتے ہیں، ایک اور ایک گیارہ کرتے ہیں۔

وہ موڑ ابھی نہیں آیا، آنا بھی نہیں چاہیئے لیکن ہٹ دھرمیاں قائم رہیں تو رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ جن کے ہاتھ سٹیئرنگ پر اور پاوں ایکسیلیٹر پر ہیں، انہیں دھیان دینا ہوگا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).