سیاسی بدمعاشی کے پہاڑ تلے دفن رمشا وسان اور ایک خدا


سندھ کے ضلع خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی کا اصل تعارف تو تاریخی قلعہ تھا مگر اب رمشا وسان اس علاقے کی ایک نئی شناخت بن رہی ہے، کوٹ ڈیجی کے نواحی گاؤں میں تیرہ سالہ لڑکی رمشا اور اس کے خاندان پر قیامت ڈھا دی گئی ہے۔

رمشا ابھی بچی تھی مگر اس کی خوبصورت آنکھیں اور گوری رنگت نہ صرف رمشا بلکہ اس کی ماں، باپ اور تین چھوٹی بہنوں کے لئے مصیبت بن گئی۔

پولیس، میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے آنے والی خبروں کے مطابق رمشا کو دیکھ کر علاقے کے بگڑے نوجوان اور سابق وزیر منظور وسان کے رشتے دار ذوالفقار وسان کی نیت خراب ہوئی اور اس لڑکی کو اپنے دام میں لینے کی کوششوں میں لگ گیا، مبینہ طور پر لڑکی، لڑکی کے باپ اور ماں سے رابطہ کرکے اپنی مذموم خواہش کا اظہار کرنے کے باوجود لڑکی کو پانے میں ناکامی پر اس نے مبینہ طور رمشا کو اغوا کیا، جس کو علاقے کے عمائدین کی مداخلت پر واپس کروایا گیا مگر ملزم ذوالفقار پر کوئی جرمانہ یا سزا کا اطلاق نہیں ہوا، جو کہ نام نہاد جرگوں کی روایت کے بھی خلاف ہے۔

اس کے بعد کچھ لوگ آ کر رمشا کو قتل کردیتے ہیں اور آسانی سے فرار ہو جاتے ہیں، لڑکی کی ماں کہتی ہے کہ اس کی بیٹی کو ذوالفقار وسان نے اپنے ساتھیوں سمیت آکر قتل کیا ہے، پولیس قاتل کو پکڑنے کے بجائے لڑکی کے باپ کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ مدعی کے ہوتے ہوئے ایف آئی آر سرکار کی مدعیت میں کاٹی جاتی ہے، جس کے بعد دو دن تک لڑکی کا باپ منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔

ایک لاچار اور مجبور شخص جس کی چار بیٹیوں میں سے ایک کو کھو کر اپنی تین بیٹیوں کی عزت، اپنی اور بیوی کی زندگی اور اپنے ہمدردوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر سہم گیا تو پولیس، ملزمان اور ان کی پشت پناہی کرنے والے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ شاید معاملہ دبانے میں کامیاب ہو گئے، مگر بھلا ہو سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا جنہوں نے اس معاملے کو فالو کرنا شروع کیا، پھر سندھی الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات نے بھی معاملے کی کوریج جاری رکھی، جس کے نتیجے میں پولیس کچھ بیک فٹ پر گئی ہے۔

اب اطلاعات یہ ہیں کہ پولیس نے قتل میں ملوث اہم کرداروں کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے مگر یہ مضمون لکھتے وقت تک کسی کی گرفتاری ظاہر نہیں کی جا رہی۔ ساتھ ہی ساتھ روایتی طور پر پکڑ دھکڑ میں کچھ بے گناہ افراد بھی دھر لئے ہیں، جس کی بنا پر پولیس کا ایک مبہم موقف سامنے آیا ہے کہ کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اب بات ہے سیاسی دباؤ کی، اگر پولیس نے دباؤ برداشت کرلیا تو اصل ملزمان کی گرفتاری ظاہر ہوگی ورنہ بے گناہوں کو ہی ظاہر کیا جائے گا (جیسا کہ یہاں اکثر ہوتا ہے)۔

ضلع خیرپور سے صرف منظور وسان اور نواب وسان کا ہی تعلق نہیں بلکہ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیرپگارا، پیپلزپارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات نفیسہ شاہ اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا بھی تعلق اس ضلع سے ہے مگر ہنوز ان میں سے بھی کسی کوہمت نہیں ہوئی کہ ایک معصوم بچی کو انصاف دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے۔

بات صرف یہ نہیں کہ ملزمان گرفتار ہوں گے یا نہیں؟ اصل سوال یہ ہے کہ ان کو قرار واقعی سزا بھی ملے گی یا نہیں، کیونکہ ’جسٹس فار رمشا‘ کے ٹرینڈ کا اتنا فائدہ تو ہوسکتا ہے کہ پولیس بادلِ ناخواستہ ملزم کو گرفتار بھی کر لے، مگر شک ہے کہ چالان ایسا بنے گا کہ کچھ ہی دنوں میں ملزمان جیل سے رہا ہوجائیں، پھر رمشا کی تین معصوم بہنوں سمیت کئی معصوم بچیوں کی زندگی اور عزت کو ایسے بھیڑیوں سے محفوظ رکھنا اور مشکل ہوجائے گا۔

بات ایک رمشا تک محدود نہیں مگر سندھ کی لاکھوں لاچار بچیوں کی معصومیت کا سوال ہے۔ ہم نے ماضی میں جتنے بھی کیس دیکھے، تانیہ خاصخیلی کیس ہو یا کوئی اورشاید کوئی بھی ملزم ایسا نہیں جس نے سزا بھگتی ہو۔ اگر انصاف کا حصول اتنا مشکل ہے تو کیا رمشا کو انصاف دلوانے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ تو جواب ہے ’نہیں‘ ۔

ایک معصوم بچی کے قتل اور اس کے بعد متاثرہ خاندان کو جس فرعونیت کا سامنا ہے، اس رویئے کا جان کر پتہ نہیں کیوں میرے دل کو یہ آس ہوچلی ہے کہ مجرم کی رسی تنگ ضرور ہوگی۔ رمشا کو میں نے دیکھا تو نہیں تھا مگر مجھے اتنا پتہ ہے کہ رمشا اور میرا خدا ایک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).