خانیوال کے دکاندار سے امریکہ کی سوپر مارکیٹ تک


جب میں چار پانچ سال کا ہوا تو ہم لوگ خانیوال کے بلاک گیارہ سے بلاک چودہ منتقل ہوگئے۔ بلاک گیارہ میں ہمارا قیام دادی اماں کے ساتھ تھا جو امام بارگاہ کے احاطے میں موجود مکان میں رہتی تھیں۔ اس مکان میں پھپھو اور چچا بھی ان کے ساتھ تھے۔

میں اور بچوں کی طرح بچپن میں چیز کو چجی کہتا تھا۔ چاچا چجی کا نعرہ لگاتا تو چچا عزادار مجھے نیک محمد کی دکان پر لے جاتے اور ٹافی یا مرونڈا یا لولی پوپ دلاتے۔ پرچون کی وہ دکان اہلحدیث مسجد کی بیرونی جانب تھی۔ ادھیڑ عمر نیک محمد دروازے کے ساتھ چوکی پر بیٹھے رہتے تھے۔ سفید قمیص اور چوخانے والی لنگی پہنتے اور بالوں میں خضاب یا مہندی لگاتے۔ داڑھی بھی تھی۔

میں 2009 میں خانیوال گیا تو امام بارگاہ میں حاضری کے بعد مجھے خیال آیا کہ نیک محمد کی دکان کا حال دیکھوں۔ بے اختیار اس جانب قدم اٹھ گئے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ نیک محمد تیس سال بعد بھی اسی طرح دروازے کے ساتھ چوکی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سفید قمیص اور چوخانے والی لنگی باندھی ہوئی تھی۔ بالوں میں خضاب لگا ہوا تھا۔ داڑھی بھی ویسی ہی تھی۔

بلاک چودہ میں منتقل ہونے کے بعد میرا واسطہ دو دکانداروں سے پڑا۔ ایک میٹھا اور دوسرا پھیکا۔

میٹھا میں نے رواروی میں لکھ دیا۔ سب اسے میدا کہتے تھے۔ اصل نام حمید تھا اور اس کی دکان سڑک پر راؤ نثار کے سامنے والے گھر میں تھی۔ میدا چوڑی ہڈی لیکن ناٹے قد کا آدمی تھا۔ پیٹ نکلا ہوا۔ بچے سودا لینے آتے تو جھونگا مانگتے۔ میدا مرونڈے کا ٹکڑا ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ 1985 تک میدے کا باپ بھی زندہ تھا۔ میں نے اسے ہمیشہ سفید کرتے اور سفید تہمد میں دیکھا۔ چھوٹا سا حقہ اس کے ہاتھ میں رہتا تھا۔

میدے کی دکان پر سامان اچھا نہیں ملتا تھا۔ امی شکایت کرتی تھیں کہ میدے کے ہاں سے آئے ہوئے چاولوں میں کنکر زیادہ ہوتے ہیں اور دال دیر سے گلتی ہے۔ چنانچہ کچھ منگوانا ہوتا تو کہتیں، پھیکے کی دکان سے لانا۔

فیکے کا اصل نام رفیق تھا۔ اس کی دکان میدے کے مقابلے میں چار قدم دور تھی۔ سلیقے سے سجی ہوئی۔ ریکس بنے ہوئے۔ بعد میں شیشے کا کاؤنٹر بھی آگیا۔ لیکن مجھے وہاں جاتے ہوئے خوف آتا تھا۔ دکان پر کبھی کبھی فیکے کی ماں ہوتی تھی۔ وہ موٹی موٹی آنکھوں سے گھورتی تو میری جان نکل جاتی۔ وہ بچوں کو ڈانٹتی بھی تھی۔

میں کراچی شفٹ ہونے کے بعد پہلی بار 1993 میں خانیوال گیا۔ پتا چلا کہ میدے نے اپنی دکان کہیں اور کھول لی ہے۔ فیکے کی دکان 2015 تک وہیں تھی۔

میدے یا فیکے کی دکان پر پان نہیں ملتا تھا۔ امی پان منگواتیں تو مجھے ایک گلی دور جانا پڑتا۔ ڈاکٹر امین کے کلینک کے سامنے ایک دکان پر پان مل جاتے تھے۔ کراچی میں بیشتر لوگ سانچی پان کھاتے ہیں لیکن امی بنگلہ پان منگواتیں جو اس دکان پر ہوتے تھے۔

کراچی میں سب سے پہلے میرے ماموں زاد عارف بھائی مجھے راشد جنرل اسٹور لے کر گئے۔ انھیں کچھ سامان لینا تھا۔ راشد بھائی انتہائی دبلے پتلے اور ہنسی مذاق کرنے والے آدمی تھے۔ ہر آنے جانے والے سے چھیڑخانی اور جملے بازی کرتے۔ ان کا گھر برابر والی گلی میں تھا جس کے باہر ان کی بکری بندھی رہتی تھی۔ محلے کے لڑکے انھیں چھیڑنے کے لیے آواز لگاتے، راشد بھائی کی بکری خانہ بدوشوں کے بکرے کے ساتھ بھاگ گئی۔ راشد بھائی گھبرا کے دکان سے نکلتے اور بکری کو جگالی کرتا دیکھ کر سکون کا سانس لیتے۔

راشد بھائی سنی تھے اور انچولی میں شیعہ بڑھتے جارہے تھے۔ ایک دن وہ دکان ختم کرکے کسی اور علاقے میں منتقل ہوگئے۔

راشد بھائی کی دکان سے کچھ فاصلے پر اظہار خالو کی دکان تھی۔ شیخ اظہار ان کا نام تھا۔ خوش مزاج، خوش اخلاق۔ بابا سے ان کی فوراً دوستی ہوگئی۔ ان کے دکان کے باہر چھوٹا سا چبوترا تھا جہاں کبھی بابا، کبھی کوئی اور دوست ان کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف رہتا۔ اظہار خالو کی دکان کا نام کاشف جنرل اسٹور تھا۔ کاشف ان کے منجھلے بیٹے کا نام ہے۔ کاشف بھائی کو پتا چلا کہ ہمیں کراچی شفٹ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور میرا کوئی دوست نہیں تو وہ مجھے شام کو اپنے ساتھ کرکٹ کھلاتے۔

اظہار خالو کے بڑے بیٹے ارشاد بھائی کینیڈا اور چھوٹا بیٹا میرا دوست زوار حسین سویڈن چلا گیا۔ کاشف بھائی کراچی ہی میں رہتے ہیں۔

اظہار خالو کے ساتھ والی دکان ریحان خالو کی تھی۔ ان کے بچے جوان تھے اور شاید انھوں نے مصروف رہنے کے لیے دکان کھولی تھی۔ بعد میں ایسی ہی ایک دکان انور شاہ جی کے والد نے کھول لی۔ سب لوگ انھیں بڑے شاہ جی کہتے تھے لیکن ان کا جنرل اسٹور منے بھائی کی دکان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا سبب یہ کہ شروع شروع میں منے بھائی دکان پر کھڑے ہوئے۔ منے بھائی کا نام عمران عباس ہے۔ پورا انچولی بلکہ کراچی کی ساری شیعہ کمیونٹی ان سے واقف ہے کیونکہ وہ اپنی بہت خوبصورت آواز میں اذان دیتے ہیں اور سلام پڑھتے ہیں۔ قافلے بناکر مقدس مقامات پر بھی لے جاتے ہیں۔ میں پہلی بار شام ان ہی کے ساتھ گیا تھا۔

ایک اور قابل ذکر دکان ارمان بھائی کی تھی۔ ہم کئی سال تک ان سے مہینے کا سامان لیتے رہے۔ ان کی دکان انچولی کی مین روڈ پر تھی۔ ارمان بھائی دکان پر بیٹھتے اور سلمان بھائی بھاگم دوڑی میں مصروف رہتے۔ تھوک کا مال اپنی سوزوکی میں لے آئے۔ مہینے کا سامان لوگوں کے گھروں پر پہنچادیا۔ ان کے بیٹوں نے دکان پر بیٹھنے کے بجائے دوسری مصروفیات تلاش کیں۔ پہلے سلمان بھائی اور پھر ارمان بھائی کا انتقال ہوا اور دکان بند ہوگئی۔

پرچون کی چھوٹی دکانیں اب بھی ہوتی ہیں لیکن گزشتہ دس سال کے دوران ان کے کاروبار کو سوپر مارکیٹس نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کراچی میں میٹرو، امتیاز، چیز، کارفور اور بن ہاشم جیسی سوپر مارکیٹس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے اب کون سی پرچون کی دکان چلے گی؟

ہم دبئی میں کچھ عرصہ رہے تو کارفور ہی سے شاپنگ کرتے تھے۔ شارجہ منتقل ہوئے تو انصار مول ہمارے گھر سے ڈھائی سو میٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے فرسٹ چوائس تھا۔ جیو کے دوستوں کو بردبئی کی باقرمحبی سوپرمارکیٹ کی یاد آتی ہوگی۔ وہ ایک ایرانی کی دکان تھی جہاں کافی سستی اشیا مل جاتی تھیں۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ اس دکان پر وہ چیزیں رکھی جاتی تھیں جن کے ایکسپائر ہونے میں چند دن رہ جاتے تھے۔

پاکستان اور امارات میں ہر قسم کا مال ایک ہی بڑی سوپرمارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔ امریکا میں مختلف اقسام کی اشیا کے لیے مختلف سوپرمارکیٹس ہیں۔ مختلف ریاستوں میں مختلف چینز کا زور ہے۔ ہماری طرف وال مارٹ اور ٹارگٹ پر بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن الیکٹرونکس کا سامان لینا ہو تو لوگ بیسٹ بائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہاں زیادہ روائٹی ہے اور مال بھی سستا ہے۔ ملبوسات اور جوتوں کے لیے مارشلز مناسب انتخاب ہے۔ گھر کے سستے آئٹمز درکار ہیں تو ڈالر ٹری کا رخ کیجیے۔ کھانے پینے کا سامان چاہیے تو جائنٹ یا سیف وے چلے جایئے۔

مختلف اقوام کے لوگوں نے کھانے پینے کی اشیا کے لیے اپنی خاص سوپرمارکیٹس بنالی ہیں۔ کوریائی باشندے ایچ مارٹ کو پسند کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے حلال سوپر مارکیٹس ہر علاقے میں موجود ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کھانے پینے کی دکان میں قرآنی قاعدے اور آیت الکرسی کے طغروں کا کیا کام؟ لیکن پھر ہندوؤں کی سوپرمارکیٹ دیکھیے۔ وہاں ہنومان اور گنیش جی براجمان دکھائی دیں گے۔ جو دکھتا ہے، وہ بکتا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi