دل چھلنی کرنے والے مشورے


پچھلے ہفتے جب وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ سامنے آیا کہ حج پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی جاتی ہے تو سوشل میڈیا پر تنقید کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات سمیت محافظین حکومت مختلف دلیلیں دیتے نظر آئے۔ ان دلیلوں ایک دلیل بڑے زور و شور سے دہرائی گئی کہ حج صاحب استطاعت پر فرض ہے، جس کی استطاعت نہیں وہ حج پر نہ جائے۔ حکومتی سطح پر اس طرح کی دلیل افسوس ناک ہے۔ حکومت کسی سبسڈی کو واپس لینا چاھے تو وہ واپس لے سکتی ہے مگر اس طرح کے افکار دل کو چھلنی کرنے والے ہوتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں لوگ سالوں حج پر جانے کے لئے اسباب کی تگ و دو کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اتنے اسباب پیدا کر لیں کہ یہ فریضہ ادا کر لیں، وہ حکومت کے در پر سوال لے کر نہیں آتے ہیں کہ انھیں فری حج کروایا جائے۔ معاشرہ کا سفید پوش طبقہ سالوں ایک بار حرم دیکھنے کی چاہ اور روزہ رسول ص پر حاضری کا خواب پورا کرنے کے لئے خود انتظام کرتا ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سبسڈی کی سابقہ رقم تیس سے چالیس ہزار فی حاجی تھی جو پوری رقم کاصرف دس فیصد حصہ ہے سو حکومت جس کام سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے اس کو یہ جانچنے کی ضرورت تھی کہ دس فیصد سبسڈی ختم کرنے کے بعد حج کی رقم سو فیصد بڑھ کیسے گئی؟

جدید دور میں حکومت کا کام ایک مانیٹرنگ اور کنٹرولنگ اتھارٹی کا بھی ہوتا ہے جو یہ بات یقینی بناتی ہے کہ افراط زر اس قدر نہ بڑھ جائے کہ لوگوں کی ضروریات، ان کے مختلف امور ان کی دسترس سے باہر ہوجاییں۔ اس معانی میں ریاست لوگوں کو صاحب استطاعت بنانا ذمہ دار بن جاتی ہے۔ شریعت میں زکات دینے والوں کے لئے ایک معیار بنایا گیا ہے، مگر حج کے معاملہ میں صاحب اسطاعت کا مفہوم بالکل جدا ہے، حج کے لئے صاحب استطاعت ہونے کا فیصلہ ذاتی ہے۔

جس میں بندہ موجودہ دور کا تقاضوں کو مد نظر رکھ خود فیصلہ کرتا ہے، اور اس فیصلے میں حکومتی سہولت کا عنصر گہرا کسی اور معنی میں ہوتا ہے۔ سفر کے لئے پاسپورٹ، ویزا، مختلف قسم کے حکومتی تقاضے، ریاست کی ایئر لائن میں سفر اور رہائش کا انتظام بھی حکومتی سطح پر ہوتا ہے اور ایک حاجی یہ سارے اخراجات حکومت کو دیتا ہے جس میں ہر ہر سطح پر حکومت ٹیکس کی مد میں پیسے بھی لیتی ہے۔ اگر ایک سال میں یہ اخراجات دگنے ہوجاتے ہیں تو اس میں حکومت کا اپنا قصور ہے جس میں اس کو خود احتسابی کی ضرورت ہونی چاہیے۔

جدید ریاستی تصور میں ریاست کا کام لوگوں کو صاحب استطاعت بنانا بھی ہوتا ہے کیونکہ ریاست کا عمل ہر چیز پر ہوتا ہے۔ اپ ریاست کو روز مرہ کی ہر چیز پر ٹیکس کے نام پر پیسے دیتے ہیں، پانی، بجلی، اشیاء خوردنوش، آپ کا سفر، تفریح کون سی ایسی چیز جس پر حکومتی عملداری نہیں۔ حکومت چاہے تو کسی چیز کو لوگوں کی دسترس میں لے آئے اور چاہے تو دسترس سے دور کر دے۔ آج ریاستی سطح پر فیصلہ ہو کہ آیندہ حج پر صرف فرسٹ کلاس میں سفر ہوگا تو کتنے لوگوں کی دسترس سے حج باہر ہوجائے گا، آپ لوگ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اس کے برعکس ریاست یہ فیصلہ کرے کہ حج کی پروازوں پر فیول پر ٹیکس نہیں لیا جائے گا، ریاست سمندری اور زمینی راستوں سے حج پر پابندیاں ختم کر دے، ریاست سستے ٹھیکوں پر رہائش کا انتظام کرے تو کتنے لوگوں کی دسترس میں حج آجائے گا۔ ریاست کا کام سہولت کار کا ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر ممکن کوشش کرے کہ چیزیں لوگوں کی دسترس میں رہیں۔

اعتزاز احسن عدلیہ بحالی کے دور میں ”ریاست ہوگی کی ماں کے جیسی“ کی نظم ہر مجلس میں پڑھا کرتے تھے۔ اس کا ایک شعر تھا

ریاست ہوگی ماں کے جیسی

ہر شہری سے پیار کرے گی۔

ریاست کا کام شہریوں سے پیار کرنا اور ان کو سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے نہ کا دل چھلنی کرنے والے مشورے دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).