سانحہ ساہیوال اور شہری تحفظ مارچ


سانحہ ساہیوال حالات حاضرہ کا ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جس نے ہر صاحب انسانیت کے دل پر کاری ضرب لگائی۔ معصوم بچوں کی اپنے والدین اور بہن کے خون میں دھلے کپڑوں کی تصاویر دیکھ کر ایک بہت بڑا جذبہ انسانیت دیکھنے کو ملا تو احساس ہوا یہ معاشرہ اس قدر بے حس نہیں جیسا میں تصور کرتا ہوں، مگر چند ہی دنوں میں اس واقعے پر چپ سادھ لی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جب پشتون تحفظ موومنٹ کے ارمان لونی کو شہید کر دیا گیا تو ان تمام فیس بکی مظاہرین کی طرف سے بھی خاموشی دیکھنے کو ملی جنہوں نے جذبات میں آکر ساہیوال واقعے پر اپنی ڈی پی سیاہ کی۔ گو کہ ایک واقعہ چند دنوں پہلے ہوا مگر چونکہ اس کی لوکیشن پنجاب تھی بہت واویلا مچایا گیا، مگر اس خاموش ریاستی قتل پر تمام مظاہرین کے منہ پر تالے لگ گئے اور ایسا محسوس ہوا کہ شاید ان کے فیس بک اور ٹوئٹر کے تمام ایم بیز بھی ختم ہوگئے۔

ساہیوال میں پیش آنے والا واقعہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ایسے واقعات پنجاب میں کم و بیش اور دیگر صوبوں میں روزانہ پیش آتے ہیں۔ مگر سی ٹی ڈی کی بے وقوفی کہ انہوں نے چوبیس گھنٹے چلنے والی مین شاہراہ (جی ٹی روڈ) پردن دیہاڈے اپنا آئینہ لوگوں کو دکھایا اور صد شکر اس ٹیکنالوجی کا جس نے ان کے مذموم مقاصد کو عکس بند کر لیا۔ اس واقعے نے باور کروایا کہ کیسے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بنیادی انسانی حقوق کو دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔

ان مظالم کے خلاف آوازیں پہلے وزیرستان، فاٹا، بلوچستان، سندھ اور کے پی کے سے اٹھا کرتی تھیں تو اہل پنجاب اسے ریاست کے خلاف ایک سازش سمجھتے تھے اور کئی احباب نے ان آوازوں کو ففتھ جنریشن وار سے بھی تشبیہ دے ڈالی۔ سانحہ ساہیوال نے یہ پردہ فاش کر دیا کہ کس طرح ریاست نے سی ٹی ڈی اور دیگر سیکورٹی اداروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ کوئی بھی شہری ان اداروں کی پسندیدگی اور ذاتی رنجش میں دھر لیا جاتا ہے۔ اور کئی بے گناہ آج بھی اس امتیازی سلوک کی وجہ سے یا تو مارے جا چکے ہیں، جبری گمشدگی کا سامنا کر رہے ہیں یا پابند سلاسل کال کوٹھڑی میں بند ہیں۔

ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ریاست دشمن قرار دی کر ریاست اپنی نا اہلی اور عیبوں ہر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں آئین پاکستان میں بیان کردہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ مجھے ان لوگوں پر بے حد افسوس ہے جو وزیرستان میں ہونے والے مظالم کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے تھے ”کہ جنگ میں سب جائز ہے“ یا ”اگرکہیں دہشت گرد مارے جاتے ہیں تو چند ایک شہریوں کا مر جانا کوئی بڑی بات نہیں“۔

نسل پرستی کے طعنے دینے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ چاہے لاش وزیرستان، لورالائی، کوئٹہ، کراچی، پشاور، لاہور یا ساہیوال سے اٹھے یہ جنگ بہت سے بے گناہ افراد کی اموات سے عبارت ہے۔ نقیب اللہ محسود، طاہر داوڑ، حمید اللہ کابل خیل۔ ادریس وزیر، مغیث، منیب، مشال خان، ارمان لونی، ذیشان، خلیل سمیت اس کا خاندان اور بے شمار ایسے خاموش نام وہ تمام بے گناہ معصوم شہری ہیں جو اپنے جرم سے آگاہ بھی نہیں تھے، اس ریاست میں موت کی بھینٹ چڑھ گئے جہاں اس کا آئین ان کے تحفظ کا محافظ ہے۔

اس تمام صورت حال پر کتنے مرثیے لکھوں اورکتنی نوحہ خوانی کروں؟ مگر اب ادراک ہوجانا چاہیے۔ ہمیں اپنی صفیں درست کرنی ہوں گی۔ سوشل میڈیا پر احتجاج ایک مثبت کوشش ہے مگر ایسے مظالم پر گھر بیٹھ کر گرم کمبل میں پوسٹ لگا دینا یا اے سی کی ٹھنڈک میں ٹویٹ کر دینا کافی نہیں۔ اصل احتجاج اور جدوجہد انفرادی حیثیت میں سڑکوں پر نکل کر ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ اٹھیں اس سے پہلے کہ آپ کا خاندان بھی خلیل، ذیشان یا ارمان لونی کا خاندان بن جائے۔ ہم اس عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہر انسان ظلم سہہ رہا ہے مگر وہ خود کو اکیلا سمجھتا ہے اور اگر یہی انفرادی مظلوم اپنے اردگرد دیکھیں اور اپنے جیسے ان تمام انسانوں کے ساتھ جڑ جائیں تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یعنی مظالم کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو یکجا کرنا ہوگا۔

قسم پرسی کے ان حالات اور جبری جمود کے عالم میں لاہور کے چند متحرک دوستوں نے حقوق خلق موومنٹ کے نام سے ان آوازوں کو یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور 10 فروری کوشہری تحفظ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مارچ انار کلی سے شروع ہو کر گورنر ہاؤ س اختتام پزیر ہوگا۔ ہمیں اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ، اپنے معصوم بچوں، بہن بھایؤں اور آنے والی نسل کے بہتر مسقبل کے لئے اور ان تمام سے بڑھ کر انسانیت کی خاطر اس مارچ میں شرکت کرنی چاہیے۔ تبھی جا کر ہم ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں کیونکہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا گناہ ہے۔

بقول جالب؎
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان چلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).