بے جی اب میں روتا نہیں ہوں


پتر اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ اس لیے علیحدہ سویا کرو بے جی نے بستر بچھاتے ہوئے مجھے کہا۔ نہیں ابھی تو میں بہت چھوٹا ہوں اور گھر میں بھی سب سے چھوٹا ہوں اس لیے میں آپ کے ساتھ ہی سوؤں گا۔ میں نے ضد کر کے کہا۔ میں جو ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور ابھی تک بے جی کے پاس سوتا تھا۔ اور روز ان سے کہانی سنتا تھا۔ اس لیے جب انہوں نے علیحدہ سونے کی بات کی تو میں رونے لگا۔ اور میرا رونا بی جی کیسے برداشت کر سکتی تھیں انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کہا پتر ٹھیک ہے۔ رونا بند کرو جیسا تم کہو گے ویسا ہی ہو گا۔

بے جی ہماری بڑی والدہ تھیں۔ ان کی شادی اوائل عمری میں ہمارے والد صاحب سے ہو گئی۔ بھلے وقت تھے۔ غربت کا زمانہ تھا۔ کشمیر میں ڈوگرہ حکومت تھی۔ اور مسلمان کی حالت وگرگوں تھی۔ محنت مزدوری سے گزارہ ہو رہا تھا۔ شادی کے پندرہ سال تک جب اولاد نہیں ہوئی تو سب والد صاحب کو دوسری شادی کا کہنا شروع کر دیا۔ لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ اسی طرح جب تیس سال گزر گئے تو بے جی نے خود ہی ان کے لئے رشتہ دیکھنا شروع کر دیا اور ضد کر کے خاندان میں ہی ابا جان کی دوسری شادی کرا دی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا میں دوسری بیوی سے پیدا ہوئے۔ ہماری حقیقی امی کا خیال انہوں نے بہت زیادہ رکھا۔ اور ہم سب کو تو پالا ہی انہوں نے تھا۔

میں دو سال کا تھا کہ امی جان کا انتقال ہو گیا۔ مجھے تو کوئی سمجھ ہی نہیں تھی۔ اور میں بے جی سے زیادہ مانوس بھی تھا۔ اس لیے امی جان کا انتقال ہمارے لئے کو ئی خاص بات نہیں تھی۔ ہم سب کو بے جی نے اپنی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں اس طرح رتھ لیا کہ ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ ہماری حقیقی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔

مجھے سکول میں داخل کروایا گیا۔ تو روز صبح وہ مجھے ساتھ لے کر گاؤں کے سکول میں لے جاتیں اور چھٹی کے وقت سکول کے گیٹ سے لے کر مجھے گھر لے کر آتیں۔ ابا جان کہتے کہ تم اسے خراب کر دو گی۔ تو وہ کہتیں یہ میرا بیٹا ہے اور خراب نہیں ہو گا۔

صبح بڑی سحر سے قبل وہ اٹھ جاتیں تہجد پڑھنے کے بعد چکی لے کر بیٹھ جاتیں اور دن کے لیے دانے پیستی جاتیں۔ دیے کی روشنی میں اور پھر اسی آٹے کے بنے ہوئے پراٹھے ہمیں ناشتہ میں ملتے۔ پھر نماز کے بعد گائے کا دودھ دوہتیں اور گھر کی صفائی وغیرہ کر لیتیں۔ بہنوں کو کبھی انہوں نے کام نہیں کرنے دیا۔ ان کی زندگی میں ہم سارے صبح سورج نکلنے سے پہلے ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو جاتے۔ ان کے ہاتھ کے پراٹھوں کا ذائقہ ابھی تک بھو لتا نہیں ہے۔ ناشتہ کے بعد ہی ان کے پاس گاؤں کی لڑکیاں آ جاتیں۔ جو ان سے قران مجید پڑھنے آتی تھیں۔

ایک دفعہ انہوں نے مجھے کہانی سنانے کی بجائے ایک سچا واقعہ سنایا اور تلقین کی کہ بیٹا جب آپ بڑے ہو جاؤ گے تو جو بھی عورت ہو گی نہ اس کی آپ نے عزت کرنی ہے۔ یہ نومبر 1947 کی ایک سرد رات تھی سحر ہونے کی وجہ سے میں اٹھنے کا ارادہ کر رہی تھی کہ گلی میں قدموں کی آواز سنائی تھی۔ پھر دبی دبی آواز میں کسی نے آپ کے ابو پکارا اور ساتھ ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ پیر صاحب دروازہ کھولیں میں ہوں خواجہ عبدالعزیز آپ کے والد صاحب نے دروازہ کھولا تو ساتھ والے گاؤں کے ٹھیکیدار صاحب جو آپ کے ابو کے دوست بھی تھے۔

فوری اندر داخل ہوئے ان کے ساتھ تین خواتین اور ایک مرد بھی اندر آگئے۔ خواجہ صاحب نے آپ کے والد صاحب کو بتایا کہ یہ ہندو خاندان ہے اور آپ کے گھر میں رہے گا۔ اور آپ کو ان کی حفاظت کرنی ہے اور علی بیگ کیمپ میں بحفاظت پہچانا ہے۔ تو بیٹا ہم ان میاں بیوی اور دو بیٹیوں کو پندرہ دن اپنے گھر میں رکھا اور پھر میں اور آپ کے ابا جان ان کو بحفاظت کیمپ میں چھوڑ آئے۔ بعد میں جب گاؤں والوں کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئے اور غصہ کیا کہ آپ نے غیر مذہب کو پناہ دے کر ان کو فرار کروایا۔ تو بیٹا آپ نے بھی زندگی میں لوگوں کی مدد کرنی ہے۔

میری خالائیں جب بھی ہمارے گھر آتیں تو مجھے گلے لگا کر خوب پیار کرتیں اور ساتھ ہی کہتیں کہ میری مری ہوئی بہن کے بیٹے ہو۔ مجھے یہ بات بہت بری لگتی تھی۔ کیونکہ مجھے اس وقت تک امی جان کی وفات کا پتہ نہیں تھا۔ اور میں بے جی کو ہی اپنی حقیقی والدہ سمجھتا تھا۔ ایسے ہی ایک دن اس بات پر میں خالہ سے ناراض ہو کر بے جی کی گود میں جا بیٹھا اور کہا کہ میری امی تو یہ ہیں۔ اس وقت تو بے جی نے کہانی سنانے کی بجائے مجھے یہ بتایا کہ بیٹا آپ کی امی کا تو انتقال ہو گیا تھا جب آپ دو سال کے تھے اور میں آپ کی سوتیلی ماں ہوں۔

ان کی اس بات پر میں بہت رویا اور ساری رات نہیں سویا کہ انہوں نے یہ کیوں کہا ہے۔ اور میں ان کو ہمیشہ اپنی سگی امی ہی سمجھتا اور کہتا رہا۔ انہوں نے مجھے اور بہنوں کو اس طرح پالا کہ ہمیں کبھی بھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ ہماری سگی ماں نہیں ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ سگی ماں سے بھی زیادہ ہمیں پیار کرتی تھیں۔

1971 کے آخر میں ان کو چھاتی کا کینسر تشخیص ہوا۔ اس وقت یہاں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ والد صاحب ان کو لے کر میو ہسپتال لاہور لے کر گئے اور ایک دوست ڈاکٹر کے توسط سے ان کا آپریشن کروایا اور ایک ماہ ہسپتال رہنے کے بعد گاؤں واپس آگئیں۔ ابھی زخم تازہ تھا اور رستا رہتا تھا۔ اس عالم میں باجی سلیم نے ان کی روز انہ مرہم پٹی کا بیڑا اٹھایا اور ایک بیٹی کا حق ادا کر دیا۔

ان ہی دنوں ایک شام کو بہنوں اور مجھے اپنے پاس بٹھایا اور مجھے کہا بیٹا میں تندرست نہیں ہو رہی تو میں جلد اللہ کے پاس چلی جاؤں گی تو میرے پیچھے آپ نے اپنی بہنوں کو تنگ نہیں کرنا اور عورتوں کی عزت کرنی ہے۔ میں اس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اور وقت سے پہلے سمجھدار ہو گیا تھا۔ میں رونے لگا اور اتنا رویا کہ ہچکیاں بند گئیں میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہ بے جی ہمیں چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ میں ساری رات روتا رہا اور ان کی بیماری کے باوجود ان سے لپٹ کر ان کے ساتھ لیٹ گیا۔

انہوں ن مجھے بہت پیار کیا اور کہا کہ بیٹا آپ کو بہادر بننا ہے۔ اور اگر آپ روؤ گے تو مجھے تکلیف ہو گی۔ اور مجھ سے وعدہ لیا کہ آج کے بعد میرا بہادر بیٹا روئے گا نہیں۔ پھر 1972 ء کے اگست کی ایک اداس شام کو وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں اور اس دن میں نے والد صاحب کو پہلی بار روتے ہوئے دیکھا۔ کیونکہ پچاس سال سے اوپر کا ساتھ تھا۔ بے جی نے ساری زندگی غربت میں گزار دی۔ کبھی کوئی تقاضا نہیں کیا۔ خود نہیں کھایا بھوک سہہ لی لیکن آپ نے در سے کسی سوالی کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا۔

میں نے ان سے کہا ہوا وعدہ نبھایا اور ان کی وفات پر بالکل نہیں رویا۔ آج ان کو ہم سے جدا ہوئے چھیالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا۔ ایک دن بھی ایسا نہیں ہے جب میں نے بے جی کو یاد نہ کیا ہو۔ لیکن ان سے کیے ہوئے وعدے کا پاس کرتے ہوئے میں روتا نہیں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).