دوسرا جنم گزارنے کے بعض دعویدار


انسان کا اس دنیا میں پیدا ہونا، زندگی گزارنا اور پھر موت کے منہ میں چلے جانا اک معما ہی رہا ہے۔ کوئی جانے والا لوٹ کے آئے تو بھید کھولے۔ بطور مسلمان، ہمارا ماننا ہے کہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے۔ ادھر کچھ مذاہب ایک سے زائد زندگیوں کا یقین رکھتے ہیں۔ ہندومت، بدھ مت، جین مت، سکھ ازم اور قدیم یونانیوں کے ہاں دوسرے جنم کا تصور پایا جاتاتھا۔ ہندو موت کے بعد دوبارہ دنیا میں دوبارہ آنا ثابت کرتے ہیں۔ اس عقیدے کو اواگان یا تناسخ کہا جاتا ہے۔

نیک آدمی کسی انسان اور پھول پودے کی شکل میں اور گناہ گار جانوروں کے روپ میں دنیا میں دوبارہ بھیجے جاتے ہیں۔ اسلام میں اس کے برعکس نیک روحیں، علیین اور گناہگار روحیں سجین بھیجی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں بہت سے لوگوں نے دوسرے جنم میں زندگی گزارنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ذیل میں کچھ ایسے واقعات ہیں جنہیں دوسرے جنم کے ثبوت میں پیش کیا جاتاہے۔ بھارت کی ریاست آندرے پردیش میں 1926 میں پیدا ہونے والے ستیا سائیں بابا نے دعویٰ کیا کہ وہ شیرڈی کے سائیں بابا کا دوسرا جنم گزار رہاہے۔

اس کے مریدوں کا بہت بڑا طبقہ اس بات کو تسلیم کرتا تھا۔ وہ 1978 میں مرا اور اس کے کمرے سے سو کلو سونا اور کروڑوں روپے بھی برآمد ہوئے۔ 2004 میں بی بی سی نے اس پہ دستاویزی فلم بھی بنائی مگر عقیدت مند اس کے دوسرے جنم پہ تا حال بضد ہیں۔

اسی طر ح 1926 میں ہی دہلی میں پیدا ہونیوالی شانتی دیوی جب سات سال کی ہوئی تو اپنی ماں کو بتایا کہ وہ ماتھورہ نامی قصبے میں پہلے بھی جنم لے چکی ہے۔ والدین بہت پریشان ہوئے اور اسے ابنارمل سمجھتے ہوئے ڈاکٹر سے مشاورت کی مگر ڈاکٹر کو کچھ سمجھ نہ آسکی۔

دو سال بعد شانتی نے مزید بتایا کہ پچھلے جنم کی سب باتیں اسے یاد ہیں۔ ماتھورہ میں اس کا نام لتھوگی تھا اور وہ دو بچوں کی ماں تھی۔ ماں باپ مزید پریشان ہوئے۔ اک روز شانتی کے باپ سے اک شخص ملنے آیاجسے دیکھ کر شانتی چونک اُٹھی اور بتایا کہ وہ شخص پچھلے جنم میں اس کے شوہر کا چچا زاد بھائی تھا اور اس کا نام شری لال تھا۔ اس شخص نے اپنے نام کی تصدیق کی اور یہ بھی مانا کہ اس کے کزن کی بیوی کا نام لتھوگی ہی تھا اور دس سال پہلے اس کی موت ہوگئی تھی۔

بعد ازاں لڑکی کے علم میں لائے بغیر اس کے شوہر کو لایا گیا جسے شانتی نے فوراً پہچان لیا۔ واقعہ مشہور ہوا اور میڈیا تک پہنچا۔ اخبارات میں بھی چھپا۔ حکومتی ٹیم کی سر براہی میں شانتی کو ماتھورہ لایا گیا اور حیرت انگیز طور پر اس نے تمام لوگوں کو پہچانا اور ان کے نام تک بتائے۔ ٹیم نے حالات و واقعات کے تناظر میں شانتی کی بات کو درست تسلیم کیا تاہم یہ بھی لکھا کہ ان تمام واقعات کی عقلی توجیِیہ ممکن نہیں۔ یہ جادو تھایا محض اتفاق، کمیٹی اس کی وضاحت سے قاصر رہی۔

انسانی عقل کے لئے یہ واقعات ناقابِل قبول ہیں اور استثنائی حیثیت کے حامل ہیں۔ ایسے ہی مصر کے قصبے میں دس سالہ بچے نے والدہ کو بتایا کہ پچھلے جنم میں اسے اس کے ہمسائے نے کلہاڑی مار کر قتل کردیا تھا۔ اس کی نشاندہی پہ دور دراز گاؤں لایا گیاجہاں اس نے پورے گاؤں کے ہر گلی محلے کے بارے میں معلومات دیں حالانکہ یہاں وہ پہلی بار آیا تھا اور اس کے ہمراہ ڈاکٹر ز اور سائنسدان بھی تھے۔

اسلام اور سائنس دونوں ان نظریات کی نفی کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ شعور، لا شعور اور تحت شعور کے یا پھر غیر معمولی چھٹی حِس کے معاملات ہیں۔ ان کا تعلق نسل در نسل منتقل ہونے والی یادداشتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ واللہ اعلم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).