نواز لیگی پنجاب کو قتل کرنے پر تل گئے؟


ہمارے خیال میں مسلم لیگ نواز نے کوئی انوکھی سیاسی ”واردات“ مستقبل کی سیاست میں ہلچل مچانے کے لئے نہیں ڈالی ہے کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کرا دیا ہے۔ اور پنجاب کے حقیقی معنوں میں صوبوں (بہاولپور۔ جنوبی پنجاب۔ وسطی پنجاب) کی شکل میں تین ٹکڑے کرنے کے لئے آگے بڑھ گئی ہے۔ ان کی اس ادا کو پنجابی دوستوں کی طرف سوشل میڈیا میں ”پنجاب کے قتل“ اور ”پنجاب کو ٹوٹے“ کرنے سے جوڑا جا رہا ہے، ہمیں ان کے موقف پر اعتراض نہیں لیکن اس وقت جب مئی 2012 نواز شریف کے ویثرن کے مطابق پنجاب میں نواز لیگی حکومت کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ پنجاب کو تقسیم کرکے بہاولپور صوبہ کو بحال کرنے اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے متفقہ قراردادیں پیشں کر رہے تھے تواس وقت ان پنجابی دوستوں کو کھڑے ہونا چاہیے تھا اور نوازلیگی قیادت سے جواب طلبی کرنی چاہیے تھی کہ آپ ہمارے پنجاب کو ہم سے مینڈیٹ لیے بغیر ٹکڑے ٹکڑے کیوں کرنے جا رہے ہیں؟

ہم نے آپ کو اس بات کا مینڈیٹ الیکشن میں نہیں دیا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ ان کی خاموش رہنے کے پیچھے کیا حکمت عملی تھی، اس کے بارے میں راقم الحروف قیاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا جاتا ہے۔ ادھرجنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی کے لئے متفقہ قراردادوں کی منظوری کے وقت پنجاب کے ایوان کی یہ حالت تھی کہ اکیلے نواز لیگی رکن صوبائی اسمبلی شیخ صلاح الدین کے علاوہ پورے ایوان کے ارکان نے خوشی اور جوش میں ڈیسک بجا بجا کر اپنے ہاتھ لال کر لیے تھے۔ پیپلزپارٹی سمیت کوئی جماعت ایسی نہیں تھی جوکہ ان قراردادوں کی حمایت ایوان میں نہیں کر رہی تھی بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ نواز لیگی قیادت بہاولپور صوبہ بحالی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی قراردادوں کی متفقہ منظوری پر یوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی کہ ایوان کے اس تاریخی فیصلہ کے بعد ان کی ان غربت زدہ دوردراز علاقوں سے جان چھوٹ گئی ہے۔

اب وہ وسطی پنجاب میں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کے علاوہ پنجاب پر حکومت کو انجوائے کریں گے۔ ادھر پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ مع آصف علی زرداری اس بات کا کریڈٹ اپنے نام کر رہے تھے کہ انہوں نے آخرکار نوازلیگی لیڈرشپ کو سیاسی میدان میں چاروں شانے چت کر کے اس کے اپنے ہاتھوں پنجاب تقسیم کروا لیا ہے۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی، دونوں بڑی پارٹیوں پیپلزپارٹی اور نوازلیگی قیادت نے بہاولپورصوبہ بحالی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے حامیوں کو اپنے اپنے انداز میں جھوٹے نعروں کے سہارے اپنے سیاسی ایجنڈے کے پیچھے تو لگائے رکھا لیکن عملی طورپر بہاولپور صوبہ بحالی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے کوئی کام نہ کیا۔

اگر کچھ کیا بھی سہی تو وہ اتنا ہی تھا کہ وقت پاس کیا جائے اور ان کو اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رکھا جائے کہ ابھی تھوڑی مشکلات ہیں، ملکی حالات خراب ہیں، اسمبلی میں اکثریت کا ایشو ہے، فکر نہ کریں، صوبہ اگلی حکومت میں کرلیں گے، فی الحال سرائیکی بنک بنا لیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ صورتحال یوں دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے رہی کہ نوازلیگی قیادت نے دس سال پنجاب میں اور پانچ سال وفاق میں بحیثیت حکمران نکال لیے۔

ادھر پیپلزپارٹی نے وفاق میں پانچ سال اور دس سال سندھ میں بحیثیت صوبائی حکومت نکال لیے۔ ادھر جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے حامیوں اور بہاولپور صوبہ کے ہمدردوں نے بھی ان جماعتوں کے نعروں کے زور پر غربت میں اپنے دن پورے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ابھی تک جی رہے ہیں، اس دوران الیکشن سے قبل ان کو تحریک انصاف کی تبدیلی کی دعویدار قیادت نے بھی سو دنوں میں پنجاب کی تقسیم کی نوید سنا کر، مینڈیٹ لے لیا اور حکومت میں آ کر اپنے وعدے سے یو ٹرن لینے کے بعد آگے بھی بڑھ چکی ہے لیکن شاباش ہے، جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کے جیالوں کی کہ انہوں نے ابھی تک بھی حوصلہ نہیں ہارا ہے، اس بات کے باوجود کہ حد ہوگئی ہے وعدوں اور تسلیوں کی۔

اب ذرا غورکریں کہ نواز لیگی قیادت کو 2012 کے بعد جب 2019 آ چکا ہے، پنجاب کو تقسیم مطلب پنجابی دوستوں کے مطابق ٹوٹے کر کے بہاولپور صوبہ بحالی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کاخیال آ ہی گیا ہے۔ ان کی جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاولپور صوبہ کے حامیوں کے لئے محبتوں کا اندازہ اس جلدی سے لگایا جا سکتا ہے، یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز اس وقت یہ پھرتی دکھا رہی ہے جب نواز لیگی قائد نواز شریف کوٹ لکھپت جیل کے قیدی ہیں اور پنجاب کے خادم اعلی شہبازشریف نیب کے ملزم کی حیثٰیت میں ڈیل اور ڈھیل کے درمیان دن پورے کر رہے ہیں۔

آئینی ترمیمی بل جو کہ مسلم لیگ نو از کے لیڈر احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثنا اللہ اور عبدالرحمان کانجو نے اپنے دستخطوں سے سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کروایا ہے، اس کوہمارے خیال میں یوں لینا چاہیے کہ ”لوآپ اپنے دام میں صیاد آ گیا“۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو جھومر ڈالنی چاہیے کہ پنجاب کی تقسیم کے لئے نواز لیگی قیادت ایک بار خود ہی قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم بل لے کر آگئی ہے اور مطالبہ کر رہی ہے کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ بنایا جائے۔

پیپلزپارٹٰی کی قیادت کو شک ہے تو اس کی قیادت ذرا دوبارہ پڑھ لے کہ نوازلیگی قیادت نے آئینی ترمیمی بل جو سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرایا ہے اس میں کیا کہا ہے۔ یہی کہا گیا ہے نا کہ آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم سے بہاولپور، جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے الفاظ شامل کیے جائیں، صوبوں کی تشکیل کے لئے آئینی ترمیم کا عنوان آئینی (ترمیمی ) ایکٹ مجریہ 2019 ہے۔ جس کے مطابق بہاولپور صوبہ بہاولپور کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتمل ہو گا، جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنوں پر مشتمل ہوگا۔

ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائیں گے۔ آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشتوں میں رد و بدل کیا جائے، ترمیم کے بعد بہاولپور صوبہ کی 15 جنرل، خواتین کی تین ملا کر قومی اسمبلی کی اٹھارہ نشتیں ہوجائیں گی۔ بلوچستان کی 20، جنوبی پنجاب صوبہ کی 38 پختوانخواہ کی 55، صوبہ پنجاب کی 117، صوبی سندھ کی 75 اور وفاقی دارالحکومت کی قومی اسمبلی میں 3 نشیتں ہوں گی۔

حضور سارا کچھ تو واضع ہے۔ ہمارے خیال میں پیپلزپارٹی کو اس آئینی ترمیم بل پر اعتراض نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہی پیپلزپارٹی تھی نا جو مسلم لیگ نوازکے ساتھ مل کر 2012 میں پنجاب اسمبلی میں دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر متفقہ قراردادیں لائی تھی، جن میں اسی بات کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ پنجاب کو تقسیم کر کے بہاولپور صوبہ بحال کیا جائے اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کو یقینی بنایاجائے۔ پیپلزپارٹی اگر اپنے مطالبہ سے پیچھے ہٹتی ہے تو ان کی خدمت میں یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ جھوٹ بولا ہے تو اس پر ظفر قائم بھی رہو۔ آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے۔

ادھر تحریک انصاف کی قیادت لیگی آئینی ترمیمی بل پر کیوں اتنی خفا ہو رہی ہے؟ ان کو تو خوش ہونا چاہیے، وہی تو ہو رہا جو کہ پنجاب کے ایوان کی متفتقہ رائے تھی، اب تو قومی اسمبلی کے ایوان میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جوکہ پنجاب کی تقسیم کے خلاف ہو، یوں نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ ست بسم اللہ، تبدیلی کا آغاز پنجاب کی تقسیم سے ہی کر لیا جائے۔ اور ادھر تھل (خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ، چینوٹ ) کے بارے میں بھی فیصلہ کیا جائے کہ ان کو لاوارث سمجھ کرعوام سے پوچھے بغیر وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں کیوں شامل کیا جا رہا ہے؟

یاد رہے کہ تھل جو کہ سات اضلاع پر مشتمل ہے، اس کی قومی اسمبلی میں 17 اور پنجاب میں 37 صوبائی اسمبلی کی نشتیں ہیں اور رقبہ کے لحاظ سے بھی بڑا علاقہ ہے۔ اس کی سیاسی حیثٰیت پنجاب میں کسی دوسرے علاقہ سے کم نہیں ہے۔ بہاولپور کے تین اضلاع پر اعتراض کرنے والے تھل کے سات اضلاع کو کیوں نظرانداز کر رہے ہیں۔ اور تھل کے ساتھ 71 سال سے سوتیلی ماں کا سلوک چلا آ رہا ہے۔ خاص طورپر اس وقت جب پنجاب کو تقسیم کیا جا رہا ہے، تھل کے عوام کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے بالکل نظرانداز کیا جا رہا ہے جوکہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔ یہاں بھی جیتے جاگتے لوگ بستے ہیں اور ان کو بھی جینے کا حق ملنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).