لیڈر بنائیں گے، بننے نہیں دیں گے


پاکستان پر کسی کا سایہ ہے۔ ایک تو وہ سایہ ہوتا ہے جو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن ایک وہ سایہ ہوتا ہے جو ظاہری آنکھوں سے دیکھا تو نہیں جا سکتا لیکن پھر بھی نظر آتا ہے۔ اس سائے کو سایہ تو کہاجاتا ہے لیکن کسی کو خبر ہو نہیں پاتی کہ سایہ کس کا ہے۔ اس کے لئے لوگ پیروں فقیروں کا سہارا لیتے ہیں۔ جھاڑ پھونک کرواتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عام طور پر تواہم پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ لوگوں میں کچھ لوگ اس کو نفسیاتی بیماری کا نام دے کر ماہر نفسیات کے حوالے کردیتے ہیں جو عام طور پر ان کو پاگل خانے تک پہنچا دیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بیشتر افراد تو جھاڑ پھونک سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جن کا بھوت بڑے بڑے پیر بھی نہیں اتار پاتے۔ ایسے افراد جن کا بھوت کسی طور نہیں اتر پاتا ان میں سے اکثر مزارات کی زینت بنا لئے جاتے ہیں۔

نفسیاتی ڈاکٹروں پر مشتمل پاگل خانوں میں رکھے جانے والے پاگل ہوں یا مزاروں کے حوالے کیے جانے والے پاگل، دونوں میں مشترک بات ”آمدنی“ ہی ہوتی ہے خواہ وہ مزاروں کے زینت بنے پاگل و نیم پاگلوں کے ذریعے ہو یا پاگل خانوں میں داخل دیوانوں اور مجذوبوں سے۔

جس طرح اُن پر سوار ”سایوں“ کو نہ تو کوئی جان سکا اور نہ ان کو دیکھا جاسکا بالکل اسی طرح پاکستان کی سیاست پر سوار ”سائے“ آج تک کسی کو نظر نہیں آسکے اور مستقبلِ قریب میں بھی ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے کہ وہ سائے ظاہرہ آنکھوں سے کسی کو نظر آسکیں البتہ جو ان کو جان چکے ہیں وہ جان بوجھ کر بھی کسی کو بتانے سے اس لئے گریزاں رہتے ہیں کہ اِدھر زبان کھولی اُدھر سایہ ان پر اس بری طرح سوار ہوجاتا ہے کہ یا تو زندگی چھین لیتا ہے یا پھر قیامت تک کے لئے اسے ایسا غائب کردیتا ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیران ہو کر رہ جاتی ہیں۔

یہی وہ خصوصیت ہے جو ان سایوں سے مختلف ہے جس کی وجہ سے ان کو پاگل خانے یا مزاروں پر لیجانا پڑتا ہے۔ پاگل خانوں یا مزاروں پر لیجانے والے پاگلوں پر جن ”جنوں“ کا سایہ ہوتا ہے ان کا نام لینے پر آج تک نہیں دیکھا گیا کہ محض نام لینے کی وجہ سے نام لینے والوں پر وہ سوار ہو جائیں۔ گویا ان میں پھر بھی کچھ نہ کچھ ”جناتیت“ پائی جاتی ہے۔ گا اس لحاظ سے جس کا سایہ پاکستان پر ہے ان کو ”فوق السایہ“ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

عام طور پر جس پر وہ معروف سایہ جس کو عرف عام میں سایہ ہی کہاجاتا ہے وہ اگر بگڑ جائے تو فرد کو پاگل خانے یا مزارات ہی کی زینت بناتا ہے لیکن ”فوق السایہ“ سلطنت سائیہ ”کی حکمرانی پر فائز کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے فرد کوبار بار ایک ہستی یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ اب آپ صرف حامل سایہ ہی نہیں بلکہ وہ سایہ بن چکے ہیں جو پوری سلطنت پر سایہ فگن ہے۔ بار بار کی یاد دھیانی کے باوجود بھی ایسے فرد کو بے سائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے اور اچانک وہ عام انسان کی طرح تصوراتی کنٹینر پرکھڑا ہوکر اپنی پرانی زندگی کو یاد کرنے لگتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اس کے سامنے ملک و قوم کے نہایت قابل، عقلمند، سمجھدار اور دانشور افراد بیٹھے ہیں۔

”سائے“ کیونکہ عقل کو ٹھکانے لگا چکے ہوتے ہیں اس لئے عام سی بات بھی فہم و عقل میں نہیں آپاتی کہ جو سائے کسی کو ”سلطنتِ سایہ دار“ کا سلطان بنا سکتے ہیں وہ اس پر سے اگر اترجائیں تو وہ واپس ایک عام سا انسان بن سکتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ اسی عروج و زوال سے بھری پڑی ہے۔ یہاں لیڈربنائے تو جاتے ہیں لیکن لیڈر بننے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا تی اور جو بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر ایسی راہوں پر چل نکلتا ہے کہ قوم اس کی گرویدہ ہونا شروع ہوجائے، وہیں اس کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں، اس کے سر سے اتر جایا جاتا ہے اور وہ یا تو ایک عام آدمی بن کر رہ جاتا ہے یا پھر اس کو دوسری دنیا کی سیر کرا دی جاتی ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جس سے جتنا زیادہ اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں ”فوق السائے“ کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اس کے ساتھ رویہ بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے یہاں تک کہ موت اس کا مقدر بنا دی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ایک جنگل میں دو شیر اور ایک سر پر دو سائے نہیں رکھے جا سکتے۔

قائد اعظمؒ کے بعد اگر پاکستان کے لئے پاکستان کا مخلص ترین اور مقبول ترین لیڈر کوئی بن سکتا تھا تو وہ قائد ملت لیاقت علی خان ہو سکتے تھے اس لئے ان کے لئے سزا بھی انتہائی تجویز کی گئی۔ اس کے بعد ان کی بہن فاطمہ جناحؒ ہو سکتی تھیں لیکن سایوں کی مرضی میں رضا کا پہلو کیسے آسکتا تھا۔ جنرل اعظم، مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے انسان تو وہ ہیں جن کو سائے پاکستان کے آسمانوں کی بلندی تک لے کر جانے کے بعد ایسے اترے کہ سلطنت سایہ دار کے اقتدار کا سارا نشہ بھی اتار کر خاک میں ملا دیا لیکن کچھ وہ انسان بھی ہیں جن کو مقامی سیاست کا تاجدار بھی رہنے نہیں دیا جن میں اکبر بگٹی اور ”لندن“ والا پیر بھی شامل ہے اس لئے کہ بعض اوقات کمزور ترین بھی اتنے طاقتور ہوجاتے ہیں کہ ان کے آگے نہ صرف ہتھیار پھینکنے پڑجاتے ہیں بلکہ گرفتاریاں بھی دینا پڑجاتی ہیں۔

جب مجھ جیسا کم علم و کم عقل ان تمام باتوں کو جانتا اور سمجھتا ہے تو یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی موجودہ قیادت ان تمام باتوں سے بے بہرہ ہوگی لیکن اقتدار کی شراب کا نشہ بوتل دیکھ کر انسان کو اتنا بد مست و بد حال بنا دیتا ہے کہ اسے پھر کرسی کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آرہا ہوتا۔

پاکستان ”لیڈرسازی“ کی ایسی فیکٹری میں تبدیل ہو چکا ہے کہ یہاں وہی اہل قرار پا سکتا ہے جس کو اس فیکٹری کے سانچوں میں ڈھالا گیا ہو۔ اگرکوئی اپنی اہلیت کی وجہ سے فیکٹری میں ڈھلے سانچوں کے لیڈرسے زیادہ عوام کو قابل قبول ہو بھی جائے تو اس کی شکل و صورت ”فوق السایوں“ کی تیزاب گردی اتنی مسخ کردیتی ہے کہ اسے پلاسٹک سرجری کے لئے بیرونی ممالک کا رخ کرنا پڑتا جاتا ہے۔

پاکستان میں ”سائے“ افراد کو قابو میں کرنے میں اس قدر طاق ہیں کہ شاید ہی دنیا میں اس کی مثال مل سکے۔ وہ کون ہے جس میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود نہیں ہوتی۔ وہ افراد جن کو شیطان نے حرام کی دولت اور کرتوتوں سے مالا مال کیا ہوتا ہے ان کے تو کہنے ہی کیا ہوتے ہیں۔ وہ سب کے سب تو اپنی شیطانیت کے عروج پر ہوتے ہیں۔ دولت کی لوٹ مار ہو یا عیاشیوں کے ساز و سامان۔ چوری چکاری، ڈاکا زنی ہو یا کسی کو معمولی معمولی باتوں پر قتل کردینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے۔

ہر بڑے اور امیر انسان کی کہانی ان سے بھری پڑی ہے۔ جس طرح وہ بیماریاں جن کو ہم ”سایہ“ قرار دیتے ہیں عموماً غلط عملیات یا گندی حرکتوں کی وجہ سے انسانوں پر سوار ہوتی ہیں اسی طرح ”فوق السایہ“ بھی ایسے کرتوتوں کو آئین و قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوانے کی بجائے ان کوان کی شکلوں اور کرتوتوں کا آئینہ دکھا کر اپنے قابو میں کر لیتے ہیں اور پھر ان کو مجبور کردیا جاتا ہے کہ جو جو وہ کہیں وہ وہ کرتے رہیں بصورت دیگر قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔ اس کی واضح مثال لوگوں کا مسلم لیگ کنونشن میں چلے جانا، فنکشنل بن جانا، ن میں ڈھل جانا، ق میں بدل جانا اور پھر ایسے سارے مارا ماری کرنے والے افراد کا ”انصاف“ کا حصہ بن جانا ہے۔ قانون کے تقاضے فقط ان لوگوں کا نصیب ہے جو ”فوق السایوں“ کی باتیں ماننے یا اسے اپنے سرپر سوار کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔

سخت سے سخت یا سنگین سے سنگین جرائم کرنے والے مجرموں کی پکڑے جانے کے بعد رہائی اور معمولی معمولی جرائم میں ملوث مجرموں کے سانسوں کو گھونٹ کر رکھ دینے والی ساری کہانیوں میں مرکزی کردار یہی نظر آئے گا۔ ایسے تمام رہا ہونے والے افراد یا توہونٹوں پر تالے لگائے پھرتے نظر آئیں گے یا پھر فیکٹری میں تیار کیے جانے والے برتنوں میں کھڑکتے دکھائی دیں گے۔ یہی دو اعمال ہیں جو ان کی سانسوں سے مشروط کر دیے جاتے ہیں۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر موجودہ حکمرانوں کے لئے یہی پیغام دیا جاسکتا ہے کہ لیڈر بنا دیے جانے اور بن جانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پانی کا اوپر سے نیچے کی جانب بہتے رہنا تو فطرت کی مجبوری ہے بات تو جب ہے وہ زور پیدا ہو جو اسے خود آسمان کی جانب لے جائے۔ بقول علامہ اقبالؒ

یہ آبِ جو کی روانی یہ ہمکناری خاک

مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظا رہ

اِدھر نہ دیکھ اُدھر دیکھ اے جوان عزیز

بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).