ایک ملٹی نیشنل کا واقعہ: سیاسی مماثلت محض اتفاق ہو گی


اندر سے تو وہ خود کو مار ہی چکا تھا۔ شیخ عمر سمیت کسی کے بھی لئے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ زندہ رہتے ہوئے اپنے ساتھی ملازمین کے حقوق پر ہائیر مینیجمنٹ کے دباؤ پر ڈاؤن سائزنگ (لوگوں کو بے روزگار کرنے ) یا تنخواہوں اور مراعات میں شدید کمی پر سمجھوتہ کر سکے۔ اس لئے شیخ عمر نے خود کو مار لیا تھا۔ یہ بہت ضروری تھا کیونکہ زندہ رہتے ہوئے وہ کبھی بھی اپنے سابقہ مالکوں کو اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دیے ہوئے 4 ارب روپے کے نقصان کا ازالہ انہیں اپنی موجودہ کمپنی سے 16 ارب روپے کے واجب الادا کریڈٹ کی معافی دے کر نہیں سکتا تھا۔ اگرچہ اس نے اپنی نئی کمپنی کے کل 125 ارب روپے کے واجب الادا کریڈٹ بین الاقوامی کمپنیوں کو معاف کیے تھے مگر اس نے اپنی کمپنی کے غریبوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ کیا زندہ ضمیر لوگ کبھی ایسا کر سکتے ہیں؟

یہ جسمانی موت تو ظاہر ہے ہرگز نہیں تھی مگر یہ ایک احساس تھا کہ اس کے اندر اب کوئی احساس نہیں ہے۔ شیخ نے سن رکھا تھا کہ جب کسی کے اندر کوئی احساس نہ ہو تو پھر اس کے اندر زندگی بھی نہیں ہوتی لہذا اس نے خود کو مردہ قرار دے کر اصل زندگی کو بہت آسانی سے دھوکہ دے لیا تھا۔

شروع میں جب وہ میٹنگ کے لئے جاتا تھا یا اپنے دفتر کے ساتھیوں کے درمیاں سے گزرتا جاتا تھا تو وہ مسکراتا ہوا گزرتا۔ عینک میں چھپی اس کی آنکھوں سے اگرچہ کوئی تاثر نہیں ملتا تھا مگر اس کی بھویں چھوٹے فریم سے ذرا اوپر سکڑتے، پھیلتے ہمیشہ ایک سا لاتعلقی کا پیغام ہی دیتی رہتیں۔ یقیناً کچھ ہی عرصہ میں وہ اپنے مخالفین اور اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دینے میں مکمل ماہر ہو چکا تھا۔ اگرچہ وہ کبھی بھی خود کو بے وقوف نہیں بنا سکتا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اندر سے وہ مر چکا یے اور یہ وہ واحد حقیقت تھی جو اسے اچھی طرح معلوم تھی۔

کچھ 6 مہینوں سے تو اس نے اپنے ساتھیوں کی استفہامیہ نظروں کو بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا جو اس سے وابستہ خیالی معجزات پر اندھا یقین رکھتے تھے۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ پوری تیاری مکمل ہے، جیسے ہی شیخ عمر اپنی پوزیشن کا چارج لے گا وہ فوری طور پر سب بگڑے معاملات کی ڈائریکشن سیدھی کر دے گا۔ اس کے دوستوں میں انسانی وسائل ڈیپارٹمنٹ کی بیگم فرہاد اسے یاد کرواتی رہتی تھی، ”شیخ۔ ہمیں اپنے ساتھیوں اور اپنی کمپنی کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ حقیقی کرنا یے۔ وہی جس کا ہم نے سب سے وعدہ کیا ہے“۔ مگر وہ ہمیشہ ہی اس کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتا تھا۔

کمپنی کے مارکیٹنگ سے منسلک بڑے سر اور بڑے پاؤں والا سیٹھ عتیق بھی جب اسے ملا کرتا تو کہتا، ”شیخ صاحب، کبھی ہمارے ساتھ بھی بیٹھیں، کچھ ہمیں بھی وقت دیجئیے۔ کچھ میٹنگ کرتے ہیں اور معاملات پر گفت و شنید کرتے ییں“۔ سیٹھ عتیق کی یہ بات سن کر شیخ عمر اس کی طرف دیکھتا، اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتا اور ہاتھ ہلا کر کچھ زیرلب کہتا جیسا کہ ”مجھے کمپنی کے لئے ضروری میٹنگ کے لئے فنانشل کنسورشیم سے بیل آؤٹ پیکیج ڈسکس کرنا ہے۔ یا بیرون ملک میٹنگ کی تیاری کرنی ہے“۔

اسی طرح سینکڑوں دوسرے ساتھیوں اور معیشت و توانائی کے ماہر ڈاکٹر فیاض سلیم بھی شیخ عمر کو کہتے رہتے کہ انہیں وقت دیا جائے۔ اپنی نا اہلیت کے ظاہر ہونے کے بارے میں ان سب میں سے شیخ عمر کو زیادہ خدشہ بھی اسی ڈاکٹر فیاض سلیم سے ہی تھا۔ شیخ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ کسی بھی معاملہ پر بورڈ میٹنگ میں اسے ڈاکٹر فیاض کے سوالوں کے جواب نہ دینے پڑیں اس لئے شیخ نے یقینی بنایا ہوا تھا کہ ڈاکٹر کبھی بھی بورڈ میٹنگ میں موجود نہ ہو۔ دوسری طرف ڈاکٹر فیاض سلیم بھی یہ جان چکا تھا کہ شیخ کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اور وہ بغیر کسی تیاری و علم کے اس پوزیشن پر صرف اس لئے مقرر ہوا یے کہ اس کے تعلقات کمپنی کے چئیرمین عرفان خان سے تھے۔

رفتہ رفتہ اس کے تمام ساتھیوں نے جب یہ محسوس کیا کہ شیخ عمر کے پاس ان کے ساتھ ڈسکس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے تو وہ بھی اس سے دور ہوتے گئے۔ پھر یوں ہوا کہ اتنی بڑی بلڈنگ میں، کمپنی کے کسی کام سے اگر اس کے ساتھی شیخ عمر کے سامنے کہیں آ بھی جاتے تو وہ ان کی طرف دیکھے بغیر اپنی بغل میں ایک مشہور کاروباری میگزین دبائے نکل جاتا۔ اس میگزین کو پڑھنے کے لئے بھی وہ تب ہی وقت نکالتا جب وہ کسی کیفے میں بیٹھا ہوتا۔ اس وقت بھی وہ اس میگزین کو پڑھا نہیں کرتا تھا بلکہ صرف اس کے صفحات ہی الٹ پلٹ کیا کرتا تھا۔ ایک مردہ شخص کو آخر پڑھنے سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی؟

اس کے دوستوں میں سے ایک قمر ترین نے کہا، ”وہ بہت ہنس مکھ ہوا کرتا تھا، کوئی بات بھی مکمل تجزیہ کیے بغیر نہیں کیا کرتا تھا۔ کمپنی چلانے میں اس کی مہارت مثالی سمجھی جاتی تھی“۔ انسانی وسائل ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اس کی دوست بیگم فرہاد نے کہا، ”وہ بہت اچھے دن ہوا کرتے تھے“۔

شیخ عمر اپنے ساتھیوں کے ساتھ صرف اسی وقت ہی رابطہ کرتا جب اسے اس کی اشد ضرورت ہوتی یا جب چئیرمین عرفان خان کے دیے کسی کام کو انجام دینے کے لئے اسے یہ رابطہ طوعاً و کرہاً کرنا پڑتا۔ اپنی کمپنی کی ہر میٹنگ میں وہ ہر مسئلہ پر چھایا رہتا کیونکہ کمپنی کے پاس اس کے علاوہ بیچنے کو کچھ اور تھا ہی نہیں۔ اسی ایک شیخ عمر کے بلند و بالا دعووں کی وجہ سے تو کمپنی کو یہ 5 سالہ پراجیکٹ مل سکا تھا۔ وہ کمپنی ڈائریکٹرز اور شئیر ہولڈرز میٹنگز میں پراجیکٹس بارے خبریں ڈسکس کرتا اور زیادہ تر خاموشی اختیار کر کے دوسروں کو بولنے کے مواقع فراہم کرتا۔

جب اسے کچھ بولنا ہوتا تو وہ کوشش کرتا کہ اگلی میٹنگز اور اگلے بیل آؤٹ پیکیجز بارے گفتگو کر کے اور پچھلے عہدے دار کو برابھلا کہہ کر اپنا کام چلائے۔ ان میٹنگز میں جو بھی فیصلے ہوتے وہ انہیں نوٹ کرتا جاتا اور بظاہر یہ عندیہ دیتا رہتا کہ جو بھی طے ہوا ہے وہ اسے جلد اور مقررہ ٹارگٹ مدت میں مکمل کر لے گا۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ سیدھا اپنے دفتر روانہ ہو جاتا مگر وہاں کبھی بھی کسی کو کچھ نہ بتاتا کہ میٹنگ میں کیا طے ہوا ہے اور اسے کب تک مکمل کرنا ہے۔ اس کے ساتھی اور اس کے ماتحت پوچھتے ہی رہ جاتے مگر وہ کبھی کسی کو اصل بات نہ بتاتا۔ اس نے کود کو سمجھا رکھا تھا کہ کیا مردے بھی کبھی کسی سے بات چیت کیا کرتے ہیں؟

بیگم فرہاد اسے یاد دلاتی کہ کچھ اہم کام کرنا ہے اور اسے کر ہی گزرنا چاہیے۔ شیخ عمر ہمیشہ ہی مضطرب ہوتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اضطراب کسی پچھتاوے کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ تو مردہ ہو چکا تھا۔ اس اضطراب کی وجہ صرف یہ ہوتی کہ کہیں ایسا کرنے یا نہ کرنے سے چئیرمین عرفان خاں ناراض تو نہیں ہوں گے۔ بیگم فرہاد نے شیخ عمر کو بتایا کہ ڈاکٹر فیاض سلیم نے کچھ ای میلز کی ہیں جن سے چئیرمین خان خوش نہیں ہیں۔ اس لئے اسے کمپنی سے نکالنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر بھی شیخ کی ٹیم کا حصہ ہے، اس لئے ڈاکٹر سے بات کرنے کا فرض بھی شیخ عمر کو انجام دینا ہے۔

شیخ عمر نے ڈاکٹر فیاض سلیم کو بلا کر کہا، ”کچھ حالیہ جانچ پڑتال کے بعد ثابت ہوا ہے کہ آپ کی کچھ statements کمپنی کو چلانے والی ٹیم کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں“۔

ڈاکٹر:۔ ”نہیں، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا جو غلط یو“۔

شیخ:۔ ”میں نے یہ نہیں کہا کہ غلط یا صحیح۔ بلکہ میں نے یہ کہا کہ وہ ٹیم کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہ غلط ہونے سے بھی بڑا جرم ہے“۔

ڈاکٹر:۔ ”مجھ سے غلطی ہو گئی۔ آئندہ احتیاط کروں گا“۔

شیخ:۔ (اپنی راہ کے بڑے پتھر کو ہٹانے پر آنے والی مسکراہٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے ) ، ”ہمیں آپ کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ہے“۔

ڈاکٹر:۔ (بے بسی سے بیگم فرہاد کی طرف دیکھتے ہوئے ) ، ”پلیز۔ میرے ساتھ یہ مت کریں“۔ مگر بیگم فرہاد اپنے چھوٹے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے، سر جھکائے بیٹھی رہی۔

ڈاکٹر:۔ ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا“۔

شیخ:۔ ”ہاں مجھے معلوم ہے، کیونکہ یہ سب کرنے کے لئے تم یہاں موجود نہیں ہو گے“۔

ڈاکٹر:۔ ”میں نے کہا کہ۔ ۔ ۔ ۔ “

شیخ:۔ ”میرے ساتھ بحث مت کیجئیے اور اپنا دفتر خالی کر دیں“۔

شیخ عمر نے ڈاکٹر کو شدید ذلت اور ہشیمانی کے احساس تلے اٹھتے دیکھا، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی اور اس کا چہرہ کانپ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ذلت کے احساس سے وہ دھڑام سے گر پڑے گا۔ شیخ عمر نے اچانک اپنے ہاتھ کو بلند کیا اور دفتر سے جاتے ہوئے ڈاکٹر فیاض سلیم کی طرف اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے خالی پستول بنائی۔ اپنے ہونٹوں کو سکیڑا اور ٹھاہ کی آواز نکالتے ہوئے فائر کر دیا۔ اسے یہ محسوس ہوا کہ اس خیالی پستول کی گولی ڈاکٹر فیاض سلیم کے سینے کے آر پار ہو گئی ہے اور وہ خون سے لت پت زمین پر گرا ہوا ہے۔ ڈاکٹر فیاض کی اس اذیت سے اسے اندرونی خوشی ملی جو اس کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر پھیل گئی۔ ابھی وہ ڈاکٹر پر دوسری گولی چلانے ہی والا تھا کہ بیگم فرہاد نے التجائیہ لہجہ میں کہا، ”نہیں شیخ نہیں۔ اس کے ساتھ اور کیا برا کرنا ہے“۔

شیخ عمر نے مسکرا کر بیگم فرہاد کی طرف دیکھا اور کہا، ”اسے یہاں سے نکال کر اب تم بھی میری طرح مردہ ہو گئی ہو“۔

نوٹ:۔ یہ واقعہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔ کسی اور جگہ، کردار، واقعہ اور شخصی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).