صحافی بنوں یا حاشیہ بردار؟


صحافت کیا ہے اور صحافی کا بنیادی کام کیا ہے؟ اس حوالے سے بہت سارے موضوعات پر مختلف عنوانات لکھے گئے ہیں۔ میں نے صحافت پڑھتے وقت یہ پڑھا ہے کہ صحافت معاشرے کی تیسری آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ صحافت نام ہے اطلاعات تک رسائی اور اطلاعات کو لوگوں تک پہنچانے کا اور اُن کے دل کی بات کو زبان پر لانے کا، صحافت نام ہے تبصرے کا، تجزیے کا نہیں۔ صحافت نہ تعریف کرنے کا نام ہے اور نہ کسی کو گالیاں دینے کا، نہ چمچہ گیری کرنے کا اور نہ بدتمیزی کا۔

صحافت نام ہے محنت اور مطالعے کا نہ کہ کام چوری اور جہا لت کا۔ صحافت نام ہے سچ کو تسلیم کرنے کا نہ کہ اَنا پرستی، ضد یا اپنی بات پر اَڑے رہنے کا۔ صحافت نہ کسی سے تعلقات کی بنا پر تعریفیں کرنے کا ہے نہ کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے کا۔ صحافت نام ہے کسر نفسی کا، تکبر اور غرور کا نہیں۔ صحافت نام ہے صحافت کا، سیاست کا نہیں، صحافت نام قربانی دینے کا، لینے کا نہیں۔ صحافت نام ہے بحث کا، ہٹ دھرمی کا نہیں۔ صحافت نام ہے دلیل دینے کا، فیصلہ کرنے کا نہیں۔ صحافی کا کام ہے خبر کو نچوڑنا یا احکام کو جھنجھوڑنا نہ کہ ہدف کو بھنبھوڑنا۔ سچ بولنا صحافی کا مذہب ہونا چائیے۔ غیر جانبداری اور عدم طرف داری صحافت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔

اس وقت میں اپنے اردگرد سے لے کر اپنے ذاتی نقطہ نظر سے یہ کہوں گا کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں صحافت بیروزگاری کے باعث کی جاتی ہے۔ جبکہ صحافت دیگر شعبوں کی طرح ایک شعبہ ہے مگر پاکستان میں اس شعبے سے فارغ التحصیل لوگ عام زندگی میں باقاعدہ صحافت کرنے سے اغماض کرتے ہیں۔ آج کل کسی محکمہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس شعبے سے منسلک رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس سے باقاعدہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحافت کا لیول کیا ہے اور حقیقی ابلاغ کے حوالے سے مزید کیا امید کی جا سکتی ہے ۔

باقاعدہ حکومتی پالیسی نہ ہونے کے باعث گزشتہ پانچ سالوں میں ایسے اناڑی صحافیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اور ان کے آنے کے بعد نا صرف شعبہ صحافت کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ صحافت کا مقصد الجھ کر رہ گیا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ کئی لوگوں کو مڈل تا میٹرک کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کا موقع میسر آیا ہے۔ جو صحافت کے لئے نقصان دہ ہو یا نہ ہو، ان کے لیے ذاتی طور پر سود مند ثابت ہوا ہے۔

یہ جان کر بھی حیرت ہوگی آج کل باقاعدہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے کو متعلقہ اخبار یا نجی الیکٹرونک چینل اتنا ماہانہ پے نہیں کرتا جتنا یہ اچانک صحافی ایک دن میں کماتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ صحافتی نجی ادارے اخبار، ریڈیو، الیکٹرونک چینلز سے ان کی ڈیمانڈ بالکل بھی نہیں ہوتی یہ جہاں سے کماتے ہیں، وہاں سے کماتے ہیں۔ اور ان اچانک صحافیوں کو آپ لوگوں نے کبھی تنخواہ کی بندش کے حوالے سے احتجاج کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا جس طرح باقاعدہ صحافی حضرات پانچ پانچ یا چھ چھ ماہ تنخواہ نہ ملنے کے باعث کرتے ہیں۔

اچانک صحافیوں کی منظم کمائی کا طریقہ جہاں تک مجھے پتا ہے اور دیکھا ہے، وٹس اپ پر عام خبر 100 روپے، فوٹو کے ساتھ 500 جبکہ اخبار میں خبر 500 یا اس سے زائد ہے نیز تعزیت، شادی کی تقریب، ایونٹ، سیاسی جلسے، سیاسی ملاقات وغیرہ کی قیمتیں مختلف ہیں جو ہزاروں میں ہوتیں ہیں۔ جبکہ بلیک میلنگ کے چارجز کا تاحال بتایا نہیں جا سکتا کیوں یہ معاملات اداروں کے بند کمرے، پولیس چوکیوں، سیاسی درباروں میں طے ہوتے ہیں۔ اور طے ہونے کے بعد اچھے ڈی ایس ال آر، موبائل، گاڑی یا پلاٹ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے شعور کو جگانے میں سب سے اہم کردارہی قلم کے قدر دانوں کا رہا ہے مگر بدقسمتی سے آج قلم کا استعمال ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ قلم کی حرمت کو داغدار کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بگاڑ کی اہم وجہ بھی ایسے ہی قلم کار ( اچانک صحافی) ہیں جو اپنے ضمیروں کا سودا کرتے ہیں اور خود کو نفع دینے کے عوض چوروں، ڈاکوؤں، لُٹیروں اوربدکار سیاست دانوں کو مسیحا بنا کر پیش کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں جس طرح کسی سرکاری محکمے میں چپراسی، مالی، خاکروب کی اسامی کے لئے شرط پڑھنا لکھنا جاننا نہیں ہوتا، اسی طرح آج کل اچانک صحافی بننے کے لئے صحافت سے منسلک ادارے کے لئے بطور صحافی کسی کو رکھنے کے لئے اتنی شرط رکھی جاتی ہے کہ علاقے کے نمائندے سے لے کر مال دار شخص تک سے سفارش کروائی جائے۔ کیونکہ ان صحافیوں کو فری آف کاسٹ رکھا جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا ٹکر کی حد تک، اخبار اشتہارات کی حد تک اور رسائل وٹزپ پر شیئرنگ کی حد تک۔ اور ان لوگوں کو بھی مستقل تنخواہ کا نہ تو پتا ہے نہ ہی ضرورت کیونکہ ان کا کام چینل کا لوگو، اور اخبار کے آئڈنٹی کارڈ سے شروع ہوتا ہے نہ کہ ادارے کی جانب سے ملنے والی تنخواہ سے۔

مزید گفتگو جاری رکھنا ممکن ہے میرے لئے فائدہ مند نہ ہو بس مختصر یہ کہ میں شعبہ صحافت کا طالب علم ہوں۔ اس حوالے سے میں مشورہ تو نہیں دے سکتا کہ صحافت کے شعبے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اقدامات ہونے چاہیے، صحافی کا متعلقہ شعبے میں بیچلر یا ماسٹر لازمی قرار دینا چاہیے وغیرہ۔ بس اپنے لئے مشورہ درکار ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر صحافی بنوں یا حاشیہ بردار؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).