پنجاب کی خاموشی اور پشتون تحفظ موومنٹ


”جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا“ پنجاب کے ایک مشہور شاعر حبیب جالب کی مشہور نظم کا عنوان تھا جو نظم انہوں نے غالبا سقوط ڈھاکہ کے وقت کہی۔ سقوط ڈھاکہ جسے اس وقت بھی اتنا ہی پراسرار رکھا گیا جب یہ سانحہ ہونے کو تھا جتنا آج اسے پراسرار رکھا جارہا ہے ورنہ اس سانحہ سے سیکھنے کو تو بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا۔ محرکات کیا تھے؟ دوریوں کی وجوہات کیا تھیں؟ نفرتوں کے بیچ کیوں دیکھتے ہی دیکھتے قدآور درخت بنے؟ اور اس بھیانک سانحہ کا موجب کیسے بنے؟

بنگال کو تو یہ کہہ کر خاک میں ملا دیا گیا کہ بیچ میں فاصلے تھے ایک سمندر اور اوپر سے بیچ میں دشمن اوّل ہندوستان لیکن یہ بلوچستان اور پشتون خواہ سے کیسی آوازیں بلند ہو رہی ہیں؟ نا تو بیچ میں سمندر ہے اور نا ہی ازلی دشمن ہندوستان۔ آخر بلوچ اور پشتون چاہتے کیا ہیں؟ آدھے بلوچ تو خیر سے ”ریڈ لائن“ بھی عبور کر چکے ہیں لیکن جو آدھے ابھی ریڈ لائن کے اس طرف ہیں کیا انہیں سنا گیا ہے؟ کیا ان کی باتوں کو سنجیدگی سے پرکھا گیا ہے؟ یا انہیں بھی ریڈ لائن پار کرنے کی ہر ممکن کوشش کو یوں ہی جاری و ساری رکھا جائے گا؟

پشتون تحفظ موومنٹ جو ایک پشتون نوجوانوں کی تحریک ہے پچھلے ایک سال سے کچھ آئینی مطالبات لے کر بار بار ریاست کے سامنے رکھ رہی ہے اور مطالبات بھی وہ جنہیں ناصرف پاکستان آرمی کے ترجمان نے جائز کہا بلکہ وزیراعظم اور آرمی چیف تک ان مطالبات کی تکمیل کے وعدے بھی کیے گئے۔ لیکن ایک سال سے ان وعدوں کی تکمیل تو در کنار حالت یہ ہے کہ اس تحریک سے جڑے کئی نوجوانوں پر ناصرف ایف آئی آرز کاٹی گئیں بلکہ کئی نوجوان آج بھی جیل میں ہیں اور ایک رہنما ارمان لونی قتل بھی کیے جا چکے ہیں۔ یہ نوجوان ہیں کون؟ ان نوجوانوں میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جوان ہوئے ہیں انہوں نے اپنے پیاروں کو اس جنگ کا ایندھن بنتے دیکھا، اپنے گھر، مارکیٹ، شہروں کو اجڑتے دیکھا جن میں اکثریت نے آئی ڈی پیز کیمپ میں شب و روز گزارے ہیں جن میں اکثریت اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ نوجوان چاہتے کیا ہیں؟ ان کے مطالبات کیا ہیں؟

1۔ ماورائے عدالت 440 انسانوں کے قاتل راؤ انور کو سزا دی جائے۔

2۔ وہ تمام پشتون جنہیں ماورائے عدالت اٹھایا گیا ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے جو قصور وار ہیں انہیں سزا دی جائے اور جو بے قصور ہیں انہیں بری کیا جائے۔

3۔ فاٹا میں جہاں جہاں لینڈ مائنز بچھائے گئے ہیں انہیں ہٹایا جائے کیونکہ ان لینڈ مائنز کے پھٹنے سے سینکڑوں بچے معذور ہوئے ہیں

4۔ سیکورٹی کے نام پر چیک پوسٹوں پر انسانی تذلیل بند کی جائے

‏ 5۔ ”Truth and Reconciliation“ کمیشن کا قیام عمل میں لاکر 17 سالہ طویل جنگ کا احتساب کیا جائے اور ہمیں بتایا جائے کہ اس جنگ میں ہمیں ٹارگٹ کیوں بنایا گیا؟

ان مطالبات میں ایک بھی ایسا مطالبہ شامل نہیں جو آئین پاکستان سے متصادم ہو، بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو یا اسلامی نظریات سے متصادم ہو پھر پشتون تحفظ موومنٹ پراسرار سنسرشپ کا شکار کیوں؟ غداری کے فتوی کیوں؟

وہ لوگ جن کے گھر اجڑے، شہر اجڑے، پیارے بچھڑے کیا انہوں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے پیاروں کے بارے میں پوچھ سکیں؟ عزت نفس کا مطالبہ کر سکیں؟ اپنے پیاروں سے مل سکیں؟

جب کسی ریاست میں ریاستی باشندوں پر آئینی حقوق کا راستہ بند کیا جائے انہیں بند گلیوں کی طرف دھکیلا جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ بقول آئن سٹائن ”انسان ایک ہی طرز پر ایک ہی تجربے کو چاہیے کتنی بار بھی دہرا لے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ خاکم بدہن، کیا پنجاب پھر اس طرز پر نتیجہ دیکھنے کا متمنی ہے؟ اگر نہیں تو پشتون تحفظ موومنٹ کی آواز میں آواز ملانا انہیں اپنائیت کا احساس دلانا پنجاب کے باسیوں کے لیے ناصرف ضروری ہے بلکے فرض ہے۔ لاتعلقی فاصلوں کو تو جنم دے سکتی ہے، قربت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ افسوس کہ اب جالب صاحب بھی نہیں رہے جو لاہور کی گلیوں میں مست ہو کر نعرہ لگائے

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).