محمود شام: کوئی ایسا بھگت سدائے


محمود شام کون ہیں؟ ایک خبر سنتے ہی یہ نام دس برس پہلے میرے لاشعور میں بیٹھ گیا اور میں شام صاحب کی تصویردیکھ کر دل بہلانے لگا۔ کیا کرتا تصویر ہی ایسی تھی جو خبر پڑھی تھی، وہ بھی تحیر میں ڈال دینے والی تھی۔ خبر تھی ”محمود شام نے صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ “ اس زمانے میں کم عمر تھا مگر دیکھ اور محسوس ضرور کر سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے، اس خبر میں آپ کے لیے حیرت کا کوئی جہاں نہ ہو مگر اُس زمانے میں میرے لیے یہ خبر حیرت ناک تھی۔

میں شام صاحب سے ملنے کو مضطرب رہنے لگا۔ 2011 جون میں جب میں نے بچوں کے لیے ایک رسالہ بچوں کا گلستان کا اجرا اپنے دوست حافظ حمزہ شہزاد کی ادارت میں کیا تو پاکستان بھر کے بچوں کے ادبا و مدیران سے رابطے کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ محمود شام صاحب کے متعلق خبریں ملنے لگیں۔ 2014 میں جب میں نے بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ تعمیر ادب میں شمولیت اختیار کی تو دبستان کراچی کی جن بہت سی خبروں کو ایڈٹ کرنے کا اتفاق ہوا، اُن میں شام صاحب کا اکثر تذکرہ ہوتا تھا۔

 ’شام صاحب‘ نام ہی ایسا محبت بھرا تھا کہ اکثر پردہ لاشعور میں اُن کا لکھا کچھ بھی پڑھتے ہوئے جگمگاتا رہتا تھا۔ 2015 میں جب مَیں اپنی پہلی کتاب مٹی کا قرض پر کام کر رہا تھا تو حسرت جاگی کہ اس کا مقدمہ محمود شام صاحب لکھیں گے۔ مگر وقت ایسا کڑا آیا کہ نہ شام صاحب سے رابطہ ہوسکا اور نہ ہی کسی توسل سے اُن تک مسودہ پہنچ سکا۔ سردست ڈاکٹر ستیہ پال آنند، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر سعادت سعید اور احمد اقبال ایسے اصحاب جو ملے تو لکھوا کر مسودہ پریس میں بجھوا دیا۔

کتاب چھپتے ہی شناخت کا بحران مٹنے لگا۔ سماجی رابطہ کار فیس بک نے نرالے دوست عطا کیے۔ ان دوستوں میں ایک محمود شام صاحب تھے۔ واضح رہے کہ میرا اُن سے دوستی کا کوئی دعویٰ نہیں، ’دوست‘ کی ترکیب تو ’فیس بک‘ سے مستعار لی ہے۔ اکتوبر میں کتاب کا پہلا نسخہ ملا تو فوری طور پر شام صاحب سے پتا لے کر انہیں اس فرمائش کے ساتھ بجھوا دیا کہ ’اک تصویر ضروری ہے‘ وہ تصویر کیوں ضروری ہے، اس بارے میں خود سوالیہ نشان ہوں۔ بارہا دیکھتے ہوے یہی احساس ہوتا ہے کہ اس مجسمے کو خداوند نے کس طور گوندھ کر انسانی قالب میں ڈھالا۔

حسن و شفقت کی ترکیب کا تذکرہ مکالمے و مناظرے سے پیشتر ناگزیر ہے۔ بہر طور دن ڈھلنے لگے، سیاہ اندھیرے صبح کی روشنی کا نوالہ بننے لگے، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے بی ایس آنرز اردو میں مجھے داخلہ دے دیا اور میں فیصل آباد چلا گیا۔ ایک روز اساتذی ڈاکٹر طارق ہاشمی صاحب نے مجھے بلایا اور کہا :۔ ”کھول کر دیکھنا ذرا، شام صاحب نے کچھ بجھوایا ہے تمہیں۔ “ دل دھڑکنے لگا، سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں کہ اللہ جانے شام صاحب نے تصویر بھیجی یا نہیں۔

لفافہ کھولتے ہی اندر سے ’اطراف‘ نکل آیا مگر تصویر کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اچھا، بھول گئے ہوں گے، میں نے اُس سمے خود کلامی کی، اور پرچہ تھامے ڈاکٹر صاحب کے دفتر سے نکل آیا۔ وقت بیتنے لگا، ایک روز خبر ملی کہ یونیورسٹی میں دو روزہ ادبی میلہ منعقد ہورہا ہے، اور شام صاحب کی بھی آمد ہے، یہ سنتے ہی پھولے نہ سمایا۔ مقررہ تاریخ کے انتظار میں پہلو بدلنے لگا۔ وہ دن روز روشن کی طرح عیاں تھا جب شام صاحب کو میں ایک سٹیج پر بیٹھا بفسِ نفیس دیکھ رہا تھا۔

شام صاحب کے بیٹھنے کا انداز میری آنکھوں کو خیرہ کیے ہوے تھا۔ وہ دیگر مہمانوں کی طرح سینہ چوڑا چکلا کرکے بطرز اکڑ فوں نہیں دکھتے تھے، ان کے ہاتھ میں قلم تھا، اپنے گھٹنے پر کاغذ رکھ کر اس پر کچھ تحریر کر رہے تھے۔ ظاہر ہے وہاں بھی اپنی صحافتی ذمہ داری نبھا رہے ہوں گے، اہم نکات قلم بند کر رہے ہوں گے۔ تقریب ختم ہو گئی۔ شام صاحب کو میزبان پچھلے دروازے سے لیے چلے، ایک مخصوص گاڑی آئی اور وہ میری نظر سے اوجھل ہوگیے، میں بھی ملاقات نہ ہونے کا رنج اٹھائے کف افسوس ملتا ہوا نکلا اور شام و سحر میں ڈوبنے ابھرنے لگا۔

2018 میں میری نظر سے بچوں کے معروف کہانی کار، جرنلسٹ و ڈراما نگار جناب ابن آس محمد کی زیر تحریر گردش کرتی آپ بیتی کا ایک ٹکڑا گزرا۔ ابن آس محمد نے لکھا، گردش دوراں میں جب وہ مزدوری کرتے تھے، وقت ملتے ہی لکھا کرتے تھے، انہی دنوں شام صاحب نے انہیں ایک خط لکھا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ابن آس محمد! محمود شام آپ سے ملنا چاہتے ہیں، کسی وقت تشریف لائیے۔ وہ شام صاحب کو ملنے ایک دن دفتر چلے گیے۔

یہ کوئی پہلا موقع تھا۔ جب کوئی مزدور ہاتھ پیر منہ پر مٹی میں اٹا ٹوٹ بٹوٹ کے دفتر داخل ہوا، یاد رہے ٹوٹ بٹوٹ بچوں کے ادب کا وہ معیاری پرچہ تھا جسے محمود شام نے جاری کیا تھا۔ استقبالیہ پر ایک مزدور کو دیکھ کر خاتون کو کراہت محسوس ہونے لگی۔ مگر جلد ہی اس مکالمے پر بس ہوئی۔ ”شام صاحب نے بلایا ہے، انہیں اطلاع دیجیے، میری آمد کی۔ “ وہ ذاتی معاون حیراں و پریشاں گئی اور آن کی آن میں واپس ہوئی۔ اجازت ملتے ہی وہ شام صاحب کے کمرے میں داخل ہوگیے، شام صاحب نے چونک کر کہا ”تو ابن آس محمد آپ ہیں؟

”جی“۔ ”تو کہانیاں آپ لکھتے ہیں؟ “۔ جی ”۔ کچھ لمحے سکوت میں گزرے شام صاحب پھر گویا ہوے :“ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ ”مزدور ہوں، مزدوری کرتا ہوں اور اس وقت وہیں سے لوٹ رہا ہوں۔ “ شام صاحب کی حیرت بڑھ گئی، پوچھا:۔ ”اگر آپ کو کہانی لکھنے کا کہا جاے، کیا آپ میرے سامنے بیٹھ کر لکھ سکتے ہیں؟ “ الغرض شام صاحب نے ایک سطر لکھی اور ابن آس کو امتحان میں ڈال دیا۔ مگر ایک صفحہ لکھواتے ہی شام صاحب نے وہ لیا اور کہا:۔

 ”مزدوری میں دن بھر کیا ملتا ہے؟ “ بولے۔ ”پندرہ روپے۔ “ شام صاحب نے کہا :۔ ”اگر وہ پندرہ روپے ہم دیں اور اس دفتر میں کرسی میز دستیاب کریں توکیا آپ اس رسالے کو بطور ایڈیٹر سنبھالیں گے۔ “ ابن آس محمد کو گویا گوشہ عافیت ملنے کی نوید مل رہی تھی۔ جہاں وہ سکون سے بیٹھ کر اپنا تخلیقی کام جاری رکھ سکتے تھے۔ ادارتی امور کے فرائض نبھا سکتے تھے۔ انہوں نے ذرا بھی تامل نہ کیا اور ٹوٹ بٹوٹ کو سنبھال لیا۔ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد میرے دل میں شام صاحب کی عزت مزید بڑھنے لگی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2