تدریسی زندگی کے چالیس برس مکمل ہونے پر


قبلہ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کہا تھا کہ آدمی اگر ایک دفعہ پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی کہلاتا ہے خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔ اس قول سدید کے بعد پروفیسری کے چالیس برس مکمل ہونے پر کسی قسم کا فخر کرنا تو بنتا نہیں۔ رہ گئی سمجھ داری کی بات تو وہ نہ ہم نے پروفیسر بننے سے پہلے کبھی کی اور نہ بعد میں۔

7 فروری 1979 کو پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے جس سفر کا آغاز کیا تھا آج اس پر چالیس برس بیت چکے ہیں۔ اس میں تفاخر کی تو کئی بات نہیں البتہ خود پر حیرت ضرور ہوتی ہے کہ اتنا طویل سفر کس طرح طے کر لیا۔ خاندان میں ملازمت کی کوئی ایسی روایت نہیں تھی۔ دادا جان کہا کرتے تھے کہ انھوں نے تیس برس ملازمت کی لیکن کبھی مستقل ملازمت نہیں کی تھی۔ اس کی وجہ بتاتے تھے کہ مستقل ملازمت سے انسان بزدل ہو جاتا ہے۔ اپنا معاملہ یہ تھا کہ جہاں افسر سے جھگڑا ہوا، استعفا دیا اور گھر کو روانہ ہو گئے۔ نانا جان بھی ایک افسر کے بدتمیزی کرنے پر اسے پھینٹی لگا کر، استعفا دے کر، آ گئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد پچاس کی دہائی میں حکومت نے میڈیکل ڈاکٹروں پر کچھ برس سرکاری ملازمت کرنے کی پابندی عائد کر دی تھی۔ ماموں جان نے بس اتنے برس ہی نوکری کی۔ جس دن وہ مدت پوری ہوئی، استعفا دے دیا۔ ڈویژنل میڈیکل افسر نے ملازمت جاری رکھنے کی بہت ترغیب دی لیکن ماموں جان نے انکار کر دیا۔ اس نے پوچھا تمھیں یقین ہے کہ تمھاری پرائیویٹ پریکٹس کامیاب ہو جائے گی۔ جواب دیا بالکل نہیں۔ اس نے پوچھا پھر استعفا کیوں دے رہے ہو۔ ماموں جان نے جواب دیا مجھے ایک بات کا یقین ہے کہ میرا باس کوئی نہیں ہو گا۔ اس اعتبار سے میں اپنے خاندان کا پہلا فرد ہوں جو مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوا اور پنشن کا حق دار ٹھہرا۔

خیر یہ باتیں تو رہیں ایک طرف، سچ یہ ہے کہ اس ملازمت سے ذاتی طور پر مجھے بہت فائدہ ہوا لیکن یہ امر مشکوک ہے کہ میرے شاگردوں کو کچھ فائدہ پہنچا یا نہیں۔ فلسفہ ایسا مضمون ہے جس کی تحصیل کے لیے کوئی اپنی مرضی سے کم ہی آتا ہے۔ میں کلاس میں اکثر الف نون ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ سنایا کرتا تھا۔ الن بیمار ہوتا ہے۔ ننھا کہتا ہے چلو ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں۔ الن جواب دیتا ہے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ننھا کہتا ہے ڈاکٹر کو تو فائدہ ہو گا۔ میں بھی سٹوڈنٹس کو یہی کہا کرتا تھا کہ آپ کے آنے سے ہماری دکان چلتی رہتی ہے۔

کالج سے فراغت کے بعد پبلک سروس کمشن کے ذریعے لیکچرر منتخب ہوا اور میری پوسٹنگ رحیم یار خان کے خواجہ فرید کالج میں ہوئی۔ سرکاری نوکری میں کنفرمیشن کے لیے میڈیکل رپورٹ اور پولیس رپورٹ درکار ہوتی ہیں۔ پولیس رپورٹ میں کالج یونین کی سرگرمیوں کی بنا پر مجھے سرکاری نوکری کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کو درست تو کروایا جا سکتا تھا لیکن میں نے اسے بنیاد بنا کر گھر والوں کو اس بات پر قائل کر لیا کہ اس وقت میرا نوکری سے استعفا دے دینا بہتر ہو گا۔ چناں چہ میں دسمبر میں استعفا دے کر لاہور واپس آ گیا۔ دو سال آوارگی میں بسر کیے۔

سنہ 1978 میں جب پورا خاندان لاہور منتقل ہو گیا تو اب ایک بار پھر نوکری کی تلاش شروع ہوئی۔ انھی دنوں پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر کی ایک اسامی کا اشتہار آیا تو میں نے بھی درخواست جمع کرا دی۔ دسمبر کے مہینے میں انٹرویو ہوا، سولہ سترہ امیدوار تھے۔ بہر حال اس میں میری سلیکشن ہو گئی۔

پنجاب یونیورسٹی کی ملازمت سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کے لاحقے کا بھی اضافہ ہو گیا۔ اگر کالج میں ہی رہتا تو شاید یہ ممکن نہ ہوتا۔ ڈاکٹریٹ سے میرے علم میں کچھ اضافہ ہوا یا نہیں، اس باب میں دو آرا ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ضرور ہوا کہ میں اس کی وجہ سے پروفیسر کے منصب تک پہنچ گیا اور وہ جو کہتے ہیں اعلیٰ عہدے سے باعزت ریٹائر ہوا۔

لیکن دوسرا فائدہ جو ہوا اس کے لیے میں تاحیات شعبہ فلسفہ اور یونیورسٹی کا احسان مند رہوں گا۔ وہ فائدہ علمی فائدہ ہے یعنی مجھے کارل پوپر جیسے فلسفی سے متعارف ہونے اور اس کی تصنیفات کے مطالعے کا موقع میسر آیا جو شاید کالج میں کبھی ممکن نہ ہوتا۔

جب میں نے پڑھانا شروع کیا تو اس وقت بھی پنجاب یونیورسٹی میں سیمیسٹر سسٹم رائج تھا۔ اساتذہ کی تعداد کم تھی۔ چنانچہ آغآز ہی میں تین کورسز پڑھانے کو مل گئے جن میں ایک کورس جدلی مادیت پر تھا۔ لائبریری میں جا کر اس پر ریڈنگ میٹیرل کی تلاش شروع کی۔ میرے پاس زمانہ طالب علمی کی روس کی چھپی ہوئی ایک دو کتابیں تھیں، لیکن ان سے تشفی نہ ہوتی تھی۔ بس یہ اتفاق تھا کہ مجھے کارل پوپر کی کتاب The Open Society and Its Enemies  نظر آ گئی۔ اس حادثاتی تعارف نے میری آئندہ فکری زندگی کا رخ متعین کر دیا۔ ان دنوں جو برطانوی تحلیلی فلسفے یہاں پڑھایا جا رہا تھا، مجھے اس سے بہت وحشت ہوتی تھی۔ وہ فلسفہ فکری طور پر بانجھ دکھائی دیتا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وجودیت کے فلسفے، بالخصوص ژاں پال سارتر کے لیکچر ‘وجودیت اور انسان دوستی’ نے بہت متاثر کیا تھا لیکن وہ تاثر عارضی ہی ثابت ہوا۔ میں پیدائشی عقلیت پسند ہوں اور پوپر کے فلسفے میں میری اس احتیاج کو تسکین مل گئی۔

ملازمت کے آغاز پر میری زیادہ دلچسپی مسلم فلسفے کے ساتھ تھی، جس کی کئی برس تک تدریس بھی کی۔ ہمدم دیرینہ جاوید احمد غامدی صاحب کے ایما پر شاہ اسماعیل شہید کی تصنیف ‘عبقات’ کو ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع بنایا۔ لیکن جیسے جیسے میں پوپر کو پڑھتا گیا میری سوچ کا رخ اور دلچسپیوں کا محور بدلتا چلا گیا۔ تصوف سے منفی سی دل چسپی تھی لیکن اس کو پڑھنا یہ سوچ کر ترک کر دیا کہ کسی فکر کے مطالعے پر محض اس کو رد کرنے کی غرض سے وقت صرف کرنا کوئی معقول بات نہیں۔

پوپر کی کتابوں سے مجھے کچھ اور لوگوں کا بھی سراغ ملا جو بلاشبہ بیسویں صدی کے اپنے اپنے شعبہ ہائے علم میں بہت سربرآوردہ اور عالی دماغ لوگ تھے، ان میں بعض اپنے اپنے شعبہ میں نوبل انعام یافتہ تھے، مثلا ایف اے ہائک (Friedrich August von Hayek)، سر جان ایکلز (Sir John Eccles)، کونراڈ لورینٹز (Konrad Lorenz)، پیٹر میڈ اور ان کے علاوہ آرٹ کے مشہور مورخ اور نقاد ارنسٹ گومبرخ (Ernst H. Gombrich)۔ میں خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے ان کی تصنیفات کے مطالعے کا موقع میسر آیا اور ان سب سے مقدور بھر فیض یاب ہوا۔ اس کے علاوہ پوپر کے تقریباً سبھی شاگردوں کی تصنیفات کا مطالعہ کیا۔ پوپر کے شاگرد ولیم بارٹلی کا کہنا ہے کہ اگر پوپر درست ہے تو پھر بہت سے فلسفی اور دانش ور اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ بارٹلی کی رائے میں شاید کچھ انتہا پسندی نظر آئے لیکن میرا تجربہ یہی ہے کہ پوپر کے بعد کوئی اور فلسفی نگاہ میں جچا نہیں۔

جب میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا تھا تو اختتام تک پہنچتے پہنچتے مجھے اندازہ ہوا کہ سوال بالکل منطقی نوعیت اختیار کر چکا ہے اور میں منطق سے بالکل ہی نابلد تھا۔ خیر مقالہ تو جیسے تیسے مکمل کرکے جمع کروا دیا اور اس کے بعد کبھی واپس مڑ کر نہیں دیکھا لیکن اس وقت میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب مجھے منطق کا مطالعہ کرنا ہے۔ سن 1988 کی گرمیاں میں نے اس کام میں صرف کیں اور اگلے برس سے منطق پڑھانا شروع کر دی۔ اس کے بعد یہ کمبل ایسا چمٹا کہ اگلے بیس بائیس برس میں اس سے جان نہ چھڑا سکا۔

اردو کے عظیم مزاح نگار شفیق الرحمان نے کسی استاد کے متعلق لکھا تھا کہ اس نے کسی نئی جگہ نوکری کی درخواست دائر کی اور ساتھ بیس سالہ تجربہ کا حوالہ دیا، لیکن درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ یہ ایک سالہ تجربہ ہے جسے بیس بار دہرایا گیا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری صورت میں یہ تجربہ شاید چالیس بار دہرایا گیا ہے۔ چہل سال عمر عزیزم گزشت۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).