کشمیر سے محبت اور باکسنگ رنگ کا یونس خان


کشمیر پر بھارتی مظالم کا آغاز تقسیم ہند سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ بھارت نے کشمیر میں ظلم کی ایسی داستانیں رقم کیں جن پر شاید انسانیت تو کیا ابلیس بھی شرما جائے۔ یوں تو دنیا کے منصف ہر فورم پر امن امن کی رٹ لگائے رکھتے ہیں لیکن کشمیر کی وادیوں میں بہتا خون نہ تو اقوام متحدہ کو نظر آتا ہے نہ ان سپر پاورز کو جو طالبان سے مذاکرات کے لئے بلکہ اپنی جان چھڑوانے کے لئے پاکستان کی منتیں کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اپنی جگہ لیکن یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ شاہ محمود قریشی نے سفارتی محاذ پر کشمیر کا مقدمہ پچھلی حکومتوں سے بہتر طریقے سے لڑا اور لڑ رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 5 فروری کو بھارتی جارحیت کے خلاف اور کشمیر کے معصوم لوگوں سے یکجہتی کے لئے یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1990 میں اس وقت کے امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد نے پہلی دفعہ یہ مطالبہ کیا کہ کشمیریوں سے تجدیدِ عہد کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے۔ میاں نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جبکہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم تھیں۔ قاضی حسین احمد کے مطالبے کو وفاق سمیت تمام صوبوں نے تسلیم کیا اور 1990 میں پہلی بار کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر دن منایا گیا۔

اس بار بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے 5 فروری کو سرکاری سطح پر منایا گیا۔ ملک بھر میں ریلیوں، احتجاجی مظاہروں اور کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا جن میں سیاسی و سماجی تنظیموں کے لوگوں سمیت عام شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ تاریخ میں پہلی بار افغانسان میں بھی یہ دن منایا گیا جو کشمیر کے عوام کی اخلاقی کامیابی ہے۔

دن بھر منعقد کی جانے والی تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر فرد نے اپنے طور پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی۔ کہیں تقریری مقابلے ہوئے تو کہیں احتجاجی مظاہرے، کہیں ڈراموں کا سہارا لے کر کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تو کہیں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے کانفرنسز ہوئیں۔ اس حوالے سے ایک تقریب کچھ منفرد لگی۔ کراچی کے علاقے گلشن حدید میں نوجوانوں کی ایک تنظیم ایم یوتھ ڈیولپمنٹ فورم نے میرے لہو میں شامل ہے کشمیر کے عنوان سے مہم چلائی۔

اس مہم کے تحت تنظیم کے نوجوانوں نے خون کے عطیات دیے۔ خون کے عطیات جس بلڈ بینک کو دیے گئے تنظیم نے ان سے معاہدہ کیا کے ضرورت مند افراد کو یہ خون دیتے وقت ان سے کراس میچنگ وغیرہ کی فیس بھی نہیں لیں گے۔ یاد رہے یہ کراچی کا وہی علاقہ ہے جہاں فخر پاکستان سابق ٹیسٹ کرکٹ محمد یونس خان نے اپنا بچپن گزارا اور ا س علاقے کے میدانوں میں کھیل کھیل کر اس مقام پر پہنچ گئے کہ آج دنیا بھر میں وہ پاکستان کی شناخت ہیں۔

اس بلڈ کیمپ میں پہنچ کر دیکھا تو ایک نوجوان خون دے رہا ہے۔ نوجوان نے سفید لباس ہر سبز کوٹ پہنا تھا ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ ملک کا کوئی قومی کھلاڑی ہے پھر گمان ہوا کہ نہ رپورٹرز کا رش، نہ پروٹوکول یہ کیسا قومی کھلاڑی ہے جو خون دینے آیا ہے اور کوئی شور شرابہ نہیں ظاہری صورت حال سے اندازہ ہوا کہ نوجوان شاید قومی سطح پر کھیلنے کا خواہش مند ہے۔ خون کا عطیہ دینے کے بعد نوجوان اپنی خستہ حال موٹر سائیکل کی جانب بڑھا تو وہاں موجود کچھ بچوں نے اس کے ساتھ سیلفی لی مجھے بھی تجسس ہوا کہ آخر یہ ہے کون؟

قریب جاکر میں نے سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا جواب میں سینے پر پاکستان کا پرچم سجائے اس نوجوان نے کہا کہ میں بلال خان ہوں۔ بلال خان۔ شاید میں آپ کو جانتا ہوں میں نے اس سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ایسا کہا۔ ہاں شاید جانتے ہوں گے! کاش حکومت بھی مجھے جان لے۔ نوجوان کے اس جواب نے مجھے اس سے بات کرنے پر مجبور کردیا۔ صحافتی حالات کے باعث میں بلال خان کو صرف چائے کی ہی آفر کر سکا۔

چائے پیتے ہوئے بلال خان نے بتایا کہ وہ 2017 میں پاکستان فیڈریشن باکسنگ فیڈریشن لائٹ ویٹ کا چیمپیئن بنا، 2018 میں بلال خان باکسنگ فیڈریشن سپر ٹائٹل جیت چکا ہے، 2018 میں ہی اس فخر پاکستان نے ویلٹر ویٹ چیمپیئن شپ جیتی، جبکہ 2013 سے اب تک بلال خان پاکستان کے وشو چیمپیئن بھی ہیں۔ 2018 میں ہی بلال خان نے کک باکسنگ جیت کر پاکستان کک باکسنگ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ میں یہ سب باتیں سن کر حیرت میں گم تھا کہ بلال خان نے بھری ہوئی آواز سے کہا کہ میں 2017 میں ایشین چیمپیئن بھی رہا ہوں اور 2018 میں افغٖانستان میں بھی پاکستان کا پرچم بلند کر کے آیا ہوں۔

پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے یہ نوجوان اپنے گھر کی چیزیں فروخت کرتا ہے اور کچھ پیسے محنت کرکے کما تا ہے۔ اگر مستقل ملازمت کرے تو کھیل کی پریکٹس کرنا ممکن نہیں رہتا۔ بلال خان نے بتایا کہ وہ خوش ہے کہ ملیر ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین سلمان عبداللہ مراد اور ممبر میر عباس تالپور اور راؤ صفدر حیات نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں سرکاری خرچ پر تاجکستان میں فائٹ لڑنے بھیجیں گے جبکہ وزیر کھیل سندھ نے بھی ان سے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان کا نام روشن کرنے میں سندھ حکومت ان کی مدد کرے گی۔

گلشن حدید کا بلال خان پاکستان کے لئے ایک اور یونس خان بن سکتا ہے۔ سندھ حکومت اور بالخصوص وفاقی حکومت اگر پاکستان کے اس بیٹے کی سرپرستی کریں تو جس طرح یونس خان نے دنیا بھر میں کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کیا بلال خان باکسنگ میں پاکستان کا پرچم بلند کر سکتا ہے۔ بھارت، روس، چین اور کئی ممالک کے باکسرز کو بلال خان کا انتظار ہے اور بلال خان کو حکومت کا انتظار ہے۔ سندھ حکومت نے جس طرح بلال خان کی سرپرستی کا وعدہ کیا ہے مجھے پوری امید ہے کہ بلال خان آگے بڑھے گا۔ بلال خان اور اس جیسے ناجانے کتنے کھلاڑیوں کو وفاقی حکومت کی توجہ کا انتظار ہے امید ہے وفاقی حکومت بھی اس معاملے کو سنجیدگی کی نگاہ سے دیکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).