چودہ فروری: یوم حیا یا یوم نکاح؟


صالحین نے ویلنٹائن ڈے کے پھولوں سے گھبرا کر 14 فروری کو یوم حیا منانے کی کوشش کی مگر وہ آئیڈیا فلاپ ہو گیا۔ زمانہ ہی ایسا خراب آ گیا ہے کہ کسی کو حیا آتی ہی نہیں۔ حیا آنے کی اطلاع آئے تو عثمان قاضی کے توسط سے عشق کے لئے مشہور دمشق سے آتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ شیرٹن ہوٹل جیسی جگہ پر 14 فروری کو ”عید الحب“ کے دن سٹار وڈی الچیخ، حیا کا عملی مظاہرہ کر کے دکھائیں گے۔ مس حیا الخیام کا ساتھ دینے کو مائی فرح بھی موجود ہیں۔ اندیشہ ہے کہ شام بھیگنے پر شیرٹن دمشق کے نائٹ کلب میں موجود شرمیلے مرد یہی رجز پڑھتے پائے جائیں گے
صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا

خیر یوم حیا کی ناکامی اور شرم و حیا کے ایسے داغ مفارقت دینے پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد والوں نے نیا گل کھلایا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ تمام لڑکے تمام لڑکیوں سے اس دن بہناپا کریں گے اور ادھر ویلنٹائن ڈے کی بجائے خواہران ڈے منایا جائے گا۔ شریر لوگوں کو تو بہانہ چاہیے، جھٹ اسے بہنٹائن ڈے کا خطاب دے کر تیاریاں پکڑنے لگے۔ ان تیاریوں سے لگتا ہے کہ بہنٹائن ڈے شروع ہونے سے پہلے ہی فیل ہو گیا ہے۔

اب جانِ حیا کو یوں کھلتے دیکھ کر تمام صالحین پریشان ہیں۔ ایک طرف عرب اسے عید الحب قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف دیسی اسے رکھشا بندھن ڈے قرار دے کر طرح طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ تمام مقامی لڑکیوں کو بہن بنانے کے بعد لڑکا منکوحہ پانے کیا فیصل آباد سے جڑانوالہ جائے گا؟

ہم اس معاملے پر شدید غور و فکر کر رہے تھے۔ الحمدللہ ایک شرعی حل ذہن میں آ گیا ہے جس سے فحاشی کا سانپ بھی مر جائے گا اور فسادی کی لاٹھی بھی ٹوٹ جائے گی۔ اس آئیڈیے کا محرک وہ قول سدید بنا ہے کہ ”زنا کو روکنا ہے تو نکاح کو آسان کر دو“۔ یعنی حقیقت پسندی کا مظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کام تو ہونا ہی ہونا ہے، بس کاغذی کارروائی پوری کر لو۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ چودہ فروری کو یوم حیا کی بجائے یوم نکاح منایا جائے تاکہ تمام امور شرعی انداز میں انجام پائیں۔ یاد رہے کہ ازروئے شریعت نکاح کے لئے مولوی صاحب کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ آدھی حسینہ، ایک نوجوان، دو گواہ، تین بول ایجاب و قبول کے۔ بس یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے۔

اب اس دن اگر ایک نوجوان اپنے دو مرد دوستوں، یا ایک مرد اور دو لڑکیوں کے ساتھ تیسری لڑکی کی جانب بڑھے تو ان کے نزول سے پہلے پہلے لڑکی کو چند ثانیوں کے اندر اندر فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اس نے ”قبول ہے“ کہنا ہے یا ”در فٹے منہ“۔ ان آن دی سپاٹ نکاحوں کی موبائل ایپ بنا دی جائے تو مناسب ہے۔ ورنہ کئی دل پھینک نوجوان چار کی شرعی حد ایک کلاس میں ہی پار کر سکتے ہیں۔

اس متوقع منظر نامے کو چشم تصور سے دیکھتے ہوئے اب اگر تیس چالیس برس پرانی وہ ہندی فلمیں یاد آ جائیں جن میں ایک تاریک رات میں اندھیرے مندر میں بھگوان کو ساکشی مان کر برستی بارش اور کڑکتی بجلی کے دوران ایک نوجوان ایک حسینہ کے گلے میں بر مالا ڈال کر اسے سات جنموں اور چند راتوں کے لئے اپنا ساتھی بنا لیتا تھا اور دنیا کو بعض طبی علامات کے ظاہر ہونے تک کانوں کان اس شادی کی خبر نہیں ہوتی تھی، تو پھر اس شادی کا پاکستانی ورژن آپ کو حیران نہیں کرے گا۔ ویسے بھی سنا ہے پورا فروری کڑکتی بجلی اور برستی بارش سے ماحول بنا رہے گا اور دیسی جذبات برانگیختہ رہیں گے۔

دمشق کا ویلنٹائن ڈے اور یوم حیا

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar