محمد عاقل اپنی دنیا کا بادشاہ کیسے بنا؟


وہ زمین پر رینگتی چیونٹیوں کو دیکھ کر برابر بول رہا تھا اور اسی دوران کبھی کبھی جذباتی ہوکر اُس کے معصومیت سے بھرے رخساروں پر آنسو ایسے بہہ جاتے جیسے کسی برساتی نالے سے پانی کی غصیلے لہریں بہتی ہوں۔

وہ بول رہا تھا ”میں خود اپنے بارے میں وثوق سے کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا کیونکہ میری فطرت بالکل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے لیکن ایک بات ہے جس کی وجہ سے میں اللہ کا ہر لمحہ مشکور رہتا ہوں۔ مَیں کامیابی اورانتھک محنت کے ساتھ ساتھ اللہ پر بھروسے پر حد سے زیادہ یقین رکھتا ہوں اوران تین چیزوں کو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم سمجھتا ہوں۔ میں کامیابی سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اوراس کامیابی کے لئے میں جتنی بھی تھکاؤٹ، مشقّت اور سختیاں جھیلتا ہوں اُتنی میری یہ محبت لامحدود عشق کا روپ دھار لیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں زندگی کے تھپیڑوں اور نشیب و فراز میں جب بھی ڈگمگایا میں نے ہمیشہ مثبت سوچ کا سہارا لیا اور جس طرح کوئی مصّور اپنی ذہن کے خاکوں اور نقوش کو کینوس پر اتار کر دلی راحت محسوس کرتا ہے اسی طرح میں بھی جب اپنی کیفیات اللہ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تو دنیا جہاں کے تمام غم اور پریشانیاں مجھ سے کوسوں دُور بھاگ جاتی ہیں۔ ہر انسان کی اپنی ایک دنیا اور کہانی ہوتی ہے اور اس دنیا اور کہانی میں وہ بادشاہ اور ہیرو ہوتا ہے میں بھی اپنی دنیا کا بادشاہ اور اپنی کہانی کا ہیرو ہوں۔ ”

یہ سن کر میں نے اُس سے پوچھا۔ ”کیا آپ مجھے یہ کہانی سنا سکتے ہیں جس کی وجہ سے آپ نے اپنی ایک دنیا بسائی اور آپ اُس دنیا کے بادشاہ بن گئے؟

اُس کے چہرے پر چاندنی رات کی چمک جیسی خوشی اور لبوں پر ٹمٹماتے ستاروں کی چکاچوند جیسی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ دوبارہ گویا ہوا، ”میں نے جب پرائمری اور مڈل کی تعلیم مکمل کی تو میٹرک کے لئے اپنے آبائی علاقے بٹاڑہ میں داخلہ لیا۔ غربت ہمارے گھر کی برسوں پرانی لونڈی ہے اور یہی وجہ ہے کہ رزق کا حصول بچپن سے میری پہلی ترجیح رہی۔ میں بچپن سے دیہاڑی کا عادی رہا اور سکول سے چھٹی کے بعد میں اکثر گرمیوں میں جب سورج سوا نیزے پر ہوتا لوگوں کے ساتھ گھاس کی کٹائی کرتا اور تھک ہار کر کچھ پیسے جب ہاتھ آجاتے تو اس میں اپنی تعلیمی ضروریات بھی پوری کرتا اور پیٹ پوجا بھی کرتا۔ والد صاحب سے اکثر میں اپنے خوابوں کا تذکرہ کیا کرتا لیکن وہ ایسے ٹال دیتے جس طرح کبھی تبریزی کے والد اُسے ٹالتے رہتے۔

امتحان دیا رزلٹ جب آیا تو میں نے پورے سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ میرے ہاتھ میں جب میری ڈی ایم سی آگئی تو میرے کانوں میں ایک مسحور کُن آواز جیسے رس گھولنے لگی ”انسان جب کسی مقصد کے پیچھے لگ جاتا ہے تو کائنات کی تمام ان دیکھی قوتیں خالق لایزال سے اس کی کامیابی کی دعائیں مانگتی ہیں“۔ یہ آواز جب سنی تو پکّا ارادہ کرلیا کہ اب صرف دل کی سنوں گا۔

میٹرک کے بعد ایف ایس سی کے لئے مجھے ہزار مشورے ملے کہ گورنمنٹ کالج ڈگر میں داخلہ لو آنا جانا بھی آسان رہے گا اور خرچہ بھی کم ہوگا لیکن میرا ارادہ تھا کہ پشاور میں داخلہ لُوں تاکہ اُس دوڑ میں شامل ہوجاؤں جس میں ہر قدم پر کامیابی ملتی ہے۔

پشاور آیا تو بے بسی کے علاوہ میرے پاس صرف میرا خواب تھا۔ ایک دن قیوم سٹیڈیم میں میں میٹھی پوری بیچ رہا تھا کہ دو نوجوان میری طرف آئے اور مجھ سے میٹھی پوری خریدنے لگے۔ باتوں باتوں میں میں نے انگریزی کے چند الفاظ استعمال کیے تو ان دونوں نے مجھ سے میری تعلیم کا پوچھا۔ میں نے کہا میٹرک تک پڑھا ہوں اور آگے بھی پڑھنے کا ارادہ ہے لیکن غریب ہوں اسی لئے برداشت نہیں کرسکتا۔ ان دونوں کا تعلق ”رنڑا چائلڈ ویلفئر فاؤنڈیشن“ سے تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسی لمحے انہوں نے میرے داخلے کی ہامی بھر لی۔

اللہ چھپر پھاڑ کے دیتا ہے یہ سنا تھا لیکن اللہ کے ساتھ یقین کے تعلق کا فائدہ اتنا اچانک ہوگا میں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے میرا داخلہ قائداعظم ڈگری کالج میں کرایا اور داخلے کی فیس بھی بھری۔ میرا فرسٹ ائیر شروع ہوا اور اسی طرح میں نے مقصد کے حصول کی طرف سفر شروع کیا۔ اتوار کے دن میں فارغ رہتا اور پورا دن مزدوری کیا کرتا۔ پیسے بچاتا اور یہاں تک کہ کئی کئی دن بھوکا بھی رہتا لیکن کبھی اپنے مقصد کو ایک لمحے کے لئے بھی ذہن سے اتارا نہیں۔

اللہ اللہ کرکے ایف ایس سی کا پہلا سال بیت گیا تو میں اچھا خاصا مزدور طالب علم بن گیا تھا۔ رزلٹ جب آیا تو میں نے چار سو بیس نمبر حاصل کیے تھے۔ میں اس کالج میں مطمئن نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ مذکورہ بالا فاؤنڈیشن کی مدد سے سیکنڈ ائیر میں میرا داخلہ گلوبل ڈگری کالج میں ہوا۔ وہاں کے پرنسپل صاحب نے جب میرا نوحہ سنا تو ٹیوشن فیس پوری معاف کرا دی لیکن پندرہ ہزار داخلہ فیس لینے پر اصرار کرتا رہا۔ یہ داخلہ فیس بھی میری خاطر مذکورہ فاؤنڈیشن نے جمع کرا دی۔

داخلے کے بعد میری رہائش کا مسئلہ آیا تو کالج کے اپنے ہاسٹل میں داخلے کے لئے پرنسپل صاحب پر تول رہا تھا جس کی سالانہ فیس ستر ہزار تھی جس کو ادا کرنے کی مجھ میں بالکل سکّت نہ تھی۔ رنڑاچائلڈ ویلفئیر فاؤنڈیشن والوں نے میری یہ فیس بھی جمع کرا دی اور اسی طرح میرے سیکنڈ ائیر کا آغاز ہوا۔ میں نے مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دی۔ گھر والوں کی یاد ستاتی لیکن آنے جانے کا خرچہ میرے اوپر بوجھ تھا اسی لئے اس درد کو دبا کر رکھتا۔ ایف ایس سی کے امتحانات کے بعد جب میرا رزلٹ آیا تو میری روح نے مسرت کے ساتویں آسمان پر گویا رقص کی کیونکہ میرارزلٹ میرے توقعات سے بھی زیادہ اچھا تھا۔

اب میرا اگلا ٹارگٹ انجنئیرنگ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے ایٹا ٹیسٹ تھا جس کے لئے میں رات کو پڑھتا رہتا اور دن کو مشّقت کرکے پیسے کماتا۔ قصہ کوتاہ! میں نے جب ٹیسٹ دیا تو یہاں بھی کامیابی نے میرے قدم چوم لئے اور مجھے بِلا کسی تکلیف کے یو ای ٹی پشاور میں داخلہ مل گیا۔ ”

یہاں تک کہنے کے بعد ہم دونوں کے درمیان سکوت کے پردے حائل ہوچکے تھے لیکن میرے تجسّس نے اس سکوت کو توڑا جب میں نے اس سے پوچھا، ”اب مالی ضروریات کہاں سے پوری ہوتی ہیں“؟

میں اب بھی ویسے ہی محنت کرتا ہوں۔ تعلیمی اخراجات اب بھی رنڑاچائلڈ ویلفئیر فاؤنڈیشن اٹھاتی ہے۔ میرے سمسٹر فیس کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی مجھے ان ہی سے مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میری کہانی کا جب ہائیر کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کو پتہ چلا تو اس نے اپنے ایک ٹویٹ میں میرا تذکرہ کیا کہ ہم اس کو جاب بھی دیں گے اور اس کے اخراجات بھی اٹھائیں گے۔ ان کا بندہ مجھ سے ملا بھی تھا لیکن دوران تعلیم میں نے جاب سے معذرت کرلی جس پر انہوں نے میرے ساتھ یہ کمٹمنٹ کرلی کہ جب آپ فارغ ہوجائیں گے تو ہماری کمپنی کی خالی سیٹ آپ کی منتظر رہے گی۔

آپ کے احساسات کیا تھے جب آپ کو انجنئیرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا؟ میں نے پوچھا۔

وہ بولنے لگا ”میں الفاظ میں ان تمام تکالیف اور محرومیوں کو بیان نہیں کرسکتا جن کا میں نے سامنا کیا۔ میں جب پشاور کی گرمیوں میں برہنہ سڑکوں پر میٹھی پوری بیچا کرتا تو وہ بہت اذیت کے لمحات ہوتے تھے خاص طور پر جب میں اپنے ہم عصر لوگوں کو زندگی کی ہر سہولت سے آراستہ دیکھتا تو میرے دل میں درد کروٹیں لیتا لیکن پھر میرا مقصد مجھے ان کج فہمیوں سے نکال لیتا۔ مجھے جب داخلہ مل گیا تو میرے اندر سے بس ایک آواز آئی کہ جہاں اللہ کی رحمت کے سائے ہوں وہاں انسان کبھی بھی نہیں گر سکتا۔

یہ کہانی اور احساسات سننے کے بعد میں عقل، عمل، عشق، جدوجہد اور یقین محکم کے اس پیکر کو دیکھ کر خوشی اور پریشانی کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ رخصت کر رہا تھا کیونکہ اس کا امتحان قریب تھا۔

یہ محمد عاقل کی کہانی تھی جس کا تعلق ضلع بونیر سے ہے اور آج کل وہ پشاور میں زیر تعلیم زندگی کے مصائب سے کامیابی کے حصول کی خاطر لڑ رہا ہے۔ آپ اگر نوجوان ہیں اور زندگی میں کچھ خاص کرنا چاہتے ہیں لیکن مسائل راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں جس کی وجہ سے آپ سمجھ رہے ہیں کہ کامیابی اس دنیا کے انسانوں کی بس کی بات نہیں تو آپ محمد عاقل کی کہانی ایک بار ضرور پڑھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).