ویلینٹائن ہفتہ: سات دنوں کا ٹائم ٹیبل


ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ آج کے دور کا ہر کس و ناکس اس لفظ اور اس دن کے باب میں نوجوانوں میں پائے جانے والے جوش و خروش سے واقف ہی ہوگا۔ یوم محبت، یعنی دو محبت کرنے والوں کو منسوب یہ دن ان کے محبت کے احساس کو کھل کر ظاہر کرنے کا دن مانا جاتا ہے۔ ان کے لئے یہ کسی تہوار سے کم نہیں جسے پرجوش طریقے سے منانے کی تیاریاں فروری کے آغاز سے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔

دوستوں سے مشورے ہونے لگتے ہیں، ٹپس مانگی جاتی ہیں، رات اور دن اسی فکر میں گزرتے ہیں کہ آخر اس بار اس دن کو یادگار کیسے بنایا جائے؟ ، میں کیا پہنوں، کیا گفٹ دوں، سارا دن کہاں گذاریں گے وغیرہ وغیرہ۔ اسی ادھیڑ بن میں صبح شام گزر جاتی ہیں۔ ادھر بازار بھی اظہار عشق کے لئے ڈھیروں اشیا سے لدے پڑے ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ سارا ماحول ہی لال اور گلابی رنگ میں شرابور ہو جاتا ہے۔

وہیں اس کے برعکس والدین اور دینی حلقے اسے طوفان بے حیائی قرار دے کر پریشان اور متفکر نظر آتے ہیں اور ہر سال اس دن کو لے کر اپنی رہنما ہدایات جاری کر دیتے ہیں جنہیں نوجوان نسل کی ایک بڑی جماعت حسب معمول پرانے زمانے کی باتیں اور دقیانوسی سوچ کہہ کر یکسر مسترد کر دیتی ہے۔ ان ناصحین میں شاید کچھ عمر رسیدہ حضرات ایسے بھی ہوں گے جنہیں یہ ملال ہوگا کہ یہ ویلنٹائن ڈے اُن کے زمانے میں کیوں نہیں تھا اور وہ اس نعمت سے کیوں محروم رہ گئے؟

اس زورآزمائی میں ان مظلوم محبت کرنے والوں کی الجھن کو کوئی نہیں سمجھتا جو بے چارے اپنی محبت کا یقین دلانے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ انہیں تو یہ ڈر ستاتا ہیں کہ کہیں کوئی دوسرا بازی نہ مار لے جائے۔ ان کے لئے تو یہ دن کسی امتحان سے کم نہیں ہو جاتا جہاں ایک طرف نصیحتیں اور تنبیہ ہے تو دوسری طرف محبت سے بھرا ایک دل۔

میرے خیال میں بھی ”عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہیے“ لیکن ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کئی اور نکات بھی ہیں جو اکثر سوال بن کر ذہن کی چوکھٹ پر آ دھمکتے ہیں۔ اس تحریر کے ذریعہ ان میں سے کچھ آپ کے ساتھ شیئر کرنے ہیں۔

یوں تو ویلنٹائن ڈے یعنی یوم محبت سننے میں ایک دن کا معاملہ لگتا ہے لیکن واقعہ یہ کہ اسے 7 سے 14 فروری تک بتدریج منایا جاتا ہے۔ جس طرح شادی میں نکاح تک پہنچنے کے لئے ہلدی، سانچک اور مہندی کی رسومات سے گزرنے کا دستور ہے ٹھیک اُسی طرح ویلنٹائن کے دن تک پہنچے کے بھی کچھ مراحل ہیں۔

7 فروری سے شروع ہونے والے ویلنٹائن ہفتے کا پہلا دن روز ڈے ہوتا ہے۔ اس دن جوڑے ایک دوسرے کو گلاب کے پھول دیتے ہیں۔ اب یہاں پھولوں کو لے کر بھی اپنا اپنا انتخاب ہے۔ لال گلاب محبت کی علامت ہے، وہیں پیلا گلاب دوستی کے لئے دیا جاتا ہے، پنک گلاب خوشی کے لئے جبکہ سفید گلاب کسی نئی شروعات کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہیں کہ ان دنوں کے دوران گلاب کی قیمت تین گنی تک وصولی جاتی ہے۔

8 فروری کو پرپوز ڈے منایا جاتا ہے۔ جو کہ پیار کے اظہار کا دن ہوتا ہے۔

9 فروری کو چوکلیٹ ڈے آتا ہے۔ اس حوالے سے مانا جاتا ہے کہ چوکلیٹ آپ کے رشتے میں میٹھاس پیدا کرتی ہے۔ اس لئے پیار کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کو چوکلیٹس گفٹ کرتے ہیں جس کے لئے بازار میں الگ الگ قسم اور شکل کی چوکلیٹس دستیاب رہتی ہیں۔ اس میں دل کے ڈیزائن والی چوکلیٹ یا دل کی شکل والے پیکٹ میں چوکلیٹس کی فروخت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔

10 فروری کو ٹیڈی ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن اپنے ساتھی کو ٹیڈی دے کر خوش کیا جاتا ہے۔

11 فروری کو پرومِس ڈے یعنی وعدوں کا دن کہا جاتا ہے۔ اس دن آپ اپنے رشتے کو گہرائی سے سوچتے ہیں اور اپنے ساتھی سے وعدہ کرتے ہیں کہ اس رشتے کو ہمیشہ نبھائیں گے۔

12 فروری کو ہگ ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن آپ اپنے ساتھی کو گلے لگا کر یہ یقین دلاتے ہے کہ آپ اس کے لئے ہمیشہ موجود رہیں گے۔ اب اسے جادو کی جھپی کا نام بھی دے دیا گیا ہے

13 فروری کو کِس ڈے آتا ہے۔ اس دن اپنے ساتھی کو کِس کرکے پیار ظاہر کیا جاتا ہے۔

14 فروری کو آخری مرحلہ یعنی ویلینٹائن ڈے ہوتا ہے۔ اس دن محبت کرنے والے جوڑے سارا دن ساتھ گزارتے ہیں، گفٹ، ڈنر، کیک، پھول وغیرہ کا تبادلہ ہوتا ہے۔

اب ذرا اس پورے ہفیہ کے پروگرام پر غور کریں کہ محض سات دنوں میں ایک لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے کتنے قریب آجاتے ہیں۔ اس ٹائم ٹیبل کو دیکھ کر رشک آتا ہے کہ نجانے کس پلاننگ کمیشن نے یہ پورا منصوبہ بنایا ہوگا۔ گزرے زمانہ میں اس پوری مسافت کو طے کرنے میں کئی برس لگ جاتے تھے اور اس کے بعد بھی ”ہگ ڈے“ اور ”کِس ڈے“ جیسے اعمال اور ایام کا شادی کے بغیر تصور مشکل تھا۔ روشن خیال طبقہ کی مخالفت کا خطرہ مول لیتے ہوئے ہم میں سے بہت سے اس بات پر متفق ہیں کہ چند دنوں میں عشق کے مراحل کو یوں چھلانگیں مار کر سر کر لینے کی جلدی مشرقی تہذیب کا حصہ قطی نہیں ہے۔ کسی کو آپ سے محبت ہو جانا یا پھر آپ کا کسی کو چاہنے لگنا خوش نصیبی کی بات ہے لیکن اگر وہ تعلق واقعی محبت کا ہے تو اس لافانی رشتے کو محض خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھ کر اس کی پاکیزگی کو ختم کرنا اس جذبہ کے ساتھ نا انصافی سے کم نہیں ہے۔

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

صائمہ خان دہلی سے ہیں،کئی نشریاتی اداروں میں بطور صحافی کام کر چکی ہیں، فی الحال بھارت کے قومی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کی اینکر پرسن ہیں

saima-skhan has 12 posts and counting.See all posts by saima-skhan