چڑیل – ایک سچا واقعہ


وہ گھر میں داخل ہو کر چپ چاپ لاؤنج میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں تھیں۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی لیکن اس کا خاموش بیٹھنا سب کو چونکا گیا۔ وہ اس طرح نچلی کب بیٹھتی تھی۔ یہ ہماری سب سے چھوٹی بہن آٹھ سالہ گڈی تھی۔ کچھ دیر پہلے ہی وہ برابر والے فلیٹ میں اپنی دوست ثمرہ سے کھیلنے گئی تھی۔

کیا ہوا، ثمرہ سے جھگڑا ہو گیا کیا؟
امی نے سوال کیا۔
جواب نہ آیا۔

کسی نے ڈانٹ دیا ہوگا۔
میں نے ٹکڑا لگایا۔
جواب نہ دارد۔

اب ہم باقاعدہ متفکر ہو گئے کہ گڈی اتنی دیر چپ رہنے والوں میں سے کہاں تھی۔
میں نے قریب بیٹھ کر اس کا کاندھا ہلایا۔
کیا بات ہے گڈی۔ بتاؤ کیا ہوا ہے؟

گڈی کچھ اور سمٹ کر بیٹھ گئی اور بس سامنے والی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جیسے وہاں کچھ ہو۔
ہم نے مڑ کر کھڑکی کو دیکھا۔ یہ لاؤنج کی کھڑکی تھی جو ایک ڈک میں کھلتی تھی اور بالکل سامنے ثمرہ کے گھر کی کھڑکی تھی۔

امی کی چھٹی حس نے کام کیا۔
کیا ہوا گڈی، صاف بتاؤ۔ کوئی چیز دیکھی ہے کیا؟ ڈر گئی ہو کیا؟

ہماری امی کا مافوق الفطرت عناصر پر پکا یقین تھا۔
گڈی نے اقرار میں گردن ہلا دی۔

اب میں اور امی پوری طرح متوجہ ہو کر گڈی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس کا یوں خوفزدہ ہونا ہمیں بھی دہلا رہا تھا۔
کیا دیکھا؟ بتاؤ؟

چڑیل۔
گڈی ڈرتے ڈرتے گویا ہوئی۔

پاگل ہو، وہم ہے تمہارا۔ کوئی چڑیل وڑیل نہیں ہوتی۔
میں نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
مجھے ان چیزوں پر بالکل یقین نہیں تھا۔

اس کو بتانے تو دو۔
امی نے مجھے ٹوکا اور دوبارہ گڈی سے مخاطب ہوئیں۔
بول گڈی، کیا دیکھا؟
اس کے بعد گڈی نے جو نقشہ کھینچا وہ حیران کن تھا۔

ایک لمبی سی عورت، چھت سے بس کچھ ہی چھوٹی، لمبے الجھے ہوئے بال، گندا سا چہرہ، گندے دانت، لمبا سا کوٹ پہنے ہوئے اور پاؤں میں کینوس کے پڑھتے ہوئے جوتے۔ وہاں نورین کے گھر میں لاؤنج کی کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی اور اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی میں گھما رہی تھی۔

امی نے میری طرف دیکھا۔
میں نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔ یہ ضرور اس شیطان کی خالہ گڈی کا کوئی کھیل تھا۔ بہت بڑی ڈرامہ تھی وہ۔

اچھا تو بس تم نے دیکھا۔
نہیں ثمرہ نے بھی دیکھا۔

اچھا؟ گھر میں اور کوئی نہیں تھا؟
نہیں، ثمرہ کی امی باہر گئیں تھیں۔
اچھا میں ذرا ثمرہ سے پوچھوں۔

میں نے ثمرہ کو آواز دے کر بلایا اور دوسرے کمرے میں لے جا کر اس سے بھی پورا ماجرا سنا کہ اگر یہ ان دونوں کی شرارت ہے تو بیان میں کچھ تو فرق ہوگا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں کا بیان بالکل ایک تھا۔ میں بہت دیر دونوں سے کراس سوالات کرتی رہی، اور دونوں ایک سے جواب دیتی رہیں۔

امی تو یقین کر چکی تھیں مجھے ہی یقین نہ آتا تھا۔ لیکن دونوں بچیوں کا خوف اور چڑیل دیکھنے پر مصر ہونا شک کی گنجائش نہ چھوڑ رہا تھا۔
یقین کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔
اس کے بعد گڈی اکیلے بلڈنگ کا زینہ اترنے سے بھی ڈرنے لگی۔ محلے میں بھی سب کو پتہ چل گیا کہ اس بلڈنگ میں کسی چڑیل کا بسیرا ہے اور سینہ بہ سینہ بات دور دور تک پھیلی گئی۔

میں جو زندگی میں کبھی اس طرح کی چیزوں سے نہ ہی ڈری تھی نہ یقین کیا تھا، میرا رات میں اس کمرے میں بیٹھ کر پڑھنا محال ہو گیا۔ ان دنوں میرے انٹر کے امتحان ہونے والے تھے۔ میں رات بھر اکیلے بیٹھ کر پڑھا کرتی۔ اس واقعے کے بعد جب سب سو جاتے اور میں کتابیں کھولتی مجھے آہٹیں سنائی دینے لگتیں۔ چڑیل کا جو نقشہ گڈی نے کھینچا تھا وہ تصور میں آن دھمکتا اور پڑھائی وڑھائی سب دھری رہ جاتی۔ میرا اس کمرے میں رات گئے اکیلے بیٹھ کر پڑھنا ممکن ہی نہ رہا۔ ساری بہادری ہوا ہوگئی، چڑیل اس بری طرح اعصاب پر سوار ہوئی کہ اپنے ہی گھر میں اکیلے رہنا دوبھر ہو گیا۔ کئی سال تک چڑیل خیالوں میں آ کر ہلہ مچاتی رہی۔ مجھے تو نہیں کئی دوسرے بچوں کو وہ نظر بھی آئی۔ اس کی بھی شاید صرف بچوں سے ہی دشمنی تھی۔ بہرحال ہماری بلڈنگ آسیب زدہ مشہور ہو گئی۔

خیر وقت گزر گیا۔ میری شادی ہو گئی، گڈی بڑی ہو گئی، چڑیل بھی شاید کہیں اور شفٹ ہو گئی۔ ایک دن میں امی کے یہاں رہنے گئی تو یونہی پرانے قصے چھڑ گئے۔ اس واقعے کو دس سال کا عرصہ گزر چکے تھے۔ چڑیل کے ذکر نکلا تو گڈی دھیرے سے مسکرائی۔

کیا ہوا؟ اب تم کو ڈر نہیں لگتا چڑیل سے؟
میں نے پوچھا۔

نہیں، وہ بولی۔
کیونکہ چڑیل تھی ہی نہیں۔
وہ ہنس رہی تھی۔

کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ یونہی کھیلتے کھیلتے ہم نے پلان بنایا تھا سب کو ڈرانے کا۔

میں بے یقینی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ دل تو چاہا کہ جوتی اٹھا کر اس کی پٹائی کر ڈالوں پر اب وہ چھوٹی گڈی کہاں تھی۔ اس کے پرفیکٹ ڈرامے پر میں حیران تھی۔ میرے کتنے سال اس چڑیل سے ڈرتے گزرے جو تھی ہی نہیں۔

مگر تم تو خود بہت ڈرنے لگیں تھیں؟
مجھے اب تک یقین نہ آ رہا تھا کہ وہ سب محض ڈرامہ تھا۔
ہاں! بار بار جھوٹ بولا اور وہ بھی اتنی ایمانداری سے کہ ہمیں بھی وہ سچ لگنے لگا تھا۔ واقعی لگتا تھا کہ ابھی چڑیل کہیں سے نکل آئے گی۔

اور تمہاری اس کہانی نے آج تک اس بلڈنگ کو آسیب زدہ مشہور کیا ہوا ہے۔ یہ تو حد ہی ہو گئی۔ کوئی اس حد تک بھی شاندار ایکٹنگ کر سکتا ہے اور دس سال تک سچ پیٹ میں رکھ سکتا ہے۔ اس دن میں اپنی بہن کی صلاحیتوں کی معترف ہو گئی۔

فلم بھوت ناتھ میں جب امیتابھ کا کیرکٹر دیکھا تو یوں لگا جیسے یہ کیرکٹر گڈی سے پوچھ کر ہی لکھا گیا ہو، بس جنس کا فرق تھا۔
بچوں کا تخیل کیا کیا کر سکتا ہے اور ہم جو سنتے آئے ہیں کہ بچے من کے سچے، تو آپ ہی بتائیں کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں یا شیطان کے مامے چاچے۔
آپ میں سے کتنے شیطان کے خاندان سے رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).