گورنر چوہدری سرور، ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ڈپٹی کمشنر اور کوٹلی مقبرہ، گوجرانوالہ


 

دلیل ہر بندے کے پاس ضرور ہوتی ہے۔ ابن انشا روایت کرتے ہیں۔ بغل میں چھری لئے ایک صاحب اپنی چھری کی یوں وضاحت پیش کرنے لگے۔ “ہمارا خیال تھا کہ ہمارے علیل دوست کے پاس تیمار داروں کا لایا ہوا وافر پھل فروٹ تو ہوگا ہی۔ اسی لئے ہم اس کی عیادت کو گئے، چھری ہمراہ لیتے گئے۔” اب اگر برطانیہ میں بزعم خود صرا ط مستقیم والی سیاست کرتے ہوئے گورنر چوہدری محمد سرور پاکستان پہنچ کر یہاں کی سیاست میں رنگے جاتے ہیں تو کوئی دلیل آخر ان کے پاس بھی ہو گی۔ اور کچھ نہیں تو انور مسعود کی بولی میں وہ یہ ضرور کہیں گے۔

                                ٹالی ہیٹھ بیٹھنے دا وعدہ اوس کیتا سی

                                ٹالی جتھے دسّی سی اوتھے تے کھجور اے

                                ہُن دسو ایہدے وچ میرا کیہ قصور اے

یعنی تبدیلی کے خواب کی تعبیر ڈھونڈنے ہم ن لیگ سے تحریک انصاف میں آئے تھے۔ ادھر ن لیگ ہی ہمارے اڑوس پڑوس میں دکھائی دے رہی ہے۔ آخر ان کے رنگ ڈھنگ سے کہاں تک بچا جا سکتا ہے؟ ہمارا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ پارلیمانی نظام سیاسی جماعتوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ سیاسی جماعتیں امیر کبیر بندوں کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ اب اگر ڈپٹی کمشنر ان بندوں کی مرضی مطابق نہ چلے تو پھر یہ لوگ سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان حالات میں اگر گورنر چوہدری سرور ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ کا تبادلہ کروا دیتے ہیں تو اس میں اعتراض والی ایسی کون سی خاص بات ہے؟

سابق ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ کہہ رہے ہیں۔ میرا منہ نہ کھلوائیں۔ میرے سینے میں بہت سے راز ہیں۔ اب اس بھلے مانس کو کون سمجھائے کہ وہ اپنا منہ بند رکھے یا کھولے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جسے وہ راز سمجھے بیٹھے ہیں ان سے سارازمانہ آگاہ ہے۔ ن لیگ کے ساتھ چوہدری محمد سرور کے اختلافات تارکین وطن کی قیمتی زمینوں پر سے ناجائز قبضے چھڑوانے سے تھے۔ ان دنوں چوہدری محمد سرور اپنی ان سرگرمیوں کو خدمت خلق قرار دیتے تھے۔ یار لوگ اس سلسلہ میں بالکل مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔

بہر حال ہماری سیاست کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ ہمارے امیر کبیر سیاسی رہنماﺅں کی ساری سرگرمیاں ان کی مزید امیر کبیر ہونے کی خواہش کے ارد گرد ہی گھومتی ہیں۔ بھلے سے ہم کوئی سائنسی ترقی تو نہیں کر سکے۔ لیکن کرپشن اور چوری چکاری کے معاملات میں یورپ والے ہم سے بہت پیچھے ہیں۔ دھریک، شیشم، کیکر، پیپل، بوہڑ کی بجائے ہمارے پی ایچ اے کے کار مختار پودے وہ لگواتے ہیں جن کے نام انہیں خود بھی نہیں آتے۔ یہ غیر ملکی پودے کسی کام کے ہوں یا نہ ہوں، پھر انہیں ہماری مٹی بھی قبول کرے یا نہ کرے۔ یہ مہنگے ضرور ہوتے ہیں۔

اب اگر کوئی ڈاکٹر مہنگی دوائی لکھتا ہے تو یا ہمارے پی ایچ اے کے چیئرمین مہنگے پودے تجویز کرتے ہیں تو دونوں کی وجوہات ایک سی ہوتی ہیں۔ انہیں لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چوری چکاری کے نئے نئے رنگ ڈھنگ کے باب میں ایک واقعہ سنیں۔ گوجرانوالہ کے نواحی گاﺅں کوٹلی مقبرہ میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے قاضی القضاة شیخ عبدالغنی کا مقبرہ ہے۔

چند برس قبل محکمہ اوقاف کے ملازمین کا روپ دھارے کچھ چور ریت بجری کی ٹرالیوں سمیت وہاں آئے۔ ریت بجری اور سیمنٹ کے ڈھیر لگا دیئے۔ مزار کے ارد گرد شٹرنگ کروا کے اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع کر دیا۔ پھر ہونا کیا تھا۔ ایک رات اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر مزار کے منقش دروازے، قیمتی پتھر، جالیاں، گنبد، میناروں کے کلس اور دیگر بیش بہار قیمتی تاریخی نوادرات اتا ر کر رفو چکر ہو گئے۔

ادھر سندھ میں گندم سٹور کرنے کے لئے پٹ سن کی بجائے پلاسٹک کی بوریاں استعمال میں لائی گئیں۔ یہ چند ارب روپوں کی کرپشن کا معاملہ ہے۔ اہم شخصیت کے لئے چند ارب بے معنی ہیں۔ اس ٹھیکے سے پیپلز پارٹی کی ایک اہم شخصیت کے دوست کو نوازنا مقصود ہے۔ تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔ لیکن تحقیقات کیا ہوں گی؟ کوئی ریکارڈ ہی نہیں مل رہا۔ پنجاب میں بھی ہمیشہ آگ کرپشن والے سرکاری ریکارڈ کو ہی لگتی ہے۔

وکلا ہمارے ملک کا دانشور طبقہ ہے۔ ویسے پرائیویٹ لا کالجوں نے وکلا کا تعلیمی معیار بہت گرا دیا ہے۔ یہ ایک لطیفہ سہی لیکن اس سے پیشہ وکالت کی صورت حال سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک وکیل صاحب نے اپنے گھر ٹونٹی مرمت کے لئے ایک پلمبر کو بلایا۔ اس نے دس پندرہ منٹ میں اس کی مرمت کر کے دوسو روپے مزدوری مانگی۔ وکیل صاحب کہنے لگے۔ بھئی ہم تو دو تین ہزار روپے لے کر برسوں مقدمہ لڑتے رہتے ہیں۔ پلمبر فوراً بولا۔ میں نے بھی اسی لئے وکالت چھوڑی ہے۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بار ایسوسی ایشن میں سینکڑوں جعلی وکیل ہیں۔ پھر یہ بھی سچ ہے کہ اب ہر بار میں ممبران کا سالانہ چندہ جمع کروانا امیدواروں کا فرض سمجھ لیا گیا ہے۔

بار ایسوسی ایشن کے الیکشن سوسائٹی کے لئے ایک مثال ہونے چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا بالکل نہیں ہے۔ بار کے عہدے بہت نفع بخش ہو گئے ہیں۔ امیدوار انتخابی مہم میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ بار کے الیکشن میں عام طور پر قانونی پریکٹس نہ کرنے والے وکیل سرگرم ہیں۔ پھر یہ منتخب صدر سیکرٹری ہو کر ایک سال خوب پریکٹس کرتے ہیں۔ عوام الناس میں ان دنوں فوری ریلیف کے لئے بار کے عہدیدار بطور وکیل کرنے کا رحجان زور پکڑ گیا ہے۔ ہر سال الیکشن کے لئے ایک بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے۔ بورڈ کا صدر امیدواروں سے الیکشن فنڈ کے نام سے رقم اکٹھی کرتا ہے۔

گوجرانوالہ میں اب تک میرے علم کے مطابق صرف چار آدمیوں نے اکٹھی کی ہوئی رقم میں سے صرف نہ ہونے والی رقم بار آفس میں واپس کی ہے۔ یہ چار نام یوں ہیں۔ ملک عبدالباسط۔ میاں محمد عارف۔ میاں محمد طارق۔ نوید کھوکھر۔ اگر کوئی نام رہ گیا ہو تو کالم نگار معذرت خواہ ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).