نجی تعلیمی ادارے اور ہسپتال


میاں نواز شریف پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ بیمار ہیں اور ان کے چاہنے والے پاکستان کے ہسپتالوں میں ان کا علاج موت کو دعوت دینے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو اس وقت بھی علاج وہ بیرون ملک ہی کراتے تھے۔ محترمہ کلثوم نواز کا علاج بھی بیرون ملک ہی ہوا اور اس کے علاوہ پنجاب کے کئی بار وزیراعلیٰ رہنے والے میاں شہبازشریف علاج معالجے کے لئے اکثر بیرون ملک ”اڈاری“ مار دیا کرتے تھے اور آج کل ان کے علاج کے لئے بھی سمندر پار کے ہسپتالوں کا مطالبہ ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا یہ مؤقف بہت حد تک درست ہے کہ پاکستان کے ہسپتال علاج کے قابل نہیں رہے۔ البتہ اس کا حل بھی تلاش کرنے کی استطاعت اللہ تعالیٰ نے انہیں تین بار عطا کی مگر نہ تو عوام کے لئے طبی سہولتیں بہتر ہوسکیں اور نہ ہی ”خاص“ کے لئے کچھ خاص ہوسکا۔ لہٰذا اسی خلا کی وجہ سے نجی ہسپتالوں کو ترقی کرنے اور اپنی مرضی کی فیسیں وصول کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ پاکستان کے تمام نجی ہسپتال مہنگا ترین علاج کرتے ہیں لیکن ان تمام ہسپتالوں میں لوگ اپنی مرضی سے علاج کروانے جاتے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں غریب غربا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں اور شاید یہی ان کا مقدر اور نصیب ہے۔ پہلے لاہور اوراسلام آباد کے سرکاری ہسپتال کسی حد تک غربا کا بوجھ اٹھا لیا کرتے تھے لیکن صوبائی حکومتوں کی مسلسل عدم دلچسپی اور مجرمانہ خاموشی کے باعث غریب کے پاس اب علاج کے لئے کوئی معتبر سہولت میسر نہیں ہے۔

صحت اور تعلیم دو ایسے ایشوز ہیں جو سرکاری سطح پر صرف نعروں کی حد تک حکومتوں کی ترجیح دے رہے ہیں وگرنہ عملاً ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہر حکومت نے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔ پرائیویٹ مہنگے ہسپتالوں کے مہنگے علاج پر غریب صرف اسی طرح ایک حسرت بھری آہ بھر کر خاموش ہوسکتے ہیں جس طرح مہنگے پرائیویٹ سکول کی تعلیم کے لئے بھی غریب صرف بے بسی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اصولی طور پر عوام کو بہترین علاج کی سہولتیں فراہم کرنا اور بہترین تعلیم سے آراستہ کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن اگر ان دونوں شعبوں کو معاشرے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے تو پھر نجی سکولوں کے طرزِ تعلیم، فیسوں اور بہترین ماحول پر اعتراض اٹھانا مناسب نہیں ہوگا۔

حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے نجی تعلیمی اداروں کا فرانزک آڈٹ کروایا ہے اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کا منافع 7 سے 8 فیصد ہے۔ فاضل عدالت میں والدین کی طرف سے نجی سکولوں کی بڑی بڑی فیسوں پر اعتراض کیا گیا تھا۔ لیکن آڈٹ رپورٹ نے اس حوالے سے بھی چونکا دینے والے انکشاف کیے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے دہشتگردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں۔ سکیورٹی کے حوالے سے نجی تعلیمی اداروں کو زیادہ انتظامات سانحہ اے پی ایس کے بعد کرنا پڑے تھے۔

اسی طرح نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کا یہ مؤقف بھی سامنے آیا ہے کہ وہ بہترین تعلیمی ماحول کے لئے نہ صرف بڑی بڑی عمارتیں کرایہ پر لیتے ہیں بلکہ ان عمارتوں میں طلباء وطالبات کے لئے موجود فرنیچر بھی قیمتی ہوتا ہے اور پھر یہ کہ کمروں کو ایئرکنڈیشنڈ رکھا جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ بچوں کی بہتر تربیت اورتعلیم کے لئے ہر جماعت میں بہت کم بچے رکھے جاتے ہیں تاکہ بچوں کی سوچنے اور پڑھنے کی صلاحتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

نجی سکولوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ فاضل عدالت کا ہم ہرحکم ماننے کو تیار ہیں مگر اس مسئلے کا حل بھی بتایا جائے کہ بہترین اساتذہ بڑے معاوضوں کے بغیر کام کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے اور پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ بھی نجی سکولوں کے اخراجات کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی تعلیمی ادارے بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ بھرپور نگرانی بھی کرتے ہیں اور ان کی مثبت ومنفی تمام سرگرمیوں سے والدین کو آگاہ بھی رکھتے ہیں اور نجی سکولوں کا ایک کریڈٹ یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں بھرتی ہونے والے 15 ہزار سے زائد اساتذہ میں 51 فیصد بھرتیاں نجی تعلیمی اداروں نے کی ہیں۔

نجی تعلیمی اداروں کے ذریعے زیادہ نوکریاں خواتین کے حصے میں آئی ہیں، یہ بھی خوش آئند ہے کہ نجی تعلیمی ادارے پرائیویٹ کمپنیوں کی طرح ٹیکس ادائیگیوں میں پرائیویٹ کمپنیوں کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ نجی سکولوں کے نمائندگان کا کہنا ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں فیسیں کم کردی جائیں تو پھر ان اداروں کا معیار تعلیم بھی سرکاری تعلیمی اداروں جیسا ہی ہوجائے گا اوراگر برے ماحول میں ناقص تعلیم کی فراہمی نجی تعلیمی ادارے کریں گے تو والدین کا یقیناً ان سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

نجی تعلیمی اداروں کے اس مؤقف میں بھی وزن محسوس ہوتا ہے کہ ملک بھر میں طلباء وطالبات کے والدین ان کی تعلیمی کارکردگی دیکھ کر ان سے رجوع کرتے ہیں اور اکثر تعلیمی اداروں میں غریب اور نادار طلباء کے لئے کوٹہ بھی رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک معتبر رائے یہ بھی ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کا گلا دبانے کی بجائے بہتر ہوتا کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کا معیار بہتر کرکے ایک مقابلے کی فضا پیدا کی جاتی۔ ابھی حال ہی میں وفاقی دارالحکومت کے سرکاری تعلیمی اداروں کو 70 کے قریب سرکاری بسیں دی گئی ہیں لیکن یہ اس قدر بھونڈا مذاق کیا گیا ہے کہ تمام بسیں بغیر ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے حوالے کردی گئی ہیں، جب تک ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھرتی کیے جائیں گے اس وقت تک ان بسوں کو زنگ لگ جائے گا۔

مہنگی اور بہترین تعلیم کا تصور پوری دنیا میں موجود ہے اور تمام نجی تعلیمی اداروں سے رجوع کرنا ہر شہری کا اس کی استطاعت کے مطابق حق ہے۔ اس لئے حکومت سرکاری سکولوں اور کالجوں کی تعلیم اور ماحول کو بہتر کرکے نجی سکولوں کا مقابلہ کرے۔ اگر ٹاٹ کے سکولوں میں اچھے اساتذہ تعلیم دیں گے اور حکومتی اہلکار کرپشن کی بجائے نئی نسل کی تعمیر کے لئے کام کریں گے تو دونوں شعبے ترقی کریں گے۔

یہی صورتحال حکومت کو صحت کے شعبہ میں پیدا کرنا ہوگی وگرنہ غریب کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat