جب مائیں بچوں کو قتل کرنے لگیں


ساحلِ سمندر پر جانا میرے لئے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی مزار پر عقیدت سے سر جھکانا۔ صبح سے شام ہوتی ہے تھکن سے چور جسم سمندر کی لہروں کو دیکھ کر ایک عجیب روحانی سکون پاتا ہے۔ اور کم و بیش انسانوں کے اس جنگل جسے ہم کراچی کہتے ہیں میں رہنے والے ہر باسی کی کچھ یہی کہانی ہوگی، جہاں ذہن کام کے قابل نہ رہا وہاں اس شہر کے ساحل نے اِسے سکون کی آغوش دی۔ لیکن آج کیا بات ہے کہ سمندر بھی رو رہا ہے ہوا تعفن زدہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ ساحل مجھے سکون نہیں دے رہا بلکہ جہاں دیکھو مجھے وہ ننھی گڑیا نظر آتی ہے۔ ہاں وہی معصوم گڑیا جسے ابھی چند دن پہلے اس کی ماں نے اپنے حالات سے تنگ آکر ان لہروں کی نذر کر دیا۔

قیامت سے سے پہلے قیامت کا یہ منظر کتنے ہی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک عورت اپنی ڈھائی سالہ بچی کو سمندر میں ڈبو دیتی ہے اور پھر خود بھی خودکشی کی کوشش کرتی ہے۔ سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ زندگی اب بھی معمول کے مطابق گزر رہی ہے۔ سمندر پر وہی سیرسپاٹے ہیں چہل پہل ہے اور کہیں کہیں تین چار سال کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بڑی سی چادر اوڑھے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہی ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ ایک ماں جس نے نو ماہ اپنے بدن میں ایک ننھے وجود کی پرورش کی، درد سے اسے پیدا کیا، اپنی چھاتی سے دودھ پلایا۔

آخر وہ کیوں کر اتنی مجبور ہوگئی کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے وجود کے حصے کو ختم کردیا۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ تواتر کے ساتھ ایسے واقعات روز ہی ہمیں اپنے آس پاس نظر آرہے ہیں اور ہم چپ چاپ تماشبین بنے فقط تماشا دیکھ رہے ہیں۔ دن شروع ہوتا ہے ایک نئی کہانی کو جنم دیتا ہے لوگ سسک سسک کر مرتے ہیں اور ان کی چیخیں، کراہیں اور بین سماعتوں سے ٹکرا کر پھر کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ ابھی عظمیٰ کی موت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جیسے اس کی مالک کی بیٹی کی پلیٹ میں سے ایک نوالہ کھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک بچے کی لاش کے ٹکڑے جگہ جگہ سے ملتے ہیں جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کراچی کی ایک ننھی پری کو بھی۔ اب تو لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔ کتنے قصے کتنی کہانیاں ہیں معصوموں کی زندگیوں کو نگل جانے کی، اور ہمارے لئے یہ سب ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلی۔ افسوس کا ایک دن گزرا، کہ پھر ایک اور روح کو چھلنی کرتی داستاں سامنے تھی۔

معاشرہ جس روش پر چل رہا ہے اس میں بیمار ذہنوں کی بہتات کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ایک مدت آپ کے ساتھ رہنے اور کام کرنے والا کب وحشی بن جائے کوئی نہیں جانتا۔ غربت، جہالت اور عدم برداشت جیسی بیماریاں معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ معاشرے میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جو مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ ہمیں اس نفسیات کو اس رویے کو بدلنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی، ورنہ آپ، میں، ہمارے گھر کا کوئی فرد، کوئی بھی اس وحشت اس جنون کا شکار ہوسکتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں تبدیلیاں راتوں رات آجاتی ہوں کئی سال پہلے ہونے والے سانحات واقعات نسل درنسل انسانی نفسیات پر اثرانداز ہوتے ہیں اور پھر نفسیات جینیاتی طور پر آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی ہے۔ نہایت افسوس کہ ساتھ کچھ ایسا ہی میرے ملک میں ہوا ہے کسی کو بے عزت کرنے، کسی کا حق مارنے معمولی نوعیت کے جھگڑوں پر قتل یا اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کسی معصوم کی زندگی کو روند دینے تک اب یہ سب کچھ ایک معمول بن چکا ہے۔

آپ کہیں گے نہیں ایسا نہیں ہے۔ ابھی وقت اتنا برا نہیں آیا۔ تو سن لیجیے وقت برا آبھی چکا اور کوئی نہ کوئی درندہ ہمارے اپنے اندر بھی چھپا بیٹھا ہے، جسے وقت آنے پر ہم جگاتے بھی ہیں اور پھر سلا بھی دیتے ہیں۔ خوفناک صورت حال یہ ہے کہ جو نفسیات پنپ رہی ہے اِس کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی جارہی تو ذرا سوچئے! آئندہ چند سالوں میں کیا میرے یا آپ کے گھر میں بھی خدانخواستہ ایسا ہی کوئی واقعہ رونما ہونا ایک عام صورت حال ہی ہو گی؟

ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں، پرتعیش زندگی گزارنے خواب میں ہمارے گھروں میں تربیت کا پہلو دم توڑ گیا ہے۔ اسکولوں میں تعلیمی نصاب میں اخلاقیات پر نمبر نہیں ملتے اس رٹے پر نمبر دیے جاتے ہیں جسے بچہ لگا کر پاس تو ہو جاتا ہے لیکن سمجھ نہیں پاتا کہ کیا پڑھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن اقربا پروری ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ دین سے دوری، انٹرنیٹ پہ بے ہودہ مواد تک بہ آسانی پہنچ، ڈراموں میں دکھائی جانے والی خوابوں کی زندگی، نیوز چینلز پر ٹاک شوز کے نام پر دکھائے جانے والے سیاسی دنگل، کیا کسی قوم کی تربیت کر سکتے ہیں؟

بے روزگاری میں اضافہ مہنگائی کے حملے نے ایک عام فرد کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ سفید پوش لوگ غربت کے شکنجے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ غربت خود ہی ایک مسئلہ نہیں یہ بہت سے خوف ناک مسائل کو جنم دینے کا سبب بھی ہے۔ ہمارے یہاں یہ سارے مسائل اپنی بھیانک ترین شکل میں نظر آتے ہیں۔ غربت کی ایک اولاد جہالت ہے۔ یہ جہالت ہی ہے جس کے باعث غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بہ آسانی مذہب کے نام پر بہکا دیا جاتا ہے۔ غربت اور جہالت کا یہ ملاپ فرقہ واریت کا ایندھن بنتا ہے ڈاکے، راہ زنی اور دیگر جرائم کی جڑ بھی یہی غربت ہے۔

ہم تو اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں چند ٹکوں کے عوض زندگیاں خرید لی جاتی ہیں جسم پر حکومت کرکے آقا بننے کے شوقین نفسیاتی مریض خوراک کے نام پر چند ٹکڑے سامنے پھینکتے ہیں اور لوگوں کو غلام بنا لیتے ہیں۔ اپنی تمام حاجات بشمول جنسی خواہشات بھی ننھے غلاموں سے پوری کی جاتی ہیں۔ اور یہ خواہش صرف مرد نہیں عورت کا روپ لئے ڈائینیں بھی پوری کرواتی ہیں۔ کیا ہم ایسے سماج میں رہ رہے ہیں، جہاں اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگی، عزت اور سلامتی کے لیے صرف دعا کا آسرا ہے۔ بس!

حالات جس نہج پر ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر سنجیدگی کے ساتھ لوگوں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے کے لئے خاص افراد تیار کیے جائیں جو ایک عام فرد میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں مدد دیں۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا خبروں کی دوڑ سے آگے بڑھ کر کچھ وقت اصلاحی پروگرامز کے وقف کریں۔ بچوں کے لئے خاص طور پر ایسے پروگرامز بنائے جائیں جن میں تشدد سے دور رہنے اور صبر کا درس دیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اور آپ اپنے گھر میں رہنے والے ہر شخص کے معاملات سے آگاہ ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی اپنا ہی ہماری نظر ہٹنے کا انتظار کررہا ہو اور ہم بے خبر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).