کرنوں کی میزبانی: ثروت حسین کی شاعری


ثروت حسین مختلف شاعر ہے۔ ہمارے ہاں مختلف ہونا عام طور پر متضاد ہونا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مختلف، متضاد کا مترادف ہرگز نہیں۔ ہم جب مختلف کلام پر غور نہیں کرتے تو اُسے مشکل کَہ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں کیوں کہ وہ کلام قرأت میں ہم سے محنت کا تقاضا کر رہا ہوتا ہے۔ جب اُس کے مطلوبہ ہم گزاری نہیں کی جاتی تو قاری اُس نرول جذباتی احساس سے اپنے دامن کو بھر نہیں سکتا اور کاسۂ طلب خالی رہتا ہے۔

ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے

جوتوں کی جوڑی سے

یا قبر سے جو بارشوں میں بیٹھ گئی

یا اُس پھول سے جو قبر کی پائنتی پر کھِلا

ہر ایک کو کہیں نہ کہیں پناہ مل گئی

چیونٹیوں کو جاے نماز کے نیچے

اور لڑکیوں کو میری آواز میں

مردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری نے گھر بنا لیا ہے

اس طرح یہ نظم چلتی رہتی ہے۔ پہلی قرأت میں آدمی سوچتا ہے کہ شاعر متنوع عناصر کی یک جائی سے ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے۔ کس دنیا کی سیر مطلوب ہے۔ بظاہر جوتوں کی جوڑی، قبر کی پائنتی پر کھلنے والا پھول، چیونٹیوں کو جاے نماز اور لڑکیوں کو شاعر کی آواز میں پناہ کا ملنا، مردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری کا گھر متصادم مظاہر ہیں۔ ایک مظہر دوسرے سے نہیں ملتا مگر جب ہم اسے تخلیقی عمل میں تنوع اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے پڑھیں گے تو یہ نظم ہم پر آئینہ ہو جائے گی اور شعر کے موضوع اور تخاطب میں سما جانے والے مظاہر ہمیں اس وظیفے کی کاملیت کے قریب لے جائیں گے۔

ثروت کی شاعری دنیا کو خوبصورت دیکھنے کی ایک خواہش کا نام ہے۔ وہ دنیا میں موجود ہر مظہر سے محبت کرتا ہے۔ اُس کے پاس ایسی سیربین ہے جس میں کائنات میں موجود ہر مظہر کو دکھانے کی طاقت ہے۔ ایک نظم کا عنوان ہے۔۔۔ درخت، میرے دوست

تم پُروقار اور سادہ ہو

میرے تھیلے کو جاننا چاہتے ہو

ضرور یہ لو میں اسے کھولتا ہوں

روٹیاں، دعائیں اور نظمیں

…..

روٹی: تمھاری چیونٹیوں کے لیے

دعا: تمھارے آخری دن کے لیے

فطرت سے محبت کی ایسی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے۔ آپ ثروت کی پہلی کتاب ’’آدھے سیارے پر‘‘ میں موجود اِس نظم کو پڑھیں۔ آپ کو جینا اچھا لگے گا۔ آج جب انسان کے لیے انسان کا احترام بھاری ہوگیا ہے ایسے میں ایک شاعر اپنے تھیلے میں درخت کے تنے پر موجود چیونٹیوں کے رزق سے متعلق فکرمند ہے۔ جب سے ہمارے ہاں سے اِس نوع کی شاعری کا چلن رخصت ہوا ہے، ہم زیادہ بے رحم ہوگئے ہیں۔ روٹی کی جگہ بارُود نے لے لی اور دُعا کی جگہ دغا ہمارا وتیرہ بن گیا۔ یہ سب کچھ ہمیں شاعری سے دُوری کی بددُعا کے طور پر حاصل ہوا ہے۔ اقوامِ عالم اگر آج بھی انسان سے اس طرح محبت کرے، جس طرح ثروت درخت سے محبت کرتا ہے تو دنیا کے جملہ ممالک ایٹم بم پھینک کر گندم کو اُگانے اور پانی کو محفوظ کرنے کی سبیل پیدا کر سکتے ہیں۔ ثروت کی شاعری انسانیت کو جوڑنے والی شاعری ہے۔ نفاق نام کو نہیں۔ ثروت کے پاس چیزوں سے محبت کرنے سے فرصت ہو تو وہ نفرت کے لیے وقت نکالے۔

بارشوں میں

ٹہنیاں بادل نہ ہو جائیں کہیں

بستیاں اوجھل نہ ہوجائیں کہیں

لڑکیاں پاگل نہ ہوجائیں کہیں

یہاں اس جگہ اس نظم میں کوئی مابعد جدید مفکر لڑکیوں کے پاگل ہونے کے معانی سچ مچ کا پاگل ہونا سمجھ کر ثروت کو نسوانی احترام سے عاری فرد قرار دے سکتا ہے مگر یہاں معاملہ نشاط کی ایک لہر سے ہے۔ ایک بے خودی جو ابر کے برسنے سے کائنات کی ہر چیز پر طاری ہو جاتی ہے۔

ثروت فطرت کا حدی خواں ہے۔ وہ انسان کو بھی مظاہر کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ اُس کے نزدیک انسان الگ سے کوئی شے نہیں بلکہ دنیا میں موجود دیگر چیزوں کی طرح سانس لینے والا ایک مظہر ہے۔ اِس مظہر سے ثروت توقع رکھتا ہے کہ وہ صلہ رحمی اختیار کرے جس کے طفیل اُس کا کائنات میں مختصر سا قیام پُر امن اور بامعنی ہو اور اِس کے لیے ثروت محبت کا اسمِ اعظم تجویز کرتا ہے۔

وصال

خوشبو کی آواز سنی

غنچۂ لب کے کھِلتے ہی

پانی پر کچھ نقش بنے

پرتوِ شاخ کے ہِلتے ہی

ساری باتیں بھول گئے

اُس سے آنکھیں مِلتے ہی

چاہت

آدمی، پیڑ اور مکان

صاف نیلا آسمان

سنگ ریزے اور گلاب

سب کے سب اچھے لگے

اُس کے گھر جاتے ہوئے

یہ گیت تمھارا گھر

آنکھوں سے زیادہ گہرا

کرنوں سے گرم سنہرا

آوازوں سے تروتازہ

تاروں سا بے اندازہ

یہ گیت ___تمھارا گھر ہے

محبت کی شاعری ایسے بھی کی جا سکتی ہے۔ سراپا نگاری میں بے پیرہنی اور سب کچھ ہوگا، شعر نہیں ہوتا۔ یہ کام ہی پردہ داری کا ہے۔ ایک نیم وا در ہے جس کی اوٹ سے ابلاغ کی دنیا کو رنگوں اور روشنیوں سے منور کیا جاتا ہے۔ شاعری میں محبوب کے نقش ایسے نہیں تراشنے چاہییں جیسے کوئی بیوپاری اپنے مال کی خوبیاں بیان کرتا ہے مگر یہ سلیقہ کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ثروت جیسے شاعر اپنے دھیان میں دنیا دیکھتے ہیں۔ دنیا جسے ثروت نے چھوڑ دیا۔ وجود جسے وہ رزم گہ کہتا تھا، اس سے اپنی جان چھڑا لی۔ آٹھ کروڑ مسخروں سے دور چلا گیا۔ (اُس وقت ہماری آبادی آٹھ کروڑ تھی، یہ 1981ء کی بات ہے جس میں مردم شماری کے مطابق کل آبادی غالباً آٹھ کروڑ چھتیس لاکھ تھی جو آج اکیس کروڑ ستر لاکھ تک جا پہنچی ہے) کتنا کرب ہے ثروت کی موت میں! اس کرب کی پرچھائیاں اُس کی غزلوں سے ملتی ہیں۔

سینے میں آگ جہنم سی

اور جھونکے باغِ اِرم ایسے

رزم گہِ وجود میں آنکھ نہیں جھپک سکا

یورشِ بادِ واپسیں مجھ پہ چہار سُو سے ہے

آپ تصور کریں کوئی کتنے کرب سے گزرا ہوگا جب اُس نے یہ شعر کہے ہوں گے۔ شعر پڑھنے کی تہذیب ہی یہ ہے کہ آپ کچھ وقت کے لیے موجود چھوڑ کر شاعر کی دکھائی ہوئی دنیا میں چلے جائیں، وہاں آپ کو وہ کچھ ملے گا جو آپ کو نہال کر دے گا مگر یہ آئینہ صفت کلام ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ محمد سلیم الرحمٰن نے، جو ثروت حسین کے پہلے پہلے گواہوں میں سے ایک ہیں، ثروت کی کتاب ’’آدھے سیارے پر‘‘ کے پس ورق پر لکھا تھا:

’’اس مجموعے کے لفظوں اور خیالوں میں ایک ستھری چمک ہے۔ جیسے انھیں دیر تک دھویا اور دھوپ میں رکھا گیا ہو۔ اس سے بوئے طفلی آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے اِس شاعری کا گردوپیش ابھی ابھی تخلیق کیا گیا ہے اور شاعر اس کے رنگوں کی تازگی اور کوری باس کو لفظوں میں اتارنا چاہتا ہے۔ عقلیت اور دانشوری کا سکہ یہاں نہیں چلتا۔ ثروت کی شاعری احساس او ر جذبے کی فضا میں سانس لیتی ہے۔ بھلا سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر، پیار کون کرتا ہے؟‘‘

عاقل اور دانش ور اِس رائے پر بھی دانش وری دکھانے سے باز نہ آئے اور اپنی پہچان کروا کر رہے۔ کہا کہ بوئے طفلی سے محمد سلیم الرحمٰن کا اشارہ ثروت کی شاعری کے بچگانہ پن کی طرف ہے۔ لاحول ولا قوۃ، یہاں اشارہ اُس خوشبو کی طرف تھا جو وقتِ ولادت بطنِ مادر سے جدا ہوتے ہی بچے کے جسم سے نمودار ہوتی ہے۔ اور یہاں اصطلاحی معنوں میں مراد ثروت کی تشبیہات، استعارات، تلازمات کے نئے پن کی طرف تھا۔ اِن سب شعری لوازموں میں نیا پن ہے جو ہاتف کی طرف سے ثروت کو دان ہوا ہے۔

میں تمھیں یاد کر رہا تھا

جب درخت خاموش تھے

اور بادل شور کر رہے تھے

میں تمھیں یاد کر رہا تھا

جب عورتیں آگ روشن کر رہی تھیں

میں تمھیں یاد کر رہا تھا

جب میدان سے ایک بچے کا جنازہ گزر رہا تھا

میں تمھیں یاد کر رہا تھا

جب لوگ عبادت گاہوں کی طرف جا رہے تھے

میں تمھیں یاد کر رہا تھا

جب دنیا میں ہر شخص کے پاس ایک نہ ایک کام تھا

میں تمھیں یاد کر رہا تھا

یاد کے قیدیوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ کوئی ایک نام، لمحہ، منظر، مکالمہ، پیکر ایسے دل کے حجرے میں آن بیٹھتا ہے کہ سارہ شگفتہ، شکیب جلالی، شبیر شاہد، ثروت حسین کی طرح پاؤں زمین پر نہیں لگتے اور یاد کا اِکتارا بجتے ہی بستی چھوڑ دل ویرانہ اختیار کرتا ہے۔ آخر اس طرح کے شعر یوں ہی نہیں لکھے جاتے:

پھولوں سے بھرے کنج تو اک خواب ہی ٹھہرے

یہ سایۂ دیوارِ خزاں ہے مگر اپنا

…..

آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے

گزر گئی ہے عجب سواری یادوں والی

….

لڑکی کوئی گھاٹ پر کھڑی تھی

پانی پہ چراغ جل رہا تھا

…..

کسی کے شہر میں مانندِ برگِ آوارہ

پھرے ہیں کوچہ بہ کوچہ ہم اپنے خواب لیے

دل میں رکھ لو کوئی کرن ثروت

اور تا صبح میزبان رہو

کرن کی اس میزبانی نے ’’آدھے سیارے پر‘‘، ’’خاکدان‘‘ اور ’’ایک کٹورا پانی کا‘‘ کی نظم، غزل، وائی، کافی اور نعت کو اتنا ثمر آور کردیا ہے کہ اس سے کتنی تنہائیاں آباد ہورہی ہیں۔ ’’آج ‘‘ کراچی نے ساری تنہائیاں ایک جگہ اکٹھی کر کے چھاپ دی ہیں۔ ثروت مرا نہیں۔ وہ کائنات کو لفظ کی تکریم سے روشناس کروانا چاہتا تھا۔ جو لوگ لفظ سے محبت کرتے ہیں، لفظ کی سچائی انھیں مرنے نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).