منٹو اور ان کا ٹائپ رائٹر


اردو کے مایہ ناز ادیب سعادت حسن منٹو جہاں ایک منجھے ہوئے صاحب اسلوب افسانہ نگار تھے وہیں وہ زمانے سے ہم آہنگ ہونے والے جدید ذہن کے مالک بھی تھے۔ نئی ایجادات کے منٹو نہ صرف مداح تھے بلکہ انہیں برتنے کا فن بھی جانتے تھے۔ اردو ادب میں متعدد جگہ منٹو کے ٹائپ رائٹر کا تذکرہ ملتا ہے اور بعض جگہ منٹو نے خود بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ”ہم سب“ پہ شائع شدہ ایک مضمون

https://www.humsub.com.pk/211955/zulfiqar-khan-2/

میں صاحب مضمون نے لکھا کہ منٹو کا ٹائپ رائٹر ایک عرصہ تک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں موجود تھا پھر نجانے کہاں چلا گیا۔

اس ٹائپ رائٹر کی کہانی تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے۔ آئیں ذرا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس ٹائپ رائٹر کے متعلق تفصیل ہمیں مشہور لکھاری ”شاہد احمد دہلوی“ کے ایک خاکے ”منٹو“ میں ملتی ہے۔ شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں :

” دلّی ریڈیو اسٹیشن پر جنگ کے زمانے میں ادیبوں اور شاعروں کا بڑا اچھا جمگٹھا ہو گیا تھا۔ احمد شاہ بخاری (پطرس) کنٹرولر تھے، خبروں کے شعبے میں چراغ حسن حسرتؔ اور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروگرام کے شعبے میں ن۔ م۔ راشد۔ انصار ناصری، محمود نظامی اور کرشن چندر۔ ہندی کے مسودہ نویس اوپندر ناتھ اشکؔ، اور اردو کے منٹو اور میراجی تھے۔ اس زمانے میں منٹو کو بہت قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔

منٹو نے کچھ روپے جمع کر کے دو ٹائپ رائٹر خرید لئے، ایک انگریزی کا اور ایک اردو کا۔ اردو کا ٹائپ رائٹر وہ اپنے ساتھ ریڈیو اسٹیشن روزانہ لاتے تھے۔ منٹوؔ کے ذمہ جتنا کام تھا اس سے وہ کہیں زیادہ کرنے کی خواہش مند رہتے تھے۔ روزانہ دو تین ڈرامے اور فیچر لکھ دیتے۔ لکھنا تو انہوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا تھا، کاغذ ٹائپ رائٹر پر چڑھایا۔ اور کھٹا کھٹ ٹائپ کرتے چلے جاتے۔ فیچر لکھنا اس زمانے میں بڑا کمال سمجھا جاتا تھا، مگر منٹو کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ذرا سی دیر میں فیچر ٹائپ کر کے بڑی حقارت سے پھینک دیا جاتا کہ۔

”لو، یہ رہا تمہارا فیچر! “

منٹو کی اس تیز رفتاری پر سب حیران ہوتے تھے۔ چیز ایسی جچی تلی ہوتی کہ کہیں اُنگلی دھرنے کی اُس میں گنجائش نہ ہوتی۔ ”

گورنمنٹ کالج یونورسٹی لاہور کے نوادر خانہ میں جہاں بہت سے مشاہیر کی نوادرات رکھی ہیں وہیں ایک ٹائپ رائٹر بھی منٹو سے منسوب اس نوادر خانے کا حصہ ہے۔ مبینہ طور پر یہ سعادت حسن منٹو کا وہی ٹائپ رائٹر ہے جس کا تذکرہ شاہد احمد دہلوی نے اپنے خاکہ میں کیا ہے۔ یہ ٹائپ رائٹر ساقی فاروقی نے افتخار عارف کے ذریعہ گورنمنٹ کالج کو بھجوایا جو ان کے بقول ن م راشد نے منٹو سے خریدا تھا۔ ساقی فاروقی کی ایک مختصر تحریر بھی اس پہ درج ہے جس کے مطابق اردو کا یہ مشہور ٹائپ رائٹر ن م راشد نے سعادت حسن منٹو سے خریدا تھا۔ شیلا راشد نے اپنے مرحوم شوہر کی خواہش پہ اسے ساقی فاروقی کے حوالے کردیا۔ ساقی فاروقی نے یہ ٹائپ رائٹر افتخار عارف کے ذریعہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سپر کردیا جو، اب یونیورسٹی کے نوادر خانہ میں محفوظ ہے۔

اس حوالہ سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ٹائپ رائٹر منٹو کا نہیں ہے۔ اگر ہم اس ٹائپ رائٹر پہ درج جائے فروخت اور اس کے سیریل نمبر کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹائپ رائٹر 1958 میں جرمنی کے ایک شہر ”ولہائم سہیون“ میں تیار ہوا تھا۔ یہ ریکارڈ انٹرنیٹ پہ موجود ٹائپ رائٹر کے آن لائن Database میں موجود ہے جہاں پہ سیریل نمبر کے حساب سے ہر کمپنی کے جملہ ٹائپ رائٹرز کی تاریخ دیکھی جاسکتی ہے۔ گورنمنٹ کالج میں موجود ٹائپ رائٹر Olympia کمپنی کا ہے جس کی مصنوعات جرمنی میں تیار ہوتی تھیں۔

اس ٹائپ رائٹر کا سیریل نمبر 924301 ہے۔ جب ہم اس سیریل نمبر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹائپ رائٹر 1957 میں تخلیق ہوا تھا جبکہ منٹو تو 1955 میں وفات پا چکے تھے۔ اگر اس سیریل نمبر کے ڈیٹا کو مانا جاے تو یہ ٹائپ رائٹر منٹو کا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ٹائپ رائٹر پہ درج تختی کے مطابق اس ٹائپ رائٹر کو امریکہ کے شہر نیویارک میں فروخت کیا گیا تھا۔ اس امر سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید یہ ٹائپ رائٹر ن م راشد کا ہے جو انہوں نے امریکہ میں اقوام متحدہ میں ملازمت کے دوران خریدا تھا۔ ٹائپ رائٹر پہ موجود تختی کے مطابق یہ ٹائپ رائٹر جرمنی میں اولمپیا کمپنی نے تیار کیا اور اسے امریکہ میں درآمد کرنے والی کمپنی کا نام intercontinental trading corporation تھا۔

اب جبکہ یہ بات واضح ہوگئی کہ گورنمنٹ کالج میں موجود ٹائپ رائٹر منٹو کا نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعادت حسن منٹو کا ٹائپ رائٹر جس کا تذکرہ ہمیں اردو ادب میں ملتا ہے کہاں ہے؟ اس کا جواب ہمیں منٹو کی صاحبزادی نصرت جلال کے پاس سے ملتا ہے کیونکہ نصرت جلال صاحبہ کے پاس بھی ایک ٹائپ رائٹر ہے جو ان کے بقول منٹو کا ٹائپ رائٹر ہے جو انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کے دوران خریدا تھا (یہ بات نصرت صاحبہ نے بی بی سی اردو کو انٹرویو میں بتائی جہاں انہوں نے منٹو کا ٹائپ رائٹر بھی دکھایا) ۔

یہ وہی زمانہ ہے جس کا تذکرہ شاہد احمد دہلوی نے بھی کیا ہے۔ نصرت جلال کے پاس نہ صرف ٹائپ رائٹر محفوظ ہے بلکہ اس خرید کی رسید تک محفوظ ہے جس کے مطابق منٹو نے ہر ماہ چالیس روپے ادا کرنے تھے۔ نصرت جلال کے پاس موجود ٹائپ رائٹر (Remington) کمپنی کا ہے اور اس کا ماڈل 5 ہے۔ انٹرنیٹ پہ موجود Database کے مطابق یہ ٹائپ رائٹر تیس کی دہائی میں تیار ہوئے تھے۔ منٹو نے ٹائپ رائٹر غالبا 1940 کے قریب خریدا تھا۔ یاد رہے کہ 1955 تک ہندوستانی مارکیٹ میں ٹائپ رائٹر کے حوالہ سے (Remington) کی اجارہ داری تھی۔ یہ کمپنی ہندوستان میں ٹائپ رائٹر کے حوالہ سے مشہور کمپنی تھی اور مختلف زبانوں میں ٹائپ رائٹر بناتی تھی۔ منٹو کی بیٹی کے پاس اس کمپنی کا ٹائپ رائٹر ہونا اس حوالہ سے بہت اہم ہے کیونکہ سعادت حسن منٹو نے یہ ٹائپ رائٹر ہندوستان میں ہی خریدا تھا نہ کہ کسی نے انہیں باہر سے بھیجا۔

مسعود اشعر اپنے کالم میں لکھتے ہیں :

” سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی طرح اس کا ٹائپ رائٹر بھی ایک پریشان کر دینے والا مسئلہ بن گیا ہے۔ اصل میں یہ سارا قصہ اس طرح شروع ہوا کہ دس سال پہلے لندن میں رہنے والے ہمارے شاعر ساقی فاروقی نے ہمارے دوسرے نامور شاعر افتخار عارف کو ایک ٹائپ رائٹر دیا اور کہا کہ یہ سعادت حسن منٹو کا وہ ٹائپ رائٹر ہے جو اس نے ن م راشد کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔

ساقی نے کہا کہ راشدصاحب کے انتقال کے بعد یہ ٹائپ رائٹر میرے پاس آگیا ہے۔ اب اسے کسی ایسے ادارے کے سپرد کر دیا جائے جہاں یہ منٹو کی یادگار کے طور پر محفوظ ہو جائے۔ چنانچہ افتخار عارف بڑے طمطراق کے ساتھ وہ ٹائپ رائٹر لاہور لائے اور بڑ ے تام جھام کے ساتھ اسے جی سی یونیورسٹی کی لائبریری کے سامنے سجا دیا گیا۔ سب نے خوشیاں منائیں کہ چلو، منٹو کی ایک یادگار تو ملی۔ انتظار حسین بھی خوش ہوئے کہ منٹو کا ٹائپ رائٹر ہاتھوں ہاتھ ہوتا بالآخر لاہور پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں ن م راشد اور ساقی فاروقی دونوں کو مبارک باد دی کہ انہوں نے یہ ٹائپ رائٹر محفوظ رکھا اور اسے مناسب ادارے کے سپرد کر دیا۔

اس وقت کسی نے بھی یہ تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ ٹائپ رائٹر واقعی منٹو کا ہے بھی یا نہیں۔ صرف ایک شخص ایسا تھا جو کہہ رہا تھا کہ یہ ٹائپ رائٹر منٹو کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اور وہ تھا ہمارا اردو اور انگریزی کا شاعر اور افسانہ نگار ایرج مبارک۔ وہ اصرار کے ساتھ کہتا تھا کہ اس ٹائپ رائٹر کو الٹا کر کے تو دیکھ لو۔ یہ تو دیکھ لو کہ اس پر تاریخ کیا لکھی ہوئی ہے۔ منٹو کا انتقال 1955 میں ہوا تھا اور یہ ٹائپ رائٹر اس کے بعد کا بنا ہوا ہے۔

اس کی تصدیق کے لئے اصغر ندیم سید کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جی سی یونیورسٹی کے لائبریرین سے رابطہ کرے۔ اس نے رابطہ بھی کیا مگر وہاں سے اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ اب تک یہ مسئلہ ایسا ہی بنا ہوا تھا جیسے گھوڑے کے دانت۔ منٹو کے ٹائپ رائٹر کے بارے میں بھی سارے بحث مباحثے اسی طرح ہو رہے تھے مگر کسی خدا کے بندے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ منٹو کی صاحب زادیوں سے بھی پوچھ لیتے۔ یہ صاحب زادیاں لاہور میں ہی رہتی ہیں۔ اور ان صاحب زادیوں نے خود بھی کوئی بات نہیں کی۔ شاید وہ بھی تماشا دیکھتی رہیں۔

اب آخر کار واجد علی سید نے منٹو کی صاحب زادی نصرت جلال سے رابطہ کر کے یہ گتھی سلجھا دی ہے۔ واجد علی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وہ ٹائپ رائٹر جس پر منٹو اپنے افسانے اور ڈرامے وغیرہ لکھا کرتا تھا آج بھی ان کی صاحب زادی کے پاس ہے حتیٰ کہ ان کے پاس وہ کنٹریکٹ بھی موجود ہے جس پر منٹو نے قسطوں میں یہ ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔ جو قسطیں ادا کی گئیں ان کی رسید بھی وہاں موجود ہے۔

اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ منٹو کا ٹائپ رائٹر ریمنگٹن کا ہے اور ن م راشد کے نام سے جو ٹائپ رائٹر جی سی یونیورسٹی کو دیا گیا ہے وہ اولمپیا کا ہے۔ یعنی منٹو نے راشد کے ہاتھ کوئی ٹائپ رائٹر فروخت نہیں کیا۔ چلو، واجد علی سید نے یہ گتھی تو سلجھا دی۔ مگر اب ایک اور گتھی پیدا ہو گئی ہے۔ ساقی فاروقی ایسے بے پر کی اڑانے والے تو ہیں نہیں کہ حامد کی ٹوپی محمود کے سر رکھ دیں۔ اگر انہوں نے اتنے وثوق کے ساتھ ن م راشد والی کہانی سنائی ہے تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ وہ یہ تو جانتے ہوں گے کہ ان کے بیان کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔ افتخار عارف کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساقی فاروقی نے ان سے جو کہا انہوں نے اس کا اعتبار کر لیا۔ مگر ساقی فاروقی کیا اپنی ”آپ بیتی پاپ بیتی“ کی طرح یہاں بھی کوئی چٹ پٹی کہانی گھڑ رہے تھے؟

واجد علی سید نے بہت اچھا کیا کہ وہ منٹو کی صاحب زادی تک پہنچ گئے۔ اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے منٹو کا ٹائپ رائٹر اور خریداری کے کاغذات دیکھ لئے۔ تو کیا اب وہ اتنی تکلیف اور بھی گوارا کر لیں گے کہ ساقی فاروقی کو لندن ٹیلی فون کر کے ان کا موقف بھی معلوم کر لیں؟ سنا ہے ساقی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے لیکن وہ یہ تو بتا دیں گے کہ کیا ن م راشد نے خود انہیں بتایا تھا کہ یہ ٹائپ رائٹر انہوں نے منٹو سے خریدا تھا؟

راشد کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے بلکہ خاصی بے تکلفی بھی تھی۔ افتخار عارف ایران میں ہیں۔ اگر واجد علی چاہیں تو ان کی مدد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ( بی بی سی اردو نے ساقی فاروقی سے رابطہ کیا تھا جس پہ انہوں نے وہی بات دہرائی جو ٹائپ رائٹر کے اوپر ان کی تحریر میں درج ہے کہ راشد نے یہ منٹو سے خریدا تھا) (ساقی فاروقی 19 جنوری 2018 کو انتقال کر گئے- مدیر)

کیا خیال ہے؟ اگر تحقیق کا دروازہ کھل ہی گیا ہے تو اسے اس کے منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچا دیا جائے؟ بہرحال، یہ تو طے ہو گیا کہ جی سی یونیورسٹی کی لائبریری کے سامنے جو ٹائپ رائٹر رکھا ہے وہ منٹو کا نہیں ہے، ن م راشد کا ہے۔ اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس ٹائپ رائٹر کا کیا کرے۔ ادب اور خاص طور سے منٹو کے قاری کو دھوکہ تو نہیں دیا جا سکتا۔ ”

ان شواہد سے ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں موجود ٹائپ رائٹر سعادت حسن منٹو کا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ ن م راشد کا ٹائپ رائٹر ہے جو کسی دانستہ یا نادانستہ غلطی کی وجہ سے منٹو کی طرف منسوب ہوگیا۔ اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ منٹو کی صاحبزادیوں سے رابطہ کرکے یہ تاریخی ٹائپ رائٹر گورنمنٹ کالج کی زینت بنایا جائے، وہی گورنمنٹ کالج جہاں منٹو طلبہ سے تبادلہ خیال کرتا تھا اور نیوہوسٹل میں یاروں کے ساتھ محفلیں جماتا تھا۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad