سِول یا فوجی ہر حکمران کی خواہش آزاد خارجہ پالیسی


ناکام، مایوس اور مستقبل سے خوفزدہ اشرف غنی نے پاکستان کے حوالے سے جو حالیہ بیان دیا ہے وہ نہ صرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ ٹیکنیکل طور پر اُن سِول ایکٹوسٹس کے خلاف بھی جاتا ہے جن کی حمایت میں وہ اپنا منہ سرخ کررہے ہیں کیونکہ اِس سے لگتا ہے کہ اُن سِول ایکٹوسٹس کو افغان ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اشرف غنی اپنے آپ کو افغانستان کا صدر کہتے ہیں لیکن دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ صرف کابل کے صدر ہیں۔

صرف ایک شہر پر اُن کی یہ صدارت بھی اُس وقت تک قائم ہے جب تک غیرملکی افواج اُن کی بیساکھیوں کا کام دے رہی ہیں۔ پاکستان کا حکمران سِول یا فوجی کوئی بھی ہو، اُس کے لاشعور میں آزاد خارجہ پالیسی ہی ہوتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ حکمرانوں کی یہ خواہش مختلف وجوہات اور حالات کی بناء پر کس حد تک مکمل ہوئی۔ اس کا ایک ثبوت پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ بھی ہے جس میں وہ پاکستان کے لئے آزاد خارجہ پالیسی والی اپنی خواہش اور اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ”آج کل“ آزاد ”خارجہ پالیسی کی بڑی رٹ لگائی جارہی ہے۔

” آزاد“ سے مراد ہے اپنے سوا باقی ہر ایک پر نکتہ چینی کرنے اور اسے برا بھلا کہنے کی آزادی لیکن ہم محض اس دکھاوے کے لئے کہ ہماری خارجہ پالیسی ”آزاد“ ہے، دوسروں پر ناحق نکتہ چینیاں کرنا نہیں چاہتے۔ ہماری خارجہ پالیسی کو قومی پالیسی ہونا چاہیے جس میں ہمارے اپنے فائدوں پر نظر رکھی جائے اور ان کے مطابق قدم اٹھایا جائے۔ ہمیں ظاہرداری اور اداکاری کی ضرورت نہیں، سکون اور سنجیدگی سے کام لینا ہے۔ دنیا آج کل مساوات کے لئے لڑرہی ہے، افراد کے درمیان مساوات، اقوام کے درمیان مساوات، خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، اس کے لئے ضرورت ہے کہ تمام دنیا صاف صاف اس بات کو تسلیم کرلے کہ ہرقوم مساویانہ حقوق اور مواقع کی مستحق ہے۔

دنیا کے ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کی ان کے رقبے یا وسائل کی بنیاد پر درجہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ یہ بڑی صاف سی بات ہے اور کوئی بھی اس سے انکار کی جرات نہ کرے گا لیکن اس اصول کو دنیا میں نافذ کرانے کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔ یہ دنیا بڑوں ہی کی دنیا ہے، خواہ وہ دو بڑے ہوں یا تین بڑے یا چار یا اور بھی زیادہ۔ یہی دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرتے اور اس کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ ہمیں امریکہ پر یہ بات واضح کردینی ہوگی کہ ہم اپنے مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر کس حد تک اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

چین کی عوامی جمہوریہ سے بیگانگی برتنا ہمارے مفاد کے خلاف ہے۔ اسی طرح سوویت یونین سے خوشگوار دوستانہ تعلقات قائم کرنا ہمارے مفاد کے حق میں ہے۔ چنانچہ امریکہ کو اس امر کا یقین دلایا جاسکتا ہے کہ چین کی عوامی جمہوریہ یا سوویت یونین سے ہمارے تعلقات ایشیاء میں امریکی مفادات کے خلاف نہیں ہیں۔ امریکہ ہمیں جو اقتصادی امداد دے اس کے بدلے میں ہم اسے اپنی خیرسگالی اور تجارت و صنعت کے میدان میں اشتراک عمل کے بڑھتے ہوئے مواقع پیش کرسکتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں وہ ہم سے کسی ایسی بات کی توقع نہ رکھے جس سے کسی تیسرے فریق کو نقصان پہنچتا ہو۔

اگر امریکی مسائل سے ہمارا ہمدردی رکھنا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا امریکہ کی عالمی پالیسی کے لئے سازگار ہے تو چشم ماروشن دل ماشاد لیکن اگر وہ اس سے زیادہ کا طلبگار ہو اور چاہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس سے کسی دوسری طاقت کے مفادات پر زد پڑتی ہوتو ہمیں اس مطالبے کو نامنظور کردینا ہوگا کیونکہ یہ خود پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ میں یہ جانتا تھا کہ ہمارے اس نئے طرزعمل کی بناء پر بعض اوقات ہمیں اس طرح کی صورت ضرور درپیش ہوگی۔

اس صورت میں ہمارے ملک کے ذمہ دار افراد کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سی بات قبول کریں۔ کسی بڑی طاقت کے دباؤ میں آکر اس کی بات مان لیں یا سیاسی، فوجی یا اقتصادی جو امداد بھی ملنے والی ہو اُس سے دستبردار ہو جائیں۔ اس کا آخری فیصلہ بہرحال پاکستان کے عوام کو کرنا ہوگا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اگر ہم اعتدال اور تدبر سے کام لیں تو اس قسم کا دوٹوک فیصلہ کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر اب سوویت یونین اور امریکہ کی وہ اگلی سی عداوت رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے اور آئندہ کئی برس تک یہ تینوں طاقتیں مختلف ملکوں میں اپنا اپنا حلقہ اثر قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہیں گی۔

ان میں سے کوئی طاقت بھی کسی ابھرتے ہوئے ملک سے پورے طور پر علیحدگی اختیار کرلینا یا اس کی دشمنی مول لینا پسند نہیں کرسکتی۔ بہرکیف ہمیں کسی دوٹوک فیصلے پر مجبور کیا جائے یا نہ کیا جائے، ہماری سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان بڑی بڑی طاقتوں سے صاف صاف کہہ دیں کہ ہم تمہارے جھگڑوں میں پڑنا نہیں چاہتے۔ ہم تو بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کی سلامتی اور عوام کے باہمی اتفاق اور ترقی کے لئے کام کرنے دیا جائے۔

ہم ان کے ساتھ اقتدار کی کشمکش میں شریک ہونے کے لئے کوئی سودا نہیں کرسکتے۔ عالمی طاقتوں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہمارا طرزعمل اس احساس پر مبنی ہے کہ ہماری بساط محدود ہے۔ ہمیں نہ تو اس کی خواہش ہے نہ مقدور کہ ہم ان کے جھگڑوں میں خود کو پھنسا لیں۔ ہم اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ ان کے فیصلوں پر اثر ڈال سکیں یا اُن کے مسائل کو سلجھا سکیں۔ چنانچہ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد یہ ہے کہ ہم سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں۔

بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ ہم اپنے اندرونی معاملوں کو سلجھائیں، اپنی قوم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا کریں، اُن کی بھلائی کے لئے کوشاں ہوں اور اپنی سیاسی اور نظریاتی انفرادیت کو برقرار رکھ سکیں۔ اسی مفاہمت کے دائرے کے اندر رہ کر ہم دوسرے ملکوں کی امداد کے جویا ہیں۔ ہم ان سے ایسے مطالبات نہیں کرنا چاہتے جن کا ماننا اُن کے لئے مشکل ہویا اُن کے مقدور ہی میں نہ ہو۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جلد اُس حیثیت میں آجائیں جہاں ہمیں زیادہ امداد کی ضرورت نہ رہے اور ہمارے مطالبات کم سے کم ہوتے چلے جائیں ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).