کالے ہیں تو کیا!


نوجوانی سے سنتے آئے کہ گورے رنگ پہ فخر کرنا اچھی بات نہیں اور اگر کوئی گورا نہ ہو تو اسے گندمی رنگت کے کھاتے میں گنِنا چاہیے تاکہ اُسے بُرا نہ لگے اور اگر آپ جو خودکوگورا سمجھ رہے ہیں خودکو اس سے مختلف بھی سمجھ سکیں۔ یہ کوئی پہلا تضاد نہیں جس کو ہم ساتھ لے کر چل رہے تھے یعنی دِل سے کچھ اور سمجھنا اورزبان سے کچھ اور ہی کہنا۔ کچھ کالے یہ بات سمجھ بھی گئے تو کہنے لگے کہ کالے ہیں تو کیا دل والے ہیں اور گورے رنگ پہ گمان کرنا بُری بات ہے کیونکہ یہ تو چار دِن کی چاندنی ہے پھر اندھیر ی رات ہے۔

ہرچیزکی ہنسی اُڑانا ہماراقومی مزاج ہے اور ہماری فقرہ بازی رنگ، نسل، پیشے، برادری اور مذہب کی آمیزش کے بغیر مکمل ہوہی نہیں سکتی۔ یہ ہماری ثقافت کے وہ پہلو ہیں جنہیں ہم کتابی اور اصولی طور پر لاکھ بُرا کہتے پھریں لیکن ہماری تہذیب چونکہ شاخِ نازک پہ نہیں بنی اور خاصی پائیدار ہے لہذا اِن تمام تضادات سے اِس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اِکادُکا واقعات جن المیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اُنہیں ہم مستنثیات کے کھاتے میں ڈال کر پتلی گلی سے نکل جانے پر زور دیتے ہیں۔

ہمارے کپتان (میری مراد ریٹائرڈ کپتان اور موجودہ وزیراعظم سے نہیں ) بھی اِسی ماحول میں پروان چڑھنے والے ایک کھلنڈرے سے کرکٹرہیں۔ جب اپنے بالروں کی سر توڑ کوشش کے باوجود جنوبی افریقہ کے بیٹسمین کا بال نہ بِیکا کر سکے اور بلے کا کنارہ لیتی ہو ئی گیند کو وکٹ کے ساتھ سے باونڈری کی طرف جاتا دیکھ کر بے بس ہوگئے تو ا ’نہوں نے وہی کیا اور کیا جو ہم ایسے مو قعے پہ کیا کرتے ہیں۔

سب سے پہلے وکٹ پہ جمے ہوئے کھلاڑی کے رنگ پر خالص جنوبی ایشیائی پھبتی کسی کہ۔ ”کالے“۔ ہمارے محبِ وطن حلقے اِس بات کا دفاع کرسکتے ہیں کہ کالے کو کالا کہنا حقیقت پسندی ہے۔ اِس سے زیادہ سچ کیا ہوسکتا ہے اورسرفراز کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ غصے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمارے کپتان نے کالے کی والدہ محترمہ کو یاد کیا اور اُن کی مصروفیات کا پوچھا۔ سرفراز کا خیال ہوگا کہ جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کی مائیں بھی اپنے بچوں کی بیٹنگ اور بالنگ کے دوران مصّلے پہ بیٹھ کر دم درود میں مصروف رہتی ہیں اور آج تو لگتا ہے کہ خالہ نے کوئی بھاری بھرکم وظیفہ پڑھ رکھا ہے کہ بیٹا کو ئی غلطی ہی نہیں کر پارہا۔

وسیم اکرم نے بھی کپتان ہونے کے ناطے سرفراز کا دفاع کیا ہے کہ اگر اس نے اردو میں ہماری نظریاتی اور ثقافتی حدود کا نقشہ ایک بے ضررفقرے سے کھینچ ہی دیا تھا تو ہمارے میڈیاکواِسے سب کے سامنے ترجمہ کرکے بتانے کی ضرورت ہی کیا تھی وہ تو اصل میں خود کلامی کر رہا تھا۔ ہمارے ایک اور کپتان رمیزراجہ نے میچ کے دوران بات کا مفہوم بیان کرکے ”وچلی گل“ سے جان چھڑوانے کی کو شش بھی کر ڈالی مگر بے چارے سرفراز کی شامت آنے سے نہ روک سکے۔

ہم پہلے ہی کہہ چُکے کہ کالے ہیں تو کیا دِل والے ہیں لہذا جنوبی افریقہ والوں نے تو کپتان کی معذرت قبول کر لی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُنہوں نے اِس بات پہ حیرت کا اظہار کیا ہو کہ پاکستانی اگر ہمیں کالا سمجھتے ہیں تو یہ بھی گورے انگریز کے غلام رہ چُکے ہیں لہذا یہ بات وہ ہماری حمایت میں ہی کہہ سکتے ہیں۔ دِل والے تو وہ تھے ہی لہذا اپنے کم کالے بھائی کہ معذرت کو حمایت سمجھ کے تسلیم کر لیا۔ مگر بُرا ہو آئی سی سی کے رچرڈسن کا کہ اُسے ہماری کالوں کے ساتھ بے تکلفی، بُری لگی اور اُس نے ہمارا خود کو گوراسمجھنے کا خواب چکنا چُور کردیا۔

ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ سرفراز کبھی دھوکہ نہیں دیتا مگر یہ بتانے والے بھول گئے کہ سرفراز کے ساتھ دھوکہ تو ہو سکتا ہے۔ کچھ ہمارے رویوں نے کیا اور باقی رچرڈسن نے کہ دَم پڑھے بغیر لکھ کر چار میچو ں کی پابندی لگادی۔ شعیب اختر نے باؤنسر پھینکتے ہوئے کہا کہ سرفرازسستے میں چھوٹ گئے۔ وہ درست ہی کہتے ہیں کیونکہ ان سے زیادہ نظم وضبط کی خلاف ورزی کے بارے میں کون جان سکتا ہے۔

امجد ممتاز خواجہ
Latest posts by امجد ممتاز خواجہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).