فسانہ ایک میٹرک فیل کا


کل سویرے میں آنکھیں مل رہا تھا کہ گاؤں سے ملک صاحب کا فون آگیا، ملک صاحب ہمارے عزیز اور بذلہ سنج دوست ہیں پر جلد یوں روٹھ جاتے ہیں جیسے ساس مر گئی ہو، ہیں قوم کے ابڑینڈ مگر بزورِ بندوق ملک صاحب کہلوانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، شاعر واعر ہیں، پڑھاتے وڑاھتے ہیں، چھوٹتے ہی بولے :۔ ”میاں بہت دن سے کراچی ہو، پر افسوس کہ ہمارے بھیا سے نہ ملے۔“ میں نے جھٹ کراچوی لہجہ اپنایا اور پوچھا:۔ ”اڑے وہ سالا رہتا کہاں ہے۔“ ملک صاحب اس پر بولے :۔ ”یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں کہاں رہتا ہے، پر تمہیں رابطہ بھیج رہا ہوں، ذرا بات کرو۔“ ملک صاحب نے نمبر بھیج دیا اور میں اپنے ایک سخن ور دوست عبدالرحمن مومن کے ہمراہ ساحل سمندر کی آوارگی کو نکل کھڑا ہوا۔ اول اول ہم مزار قائد گئے پر بوٹ والوں نے کاندھے پر لٹکے تھیلے پر قدغن لگائی کہ آپ یہ اندر نہیں لے جاسکتے، تو وہیں سے سوئے ساحل چلے کہ تھیلے یاں کس کے رحم و کرم پر چھوڑتے۔

ملک صاحب کے اس دوران پانچوں فون چھوٹ گئے مگر چھٹے کی گرفت غنیمت ہوئی تو بولے :۔ ”یار کہاں مرگئے، ابھی جا کر ملو، وہ انتظار بیٹھا ہے۔“ ساحل کنارے کالی تصویریں نکالتے جب شام ڈھلے ہم نکلے تو لکی ون شاپنگ مال پہنچتے خاصا وقت لگا۔ فون لگاتے ہی وہ سامنے آن کھڑا ہوا۔ ہمارے دوست ملک صاحب کی طرح نکلتا ہوا قد، سوکھا نکھرا منہ، فرانسیسی تراش خراش، بودوباش صاحب لوگوں کی، عمر سترہ اٹھارہ، ہوٹل منتظم کے لبادے میں وہ چمک رہا تھا۔

گلے چھوٹتے ہی اس نے ٹھیٹھ سرائیکی میں کہا:۔ ”شُکر اے تُساں آگئے وے۔“ ( شکر ہے تم لوگ آگئے ) ۔ پھر وہ زنانیوں کی طرح بانہیں ہماری بانہوں کے دائرے میں ڈالے لکی ون شاپنگ مال کے ایک حصے ہوڈی ( Howdy) میں لیے چلا۔ یاں ایک حصہ ریسٹورنٹ کی طرف اٹھتا ہے۔ داخلِ در ہوتے ہی یوں معلوم پڑا کسی غیر ملکی گھر میں گھس پڑا ہوں۔ ہائیں حسین و جمیل دوشیزائیں پر سچی بات یہ ہیں میں انہیں مشینی انسان سمجھتا ہوں۔ تھیڑ ہو پبلک پلیس ہو یہ منہ بسورے فلم دیکھتے گزر جاتیاں ہیں۔

ایک بار تھیٹر گیا تو وہاں بھی یہی دیکھا کہ فلم ادھر ادھر ہلے بغیر دیکھی، کینٹین گیا تو چپ چاپ کھاتا پیتا اور پھر کسی روبوٹ کی طرح انہیں نکلتا دیکھا، انہیں فطرت سے کوئی دلچسپی نہیں، بہرکیف اپنا وقت تصویر اترواتے یوں بیتا کہ قریب قریب ہر نقشے کی تصویر کھینچ گئی۔ ہمارا دوست برابر حکم چلا رہا تھا۔ معلوم ہوا وہ یہاں منیجر ہے۔ ”منیجر ہے، وہ کیوں؟“ ایک لہر اندر سے اٹھی اور تڑپنے لگی، ٹھیٹھ سرائیکی میں پوچھا:۔

” کیوں وے توں لم وہیندا ہاویں، منیجر کیویں لگ گئیں۔“ (تمہاری تو کسی زمانے ناک بہتی تھی، منیجر کیسے بن گئے۔ ) اس پر ایک زبردست قہقہ پڑا اور وہ ہمارے قہقے میں شامل ہوگیا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ وہ حکم چلا رہا تھا، اور دیگر ملازمین سر جھکائے جی سر جی سر کی گردان کر رہے تھے۔ میں یہ معاملات بھانپنے کے لیے بے کل تھا کہ معاً اس نے کہا :۔ ”آو جُلوں تہاکوں پلازے دی سیر کرواوں۔“ ( آو چلیں اور پلازے کی سیر کریں ) باہر نکل کر دیکھا تو کافی پھیلتا ہوا پلازہ تھا۔

وہ ہمیں فوڈ کورٹ اور ایک سٹریٹ فوڈ لیے پھرا۔ یہاں ضروریات زندگی کا ہرسامان میسر ہے یاں تک کہ سبزی بھی مل جاتی ہے۔ جیولری چوڑی کپڑے گیند بلا تھیلے بڑے تھیلے ہر قسم کی اشیاء دستیاب ہیں۔ ہم نے ایک جگہ رک کر 34 نمبر پتلون کی قیمت دریافت کی تو دکاندار صاحب پھٹ سا نی بولے :۔ ”پیتیس سو روپے۔“ بخدا یہ سنتے ہی پتلون ہاتھ سے لڑھک کر نیچے گر گئی۔ مجھے اس وقت چینی تاجر کی یہ بات بے طرح یاد آئی کہ اس طرح کے شاپنگ مالز امیروں کو لوٹنے کا اک بہانہ ہیں۔

” مگر یاں مجھے امیر کہلوانے میں کوئی مسرت نہ تھی کہ اندر کا چور پٹخ پٹخ کر کہہ رہا تھا :۔“ اڑے پرسوں ہی تو چارسو کی خریدی ہے پتلون۔ ”بہر طور ہم معذرت خواہانہ رویے اپناے آگے کود گئے۔ آگے وہی لفٹ تھی سو چڑھے اور تلے اتر کر اُسی ہوڈی آن ٹھہرے، احمد نے کھانے کا حکم دیگر بٹلروں کو جاری کیا اور اسی اثناء میں، مَیں نے پوچھا:۔“ کیوں بھئی تم تو سکول سے بھاگتے تھے، پھر یہ تبدیلی کیسے؟ ”اس نے مسکرا کر مگر کس قدر تاسف سے کہا :۔

”ہاں نہ پڑھنے کا افسوس ہے۔“ کچھ لمحے گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہوا تو پوچھا:۔ ”گاؤں سے اس ہوڈی جیسے ریسٹورنٹ کا منیجر بننے کی کیا کہانی ہے، کیا کوئی سفارش لڑائی؟“ وہ یہ سنتے ہی ایک بار پھر زیر لب مسکرایا پھر بولا:۔ ”نہیں ایسا تو قطعاً نہیں، واقعہ یہ ہے چار برس پہلے جب میٹرک کے امتحان ہوے، ان دنوں بیکار تھا، کسی نے بتایا کہ لاہور میں ایک ہاشوانی فاؤنڈیشن یہ کام سکھانا چاہتی ہے، تو میں چل پڑا۔“

اسی بات پر میں نے اسے ٹوکا اور کہا:۔ ”تمہیں تو پڑھنے کا شوق نہیں تھا، تم مر مرا کر پیپر دینے جاتے رہے اس طرف شوق کیسے ہوا پڑھنے کا۔“ وہ کھسیانی ہنسی ہنسا مگر پھر کس قدر سنبھل کر بولا :۔ ”ہاں مجھے پڑھنے کا شوق نہیں تھا، مگر وہ تو لاہور کو دیکھنے اور گھر سے نکل بھاگنے کا اک بہانہ تھا۔ اسی دوران تین ماہ آوارگی اور کچھ سیکھنے سکھانے میں بتا دیے، اس دوران پتا چلا کہ میرے میٹرک کے پریکٹیکل ہیں، میں نے جان بوجھ کر وہ چھوڑ دیے اور اسے دینے گاؤں نہیں گیا، نتیجتاً فیل ہوگیا۔

” یہ بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر مردنی چھا گئی، میں نے پوچھا:۔“ کیا میٹرک میں فیل ہوجانے کا افسوس ہے؟ ”اس نے کہا:۔“ ہاں بہت ہے، مگر میرا اب یہاں ہر کسی سے واسطہ پڑا ہے، سمجھ آگئی کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ”یہ سب سنتے ہوئے ایک خاص قسم کی اسٹیک نامی شے ہمارے کھانے کو آگئی۔ اس نے کانٹے چمچ منگوا کر اپنی بات جاری رکھی اور کہا :۔“ تین ماہ بعد لاہور کے ادارے نے ہمیں ڈگری دیے بغیر فارغ کردیا اور میں گاؤں لوٹ آیا۔

وہاں پھر سے بے کار رہنے لگا اور پچھتانے لگا کہ لاہور کی ہوا میں بہک کر کیوں پریکٹیکل دینے کا دھیان نہ کیا۔ مگر کچھ روز ہی بیتے تھے کہ پھر اسی ادارے کی کال آگئی، انہوں نے ان بیالیس امیدواروں کو طلب کیا جنہیں اس نے تعلیم دی تھی، انٹرویو ہوئے اور ہم بیالیس میں سے دو کو رکھ لیا گیا، میں منیجمنٹ کا کام جانتا تھا سو اس طرف نکل آیا، اور اول اول مجھے پی سی (پرل کائنینٹل) ہوٹل لاہور بھیجا گیا۔ کچھ عرصہ قبل جب یہ لکی شاپنگ مال کی پہلی برانچ کھلی تو مجھے وہاں بھیج دیا گیا۔ ”

ہم اس چٹپٹی شے کو کانٹوں سے اڑا کھاتے رہے، جہاں چپ بنتی نیا سوال چھوڑ دیتے تھے، سو ایک سوال اور داغ دیا۔ ”گاؤں میں تو لوگ آپ کو برے لفظوں میں یاد کرتے ہوں گے کہ ملک صاحب کا بھائی برتن مانجھتا ہے کراچی کے ہوٹل میں؟“ یہ سوال ایسا تھا کہ میں اس کے تحمل کابار دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن وہاں کس قدر معصوم مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ اس نے رک کر مگر کس قدر اطمینان سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا:۔ ”ہاں میں نے برتن بھی دھوئے، گٹر بھی صاف کیے، صفائیاں بھی کیں، کام جس کسی کا تھا، وہ غیر حاضر ملا تو اپنے ہاتھوں سے اس طور کیا کہ مالک تو مالک گاہک کو تکلیف نہ ہو، ہم گاہک سے اوے توئے کہہ کر بات بھی نہیں کرسکتے۔“

میں نے اسی بات پر ٹکڑا لگایا:۔ ”کیا نوکری جانے کا ڈر ہے؟“
” نہیں ایسا بالکل بھی نہیں، میں کام اس لیے ایمانداری سے کرتا ہوں کہ یہاں لوگ آتے رہیں اور ہوڈی کی رونق بڑھتی رہے، اس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں مالک کی نظر میں معتبر ہوگیا ہوں، جہاں ہوڈی کی برانچ کھلتی ہے، وہاں منیجر بنا دیا جاتا ہوں، اور نگرانی کرتا ہوں۔“ اس نے اشارہ کام کرتے بٹلروں کی طرف کیا اور کہا :۔ ”خدا سے ڈر کر کہتا ہوں، یہ جتنے بھی ورکر ہیں میری نگرانی میں کام کرتے ہیں، میں ان کا ہیڈ ہوں۔اپنی تنخواہ معقول ہے، روٹی رہائش فری ہے۔ “

یہ سب سنتے ہوئے میں حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔ میں نے پوچھا :۔ ”زندگی سے مطمئن کتنا ہو؟ “ بولا:۔ ”الحمدللہ، بہت مطمئن ہوں مجھے کیا چاہیے؟ کچھ بھی نہیں، تمہارے سامنے کی بات ہے، تمہیں جہاں جہاں گھماے پھرا لڑکی ورکر ہویا لڑکا سلام سر سلام سر کی پکار ہے، مجھے اور کیا چاہیے؟ کچھ بھی نہیں، میں محنت کر رہا ہوں اور خوب کر رہا ہوں، مگر۔ “ ایک دم اس نے کہا:۔ ”کسی طور میرا میٹرک میں داخلہ بھجوا دو، تعلیم بہت ضروری ہے۔ میں وقت بچا بچا کرپڑھنا چاہتا ہوں، پرائیویٹ امتحان دینا چاہتا ہوں۔ “ ہم اس بات پر بہت خوش ہوئے اور رخصت لیتے ہوئے اسے ماہنامہ ساتھی کے معاون مدیر عبدالرحمن مومن کے سر تھوپا کہ:۔ ”کراچی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے دفتر کا کھوج لگاؤ اور بچے کا میٹرک کا داخلہ بھجواؤ۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).