آئیں اپنی بہن، بیٹی کو بھی وڑانگہ بنائیں


ارمان لونی ایک استاد، شاعر، روشن فکر اور امن پسند انسان ہونے کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات کا علمبردار تھا۔ وہ نہ صرف انسانی حقوق اور برابری کی بات کرتا تھا بلکہ اس کی مثال قائم کی۔ اپنی چھوٹی بہن وڑانگہ کو اپنے ساتھ شانہ بشانہ ہر میدان پہ اگے لے کر ائے اور اسے ہمت اور حوصلہ دیا۔ ارمان جیسا انسان صدیوں میں ایک پیدا ہوتا ہے۔ عام طور پہ یہ ایک عام سی بات لگتی ہوگی لیکن ارمان جس معاشرے سے تعلق رکھتا ہے وہاں پہ یہ بہت بڑی بات ہے۔

پشتون معاشرے کو وقت اور حالات نے اتنا دقیانوس اور قدامت پرست بنا دیا ہے کہ لوگ اپنی بہن بیٹی کا نام بتانا گوارا نہیں کرتے۔ بقول ایک دوست کہ ہماری بہن اگر لندن بھی پڑھنے جائے پھر بھی ہم اس کا نام لینے سے کتراتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں اپنی بہن کو مزاحمتی سیاست کا حصہ بنانا اور اس کو انسان دوستی، انسانی حقوق، اور برابری کا درس دینا کسی جہاد سے کم نہیں۔ وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں پہ اداروں کی انا انسانی زندگیوں سے کئی گنا مقدس ہے۔

جہاں پہ حق کے لیے آواز نہ صرف دبائی جاتی ہے بلکہ خاموش کر دی جاتی ہیں۔ ہر آواز جو انسانی حق کے لیے اٹھائی جائے اس سے قومی مفاد خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اور خود ساختہ قومی مفاد کے اگے انسان کی جان کی کوئی قیمت نہیں اور اگر انسان کا تعلق پشتونوں سے ہو تو پھر تو سینکڑوں جانوں پہ ایک راؤ انوار کی وردی زیادہ بھاری ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں اپنی بہن کو مزاحمتی سیاست کا حصہ بنانا عام انسان کا کام نہیں۔

ارمان اور وڑانگہ لونڑی کا یہ سفر جن مشکلات سے گزرا اس کا کچھ ذکر وڑانگہ نے ارمان کی شہادت کے بعد کیا کہ کیسے ان کو ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ قبائلی مشران اور معاشرے کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اور اس کا خاندان آج بھی ان مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور شاید ارمان کے جانے کے بعد یہ مشکلات زیادہ ہوں۔

ارمان کی شہادت کے بعد اکثر پشتون نوجوان وڑانگہ کو یہ حوصلہ دیتے ہیں کہ ایک ارمان نہیں وہ بھی ان کے بھائی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشتون جوان وڑانگہ کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ وڑانگہ بہت بہادر اور نڈر لڑکی ہے۔ اسنے اپنے بھائی کی لاش پہ جس صبر اور حوصلے سے بات کی اور سب کو پرامن رہنے کی تلقین کی اور اس کے الفاظ اور باڈی لینگویج سے کہیں بھی نہیں لگا کہ وہ کمزور ہے یا ڈری ہوئی ہے یا پھر اس کے ارادے پست ہیں۔ وہ ہمت اور حوصلے کی مثال بنی۔

پشتون نوجوانوں کا وڑانگہ کا بھائی بننے کے اظہار سے زیادہ اہم وڑانگہ کے پیغام پہ عمل کرنا ہے۔ وڑانگہ ہر فورم پہ یہ پیغام دیتی ہے کہ اپنی بہن، بیٹی، بیوی اور ماں کو اس تحریک کا حصہ بنائیں۔ وہ کہتی رہی ہے کہ یہ تحریک صرف مردوں سے مکمل نہیں ہو گی بلکہ خواتین کو اس تحریک کا حصہ بننا پڑے گا۔ وڑانگہ کی حوصلہ افزائی کرنا اس کی اصل طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے اپنی گھر کی خواتین کو آگے لانا ہوگا۔ کسی بھی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ جدوجہد کریں۔

بقول سائیں کمال خان شیرانی کہ پشتونوں کی تحریک کی پیچھے رہنے کی ایک سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں خواتین کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم سب کو بیان بازی سے آ گے آکر عملی طور پہ ثابت کرنا ہوگا۔ اور ارمان کے اس اقدام کو خراج عقیدت پیش کرنے اور وڑانگہ کو حقیقی معنی میں طاقت اور حوصلہ دینے کے لیے اپنے گھر کی خواتین کو بھی یہ بیداری، ہمت اور حق دینا پرے گا کہ وہ وڑانگہ کے ساتھ اس تحریک کا حصہ بنیں۔ ارمان ایک انمول انسان تھا۔ ارمان جیسا بھائی بننے کے لیے اور ارمان کا ارمان پورا کرنے کے لیے ہمیں اپنی بہن کو وڑانگہ بنانا ہوگا۔ وڑانگہ کا ساتھ دینے کے لیے اس کے مشن کو آ گے بڑھائیں اور عہد کریں کہ ارمان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنانے کے لیے وڑانگہ کا ساتھ دیں گے، چاہے انجام کچھ بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).