بوٹ، تابوت اور ارمان


وہ خاموش رہی مگر اُس کے آنسؤوں کی روانی میں وہی کہانی تھی جو دریدہ دل، لرزیدہ زبان پہ ہوتی ہے۔ تہہ در تہہ، گنجلک جس کی جڑیں کئی تہذیبوں سے ٹکراتی ہیں۔ جہاں سے حقوق کی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ وہ انھی شاخوں کی آبیاری پہ مامور تھی۔ اِس سے قبل اُسے علم نہیں تھا کہ خون پانی سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے۔ جب علم ہوا تب وہ اپنے سارے خاندان سمیت گردن تک لہو کے دریا میں ڈوب چکی تھی۔ یہ انسانی فطرت ہے وہ حقوق کے لیے ہاتھ پاؤں چلاتا ہے۔ سو اس نے بھی چلائے۔ وہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر چادر لپیٹے مظلوموں کے حق میں کھڑی ہو گئی۔ اُس دن روشنی کی پہلی کرن اس کے ماتھے سے پھوٹی۔ اس نے شور زدہ افکار کی زمین پہ حُبِ امن کے سفید بیج بوئے۔ جہاں سے اس کا جنم ہوا، کہتے ہیں اُس بستی کی عورتوں کا کھڑکیوں سے جھانکنا بھی گناہِ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ وہ تہہ خانوں میں پرورش پاتی ہیں اور پھر زیرِ زمین خاموشی سے دفنا دی جاتی ہیں۔ اس نے یہ سارے حقائق غلط ثابت کر کے دکھائے۔ کیونکہ اُس کی پشت پناہی اس کا ارمان کر رہا تھا۔ ارمان جو مزاحمتی اشعار کی امن پرست زمین تھا۔

ارمان کہ جس کے اپنے بہت سے ارمان تھے۔ سب ٹھنڈے ہو گئے۔ بالکل اس کے ماتھے کی طرح جس پہ اس کی ماں نے نہایت تحمل سے جھریوں زدہ ضعیف ہاتھ رکھا اور کہا! ”کتنا ٹھنڈا ہے یہ“۔

وہ ٹھنڈ شکوے کی طرح اس کی بوڑھی ہڈیوں میں اترتی چلی گئی ہوگی۔ آخر ٹھنڈ کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ ایک دن وہ جمے ہوئے آنسو جب تنہائی میں پگھلیں گے تو وہ خود بھی ان کے ساتھ قطرہ قطرہ گُھلتی جائے گی۔

ارمان کی بستی پہ ایک زمانے سے زمینی خداؤں کا راج ہے۔ جن کو ارمان یا روشنی کی کسی کرن سے کوئی سروکار نہیں، ان کے مفاد زندگیوں سے زیادہ بڑے ہیں۔ وہ ساحلوں کو بیچ کر اس کے عوض محل بناتے ہیں اور مچھیروں کو کچل کر دریا برد کرنا جانتے ہیں۔ وہ پہاڑوں سے معدنیات کو لوٹنے کے لیے وہاں کے باسیوں پہ گھات لگا کر حملے کر کے انھیں ہجرتوں پہ مجبور کرتے ہیں۔ پھر ان پہ فساد کے الزام لگا کر ان کو اپنی مٹی سے محروم کر دیتے ہیں۔ فضا میں آج بھی تازہ خون کی باس ہے۔

وہ بت بنی ساکت بیٹھی تھی۔ ایمبولینس اتھاہ تاریکی میں ایک لاش اور دو ساکت مجسموں کو لیے پہاڑی راستے پہ دوڑتی گھر کی جانب رواں تھی۔

گھر؟ گھر تو گھر والوں سے آباد ہوتے ہیں۔ جہاں دو بچے ایک سائبان سے محروم ہو چکے تھے۔ اسے کوئی گھر کیسے کہہ سکتا ہے۔ ہاں وہی ماتم کدہ ایمبولینس کی منزل تھی جہاں ایک بیوہ مُردہ شوہر کی منتظر تھی۔ ان کی بستی میں عرصہ ہوا وقت رک چکا تھا۔ آج بھی وہ زمانہ قدیم کے اسی دور میں جی رہے تھے جہاں بادشاہ گرہن کے خوف سے دیوتا کے سامنے رعایا کے کسی زیرک فرد کو چن کر اس کی قربانی دیتا ہے۔ سب مظلوم کو اپنی آنکھوں کے سامنے بے گناہ مرتا دیکھ کر بھی چپ سادھے اس ڈنڈے سے ڈرتے ہیں جو مطلق العنان نے ہاتھوں میں دبا رکھا ہوتا ہے۔ اس عصا سے بندھی کھوپڑیاں اب اس قدر زیادہ ہو چکی ہیں کہ شاید اب سورج اور چاند خود اس ظلم پہ بول پڑیں۔

ارمان کی کھوپڑی بھی اس عصا سے باندھنے کے لیے اب تیار تھی۔ سنا ہے اس کے دماغ کو بھی باقی رعایا کی طرح سپاہی اپنے تسموں سے باندھنا چاہتے تھے۔ مگر وہ راضی نہیں ہوا۔ اور نتیجہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب کیا ہو سکتا تھا۔ دو عورتیں بھلا گورکن کیسے ہو سکتی ہیں مگر بنا دی گئیں۔

کیونکہ ارمان کے جنازے کو روک دینے کا عندیہ جاری ہو چکا تھا۔ رات ڈھلنے سے پہلے سبھی راستے بند ہو جانے تھے۔ پھر سحر ہوتے ہی وہی آسیب ان ماتم زدہ گلیوں میں کرفیو نافذ کریں گے جو بستی والوں کے جوان جہان مرد زندہ نگل جاتے ہیں۔ بستی کے لوگ ردِ بلا کے تعویذ لکھ لکھ تھک چکے ہیں۔ جن کو بچے، بوڑھے اور مائیں گلے میں لٹکا کر پوچھتی ہیں ان کے سائبان کہاں گئے؟ ان کے ماتھوں پہ دکھ کی سِلوٹوں سے گنجلک جال بن چکے ہیں۔

کرب جسے چھپاتے چھپاتے خود کرب ایک مجسم وجود بن کر ان کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے مگر گمشدہ نوجوانوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ تلاش کرنے والوں کا ہجوم جب جمع ہوتا ہے تو صرف یہی سراغ ملتا ہے کہ سبھی لاپتہ افراد میں دو باتیں مشترک تھیں۔ سب کی زبان ایک جیسی تھی اور اُن سب کی پشت پہ ایک ہی نسب کی مہریں ثبت تھیں۔ ارمان اس کرب کو سہلانے کے لیے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے ان ہجوم میں جا گھسا تھا۔ مگر بادشاہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔

کہیں اس پاداش میں پھر سے گرہن نہ لگ جائے۔ وہ اسے احتجاجی ریلے سے اٹھوا کر مقتل میں بلوایا۔ جبکہ وہ جانتا تھا۔ گرہن احتجاج کرنے سے نہیں ظلم کرنے سے لگتے ہیں۔ بادشاہ یہ بھی جانتا تھا ظلم سے باز آیا تو اس کی دھاک دور ہو جاتی۔ اور تعصب ختم ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ تعصب جس کو ہوا دے کر اس نے مزید سو سال حکمرانی کے خواب دیکھ رکھے ہیں۔ ایمبولینس گھر پہنچ چکی۔ افسوس۔ وہ افسردہ تھی۔ اس کا ایک نعرہ امن اس کے لبوں سے چھین کر خون آشام درندے نے ساکت کر دیا۔ وہ بھی تو اس کے ساتھ اسی ہجوم میں مل کر آواز اٹھاتی تھی۔ آج لاش اٹھا لائی۔ شہید کے کم سن بچے باپ کی مرگ سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن اتنا جان گئے ہیں کہ ان کے اباّ کی گردن ایک دیو نے مروڑی ہے۔

ان کو کیا پتہ آسیب جھاڑ جھنکار سے دفع نہیں ہوتے۔ ان کو بوتل میں بند کرنے کے لیے اتحاد ضروری ہے۔ تر نوالہ بننے سے بہتر ہے کنارے لگ جائیں۔ ورنہ خون کے سیلاب میں بہتے بہتے نابود ہو جائیں گے۔ پر اُس کی سوچیں تو آسیب سے ماورا نکلیں۔ وہ درد کو درد سے مات دینے کے بجائے مرہم کی دکان سجائے بیٹھی تھی۔ جیسے کوئی بوڑھی عورت حصار کھینچنے کو منتر پڑھتی ہے۔ وہ سب کو حوصلے کی تلقین کر رہی ہے مگر کہیں سے گزرے زمانوں کی ایک بازگشت ناصح بن کر اسے سمجھاتی ہے۔

سنو! تم چپ مت سادھو۔ ورنہ آنیوالی نسلوں کے ہونٹ پیدائشی سِلے ہوئے ہوں گے۔ مظلومیت بھی رنگت کی طرح جینز میں منتقل ہو کر نسل در نسل سفر کر سکتی ہے۔ وہ پھر بھی عدم تشدد کے نعرے لگاتی ہے۔ اور صبر کے گھونٹ بھرتی ہے۔ حیرت نہیں۔ اصل اور کم اصل میں یہی فرق ہوتا ہے۔ وقت آنے پہ کم اصل اپنی تھوک چاٹتے ہیں اور اصل ان کی الٹیوں پہ مٹی ڈالتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تعفن جب پھیل جائے تو کُوڑے کو آگ لگانی پڑتی ہے۔

دھوئیں کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اوپر اٹھ جاتا ہے۔ مگر غلاظت سے نجات تو دور ہو جاتی ہے۔ عفریت پولیتھین کے لفافوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کو راون کے پتلے کی طرح آزادی کی تیلی سے جلا دینا ہی مناسب ہے کیونکہ وہ ری سائیکل نہیں ہوتے۔ مگر آزادی کا لفظ کبھی اس کی زبان پہ نہیں آیا۔ وہ اپنی بستی کی امنیت پہ یقین رکھتی ہے۔ جیسے ارمان محض چند گزارشات لے کر گھر سے نکلا کرتا تھا۔ سُنا ہے وہ ابھی تک روئی نہیں؟ عجب ضبط ہے۔ ورنہ حقیقتوں کے پہاڑ جس بت پہ گریں وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ سوائے عظم کے ؛ تو یہ ایک وجودِ مجسم نہیں دراصل عظم ہے، آواز ہے، ایک نعرہ امن، ایک صدائے ناخدا اور آگہی۔

اور وہ۔ ۔ ۔ ۔ ارمان تھا۔ بھلا ارمان بھی کبھی مرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جن کے درد اور مسرتیں مشترک ہوتی ہیں وہی ایک دوسرے سے جُڑتے ہیں۔ صبح ہو چکی، گرمجوش ارمان کی سرد لاش جنازے کی منتظر ہے۔ شرکاء روک دیے گئے۔ مگر ہمسایہ بستی میں غم و غصے کی لہر دوڑ رہی رہی ہے۔ وہ نعرے جو پہلے کبھی نہیں لگے اب اعلانیہ لگ رہے ہیں۔ غائبانہ جنازوں کے لیے لوگ جوق در جوق جمع ہوتے ہوتے ایک کاروان بن چکے ہیں۔

پر وہ ارمان کی بستی میں داخل نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ان کے پاؤں باڑوں سے بندھے ہوئے ہیں۔

ان کے درمیان خط کھینچنے والے کب کے مر گئے مگر رکاوٹیں ابھی تک باقی ہیں۔ جو بیٹوں کو ماں سے ملنے نہیں دیتیں۔ ارمان جو صرف امن کا خواہاں تھا اسے مار کے کیا وہ دو بستیوں کو اٹوٹ اتحاد کی جانب جان بوجھ کر دھکیل رہے ہیں؟

جیسے برہما پترا کی مچھلیوں نے جال کُترے تھے۔ کیا اِس کہسار زادی کِرن کے ضبط کو کسی طوفان میں بدلنے کی پیش رفت ہے۔ جیسے وہاں کی جل پریوں کی چپ ٹوٹی تو سیلاب آ گیا تھا۔

اس سے پہلے کہ آواز اور لاشیں اٹھاتے اٹھاتے لوگوں کے گلے اور کندھے تھک جائیں وہ قربان گاہوں سے نکل کر نقشے بدل دیں بادشاہ کو سوچنا ہوگا۔ وہ مذمت کرے گا یا ظلم؟ ورنہ بستی کے دونوں اطراف کے باسی پشیمانی کی فصیلوں کو بلند ہوتا دیکھ کر رونے کے بجائے کہیں دیواریں نہ چاٹ جائیں۔

ثروت نجیب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ثروت نجیب

ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے گرافک ڈیزائنر اور جرنلسٹ ہیں۔ کابل ٹائمز اور یوریشیا کے لیے لکھتی ہیں۔ سارک ادبی شعبہ اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی ممبر ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔

sarwat-najeeb has 6 posts and counting.See all posts by sarwat-najeeb