شاعر مشرق کی روح تڑپتی تو ہو گی


زرا ان اشعار کا لہجہ، الفاظ، طرز بیاں، انداز اور خیال دیکھیے۔ کہاں اقبال اور کہاں یہ اشعار۔ کہاں گنگو تیلی اور کہاں راجہ بھوج۔

ان اشعار کو اور ان جیسے لا تعداد اشعار کو جب اقبال کے نام سے منسوب کر کے سوشل میڈیا پہ پھیلایا جاتا ہے تو اقبال کی روح تو عالم برزخ میں تڑپتی ہی ہو گی، ہماری طبیعت بھی مکدر ہو جاتی ہے، اس پر طرہ یہ کہ اگر کسی کو یہ کہنے کی گستاخی کر لی جائے کہ حضور یہ اقبال نہیں، لوگ انتہائی برا مان کے قلمی جنگ پہ اتر آتے ہیں

ایک بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں کو شاعری کا شوق ہونا بجا مگر ہر کسی نے اساتذہ کو نہیں پڑھا ہوتا، جیسے میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ میں نے ورڈزورتھ، شیلے، کیٹس اور بائرن کو کورس کی کتابوں کے علاوہ نہیں پڑھا، میں کسی انگریزی شاعری کا اصل وثوق سے نہیں بتا سکتی سو اگر کوئی میری اصلاح کرے گا تو سر آنکھوں پہ

مگر اردو شعرا کی شاعری ہم نے اس زمانے میں پڑھنی شروع کی جب ان کا مطلب بھی سمجھ نہیں آتا تھا مگر گھر اور خاندان کا ماحول کچھ اتنا ادبی تھا اور کچھ ہم نے بزم ادب کی ذمہ داری اس قدر سنبھالی ہوئی تھی کہ بڑھ چڑھ کے بانگ درا کو رٹا، دیوان غالب کے شعر بیت بازی کے مقابلے جیتنے کے کام آئے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تک بندی خود بھی کی، مشاعروں میں شرکت کی، بین المدارس انعام جیتے. اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ کہیں سے کوئی شعر کان میں پڑ جائے، اس کے اسلوب سے شاعر کا بھی پتہ چل جاتا ہے اور اصلی اور نقلی کا فرق بھی۔

ادبی ذوق میں زوال تب شروع ہوا جب ہر شعبے کی اخلاقیات پامال ہونے کے ساتھ ساتھ یہ وبا ادب تک بھی پہنچ گئی، نقل تو پچھلے زمانے کے لوگ بھی کیا کرتے تھے مگر انتہائی نچلے درجے کی تک بندی کو اساتذہ کے نام سے پھیلانے کی داغ بیل سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد پڑی،

یار لوگوں نے اپنے اپنے صفحے بنائے اور اپنی تک بندی کو بڑے بڑے شاعروں کے نام سے منسوب کر دیا، ان کی تک بندی کو ان کے ذاتی نام سے کوئی دوسری نظر بھی نہ ڈالتا مگر اقبال، فیض، غالب اور پروین شاکر کے ناموں سے ان کے page دھڑادھڑ پسند کی کلک سے پھیلنے لگے

ہم سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں نے باقاعدہ طور پہ شاعروں کو نہیں پڑھا ہوتا تو اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا، ایسے لوگ دیکھنے کو ملے جنہیں نہایت ادب سے جب بتایا گیا تو انہوں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا، ایسوں کے ساتھ کچھ ایسے بھی تھی جنہوں نے اسے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی ساری توانائی شعر کو اصلی ثابت کرنے صرف کی۔

ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا

کچھ شاعروں پہ بلا تکلف اور پہت زیادہ ہاتھ صاف کیا گیا، ان مظلوم شاعروں میں سر فہرست اقبال اور پروین شاکر شامل ہیں، کیوں کہ دونوں شاعر بہت زیادہ مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی بھی ٹہرے

اقبال کا نام پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اقبال کا شاہیں بننا ہر پاکستانی کا خواب ہے یا تھا

اور پروین شاکر نے عورتوں کے احساسات وجذبات کو آواز دی اور دنیا کو بتا دیا کہ عورت کسی گڑیا کی مانند چھوئی موئی نہیں بلکہ بول سکتی ہے اور اپنے خیالات کا ببانگ دہل اعلان کر سکتی ہے

اب اقبال کے شکوہ جواب شکوہ جیسی بلند پایہ شاعری کی درگت بن چکی ہے اور پرویں کی نسوانی شاعری، چچھوری شاعری میں بدل چکی ہے

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہم نے شاعر مشرق کا حق تو ویسے ہی ادا نہیں کیا تھا اب تو ہم ان کے مجرم بھی ٹہرے

اور ہمیں پہلی دفعہ اس محاورے کی سمجھ آی۔ چوری اور سینہ زوری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).