ارشاد رانجھانی قتل اور پولیس کا رویہ


سانحہ ساہیوال کے بعد کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک اور دل دہلانے والے مناظر دیکھنے کو ملے، بھینس کالونی کے قریب عوام کا ہجوم سپر ہائی وے پر موجود تھا، ہجوم کے بیچ میں خون میں لت پت ایک انسان پڑا تھا، جو کراہ رہا تھا، آہ و زاری کررہا تھا، مدد کی اپیلیں کر رہا تھا، کوئی شخص اس کی مدد کو نہیں آ رہا تھا، ایک باریش شخص جس کے ہاتھ میں پستول ہے اور وہ لوگوں کو اس زخمی نوجوان کے قریب جانے سے منع کررہا، باریش شخص لوگوں کو کہتا ہے کہ اگر کوئی اس کے قریب جائے گا، اسے بھی نقصان ہوسکتا ہے۔ زخمی نوجوان کا نام ارشاد رنجھانی بتایا جا رہا ہے اور جس باریش شخص کے ہاتھ میں پستول ہے وہ یونین کاؤنسل کا چیئرمین عبدالرحیم ہے، یو سی چیئرمین لوگوں کو بتا رہا ہے کہ یہ ”ڈکیت“ ہے۔

کچھ دیر بعد پولیس کی گاڑی آتی ہے جو خون میں لت پت نوجوان کے ساتھ مجرموں والا سلوک کرتے ہوئے اسے گاڑی میں اچھالتی ہے، زخمی نوجوان کو ہسپتال لے کر جانے کے بجائے اسے تھانے لے کر جایا جاتا ہے، تقریباً دو گھنٹے بعد اسے ہسپتال لیجایا جاتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے نوجوان انتقال کرجاتا ہے۔

بعد ازاں سوشل میڈیا پر آنے والی دوسری ویڈیوز میں نظر آتا ہے کہ پولیس کا رویہ بہت ہی نامناسب ہے، پولیس اہلکار اس زخمی نوجوان کے ساتھ مجرموں والا سلوک کرتے ہیں، پولیس اہلکار انتہائی نامناسب لہجے میں زخمی شخص سے سوال کرتے ہیں حالانکہ اس نوجوان پر لگایا گیا ”ڈکیت“ کا الزام محض الزام تھا، جو ثابت نہیں ہوا ہے، اس کی زندگی بچانا ضروری تھا، اگر وہ مجرم بھی تھا تو اس پہلے ہسپتال لے جایا جاتا، لیکن چونکہ یونین کاؤنسل چیئرمین جس کے بارے کافی شکایات تھیں کہ وہ لینڈ گریبنگ اور بھتہ خوری میں ملوث رہا ہے، پولیس والوں کو باقاعدہ منتھلی پہنچاتا رہا ہے، تب ہی پولیس والے اس کی بات کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے اس کے علاوہ ”ڈکیت“ والے الزام پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں، کیونکہ الزام لگانے والا بڑی گاڑی پر تھا، بڑی گاڑی والے سے کیسے ممکن ہے کہ پیدل یا موٹر سائیکل سوار ڈکیتی کرسکتا ہے؟ اور وہ بھی دن کی روشنی میں جب سپر ہائی وے پر ٹریفک بھی رواں دواں ہو؟

اس کے علاوہ زخمی ارشاد رانجھانی کے رشتہ داروں کے بقول دو دن سے اس ارشاد کا موبائل بند تھا، دو دن سے وہ کسی سے رابطے میں نہیں تھا، لواحقین نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پہلے اسے اغوا کیا گیا اور بعد میں اسے قتل کیا گیا اس کے علاوہ علاقے میں ہونے والی چہ میگوئیاں میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ارشاد رانجھانی کی کسی با اثر شخص سے کچھ روز قبل منہ ماری ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا اور اسے ڈکیتی کا رنگ دیا جارہا، مقتول کے خاندان نے تفتیشی  اداروں اور پولیس پر پہلے ہی جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے پولیس کے زیراثر تفتیش کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بنا تحقیقات کے پہلے ہی ڈکیتی کی واردات قرار دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا، لیکن سوشل میڈیا پر ردعمل کے سبب اب انکوائری کرانے کی باتیں کررہی ہے، اس کے علاوہ حکومت سندھ نے جوڈیشل انکوائری کے لئے سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھا ہے اور وزیراعلی سندھ نے قاتل کی فوری گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ارشاد رانجھانی پر لگایا گیا الزام (جو محض الزام تھا) درست بھی مان لیا جائے تب بھی کیا زخمی انسان کو اسی طرح مرنے دیا جائے؟ یا اسے ہسپتال منتقل کرکے اس بچانے کی کوشش کی جائے، اسے زندہ پکڑ کر قانون کے حوالے بھی کیا جاسکتا تھا۔

ایک منتخب نمائندے کو لائسنس ٹو کل (مارنے کا اختیار) کس نے دیا ہے؟

ہمارے پولیس نظام میں کوتاہیاں ہیں جو اس کیس میں مزید کھل کر سامنے آگئی ہیں

اگر ارشاد پر لگایا گیا الزام غلط ثابت ہوا تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

کیا اس کی زندگی واپس آسکتی ہے؟

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch