بریدہ خوابوں کے نامعلوم لاشے


لنگر والے نے دیگ سے چمچہ بھر کے سالن برتن میں ڈالا۔ قطار سے ایک آدمی ہٹا تو میری باری آئی۔ میں کاسہ ہاتھ میں تھامے گداگر کی طرح خیر کا منتظر تھا۔ باورچی نے ہاتھ اوپر کیا، شوربے کی آبشار میرے کاسے میں گرنے لگی۔ میں نے کٹورے میں جھانکا وہ سرخ، گرما گرم تازہ لہو میں بدل چکا تھا۔ میرے ہاتھ لرزنے لگے اور برتن گر گیا۔ زمین پہ گری مرغی کی ٹانگ مجھے اپنی ٹانگ لگی۔ میں نے لپک کر اسے اٹھایا سینے سے لگاتے ہی دل بھر آیا نجانے کیسے ضبط ٹوٹا آنکھوں کے کائی زدہ حوض ابل پڑے۔

آنسو مانوس رستے پہ بہنے لگے۔ مٹی میں لتھڑا زمین گیر شوروا چھلاورن واسکٹ پہ اس خون کی مانند لگا جسے بہتے بہتے چالیس سال گزر گئے۔ میں نے کندھے پہ رکھے رومال سے زمین کو رگڑنا شروع کیا مگر وہ سرخی نہ سمیٹ سکا۔ نا ہی لوگوں کے پیروں، قمیضوں کے دامن اور شلواروں کے پائنچوں سے اس کے داغ مٹا سکا۔ ہر ایک داغ میرے دماغ میں محفوظ میری کہانی کی مصوری میں ڈھلنے لگا۔ زمین پہ میری زندگی بکھری پڑی تھی۔ میری ٹانگ بھی جو بارودی سرنگ کے پھٹنے سے میری آنکھوں کے سامنے ہوا میں اڑتی ٹوٹے کھلونے کی طرح دور جا گری۔

میرا خون ایسے ہی مٹی نے جلدی جلدی جذب کیا جیسے قرنوں کی پیاسی ہو۔ تب خود سے جدائی کا منظر میری آنکھیں مذید قید نہ کر سکیں اور غشی کے مارے بند ہو گئیں تھیں۔ جب کھلیں تو حجرے میں تھا میری مرہم پٹی ایسے کی گئی جیسے جنگوں میں عارضی پشتے بنا کر اسے پل کا نام دیا جاتا ہے۔ کوئی طبیب میسر تھا دوا نہ دارو۔ ۔ ۔ ۔ راکھ سے زخموں کو مندمل کرنے والوں کو کیا خبر گھاؤ پچھتاوا بن جائیں تو ناسور کی طرح رستے رہتے ہیں۔

زمین پہ گرے آش میں ٹماٹر کا چھلکا ایسے بے سدھ پڑا تھا جیسے میں۔ مٹی پہ اِس بدنصیبی کے نگار مجھے دوبارہ اُس حجرے میں لے گئے۔ جہاں میں کبھی نہیں جانا چاہتا۔ کم از کم اس طرح عین جوانی میں بغیر کسی تربیت کے مسجد میں حفظ کی نیت باندھنے والا سیدھا میدانِ جنگ میں نمازِ جہاد پڑھے جہاں روسی میزائل گھروں کی چھتیں اور مالکوں کے سر کھا جاتے۔ میری داڑھی تب نہیں آئی تھی ہلکی سنہری مونچھیں گھنی ہونے کے عین قریب تھیں۔

قد کاٹھ چوڑا چکلا، دل امنگوں سے اٹا اور کئی خواب جوانی کے دروازے پہ دسکتیں دے رہے تھے۔ میں شش و پنج میں ہونقوں کی طرح ان دیکھی محبت کا منتظر تھا۔ گودر پہ جانیوالی لڑکیوں کے پیچ و خم گننے کسی اونچے ٹیلے پہ بیٹھنے کی تاک میں رہتا۔ جہاں پلوشہ گھڑے میں اپنے شباب جیسے مچلتے دریا کا پانی بھرنے جاتی تھی۔ اُس دن کنچے نکال کر مسواک اور بانسری میں نے جیب میں رکھی تھی مگر عین عصر کے وقت مولوی صاحب کے لڑکے بلانے آ گئے۔ کچی مسجد کی بھوسے والی بنا دروازے کی دیواروں سے مولوی صاحب کی زندگی جُڑی تھی۔ درمیانی عمر، چہرے پہ پژمردگی اور تنگدستی جو سال بہ سال بچوں کی قطار سے بتدریج بڑھتی جاتی۔

”السلام علیکم حاجی صاحب۔“

پنڈلیوں تک بوٹ پہنے کسّے ہوئے تسموں والے کلین شیو سلونے سے آدمی نے بہت احترام سے سلام کیا۔

سپارہ پڑھنے والے سبھی بچے اس کی جانب دیکھنے لگے۔ مولوی صاحب کے ساتھ وہ مسجد کے کونے میں جا کر کھسر پھسر کرتا رہا۔ میں نے موقع تاک کے جیب سے بانسری نکال کر بہروز کو دکھائی۔ بس وہ آخری لمحہ تھا فرط ِ مسرت کا۔ اس کے بعد ہمارے گاؤں میں روزِ حشر کا اعلان ہوتے ہی حجروں و مسجدوں میں حکم کے غلاموں نے جہاد کا ایسا صور پھونکا کہ سب نوجوان سماعت سے محروم ہو گئے۔ ان کے کان جہاد کی سیٹیوں کے علاوہ کوئی آواز قبول کرنے سے انکاری ہو چکے تھے۔

روس نے راتوں رات براستہ ہرات افغانستان پہ حملہ کیا، کیا سارا خطہ ہی چوپٹ ہو گیا۔ سنا یے شہر ہرات میں چار انچ کی جگہ بھی نہ بچی جسے جنگ نے جلایا نہ ہو۔ شوروی، شورش کے باوجود ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے خول میں چھپے خوابوں سے بھری آنکھیں مسمار کرتے بڑھتے رہے۔ ستر حوریں، سیاہ ریشمی بال، بڑی بڑی کالی آنکھیں ہر حکم بجا لانے والی، لمبی لمبی پلکوں کے بچھونے پہ بٹھانے کو تیار۔ ایک بار دل سے ہوک ضرور اٹھی تھی۔

پلوشے کی سبز چمکتی آنکھوں نے فریاد کی مگر وہ ٹائپ 54 کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ بہتر سوکنوں نے اس کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔ کئی میل پہاڑی راستے کو پیادہ سر کرتے جب اس تاریک حجرے میں پہنچا تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ لکڑی کے موٹے شہتیروں کی چھت سے لٹکتا ساٹھ واٹ کا بلب ایسے جل رہا تھا کہ بس اندر سنہریں آنتیں ہی چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔ کمرے کے تینوں اطراف میلے کچیلے کھٹملوں سے بھرے خاکستری توشک اور پچکے ہوئے گاؤ تکیے رکھے تھے جن میں کُھبی ہوئی کہنیوں کی گہرائیاں نمایاں تھیں۔

گھنی سیاہ داڑھی والے امیر کے اردگر سبھی خاموش سر جھکائے بیٹھے تھے۔ امیر کے سر پہ پگڑی کے سیاہی مائل بل مجلگی تاریکی میں گم تھے۔ مگر آنکھوں کی چمک میں عزم جھلک رہا تھا۔ جیسے ابھی نیست و نابود کے قول کو زبانی قید و بند سے آزاد کر دیں گی۔ امیر نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ملحق اتاق میں چمچوں کی کھٹ پھٹ سے خاموشی ٹوٹی۔ ایک کمسن لڑکا چلمچی کے ساتھ کوزے میں پانی لایا اور عمر و رتبے کے لحاظ سے مشران کے ہاتھ دھلائے۔

میری باری سب سے آخر میں آئی۔ مطلب چودہ سال سے کم عمر اس دسترخوان پہ کوئی مہمان نہیں تھا۔ مٹی کے کاسوں میں تیرتے پیاز کی کرنیں تیر رہی تھیں۔ پتلا شوربہ اتنا پتلا کہ جیسے پانی کی سطح پہ تھوڑا سا مرچیلا گھی تیر رہا ہو۔ سب نے تندور پہ کسی اناڑی کی بنی موٹی ادھ کچی روٹیوں کے موٹے موٹے ٹکڑے کر کے کاسے میں ڈالنے شروع کیے۔ جسے تین تین نفر کی ٹولیوں نے مل کر کھانا شروع کیا۔

اففف کتنا لذیذ تھا۔ بعد از سہ روز فاقے کے منہ میں شُکر کے نوالوں نے طبعیت بحال کر دی۔ بشقاب میں تھوڑا سا سوکھا گوشت اور چربی کے سکڑے ٹُکڑے۔ پہلا اور آخری من و سلویٰ تھا۔

اس کے بعد تو مانو عرصہ دراز پیٹ خود پہ سمجھوتے کا پتھر باندھ کر صبر اور پھل کی آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صبر جیت جاتا۔ پھل کے نام پہ شاذ و نادر سوکھے میوے تو ملتے مگر معدے میں نانِ گندم کا الگ سے جو خانہ بنا تھا نا وہ روٹی کے لیے مچل جاتا۔ تب آدیے (ماں ) بہت یاد آتی۔ گرم گرم تازہ روٹی کھلانے والی کی آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتیں تو دل کرتا کہ جہاد چھوڑ کے بھاگ جاؤں۔ پر اس یک طرفہ راستے کا انتخاب میں نے خود کیا تھا۔ ”خود کردہ را تدبیر نیست،۔

ایک بار آدے کی گود میں سر رکھے میں نے کہا جہاد کے لیے لڑکے جا رہے ہیں۔ آدے کی دھرکنیں تیز ہو گئیں اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے۔ جب میں نے کہا ”لیکن میرا جانے کا ارادہ نہیں تو ان کی زعفرانی رنگت دوبارہ سپید ہو گئی۔ میں نے پھر بھی چپکے سے پوٹلی میں دو جوڑے رکھے اور مجاہدوں کے قافلے میں عین اس وقت شامل ہوا جب وہ رات کے وقت سفر پہ روانہ تھا۔ صبح میری گمشدگی کا میری ماں پہ کیا اثر ہوا ہوگا مجھے تب اس کی پروا ہی نہیں تھی۔

میں ایک ایسے دیس میں تھا جہاں سورج دماغ میں اگتا تھا۔ چاندنی کوچ کر کے پڑوس میں ستاروں سمیت ہجرت پہ مجبور تھی۔ محبتوں کے پیامبر ڈاکیے خطوط کے بجائے بارود بانٹتے تھے۔ میں ماں کو انتظار کی تاریکی کے سوا کچھ نہ بھیج سکا، نہ چِھٹی نہ پتر۔ البتہ ہونقوں کی طرح آنے والے ہر نئے ڈلے میں گاؤں کے لڑکے تلاش کرتا۔

شاید کسی لڑکے کے جسم سے میرے بابا کی خوشبو ٹکرائی ہو۔ کوئی میرے چھوٹے بھائیوں کا ہنڈی وال نکل آئے؟ کیا پتہ میرا بھائی ہی۔ نہیں، نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کے کان بہرے۔ ۔ ۔ تھو تھو تھو۔ میرا ملوک سا بھائی اس بھٹی میں؟ یہ سوچ کر ہی میں کانوں کو ہاتھ لگا لیتا۔ بچوں کے ہاتھ میں بستے کی جگہ بندوق تھمانے والے تو چھٹیاں بھی مناتے۔ عید، برات بھی۔ مگر ہم پہ زندگی اس قدر تنگ کر دی کہ شہادت کے سوا زندگی کا کوئی مقصد ہی نہ رہا۔ ہم محض زبانی کلامی سپوتِ فخرِ قوم تھے۔ جن کے نصیب میں تعصب سے داغے ہوئے اعزازات روز اول سے لکھ دیے گئے تھے۔ مگر ہم عقیدت سے بند آنکھوں کی وجہ سے ان نوشتوں کو پڑھ نہ سکے۔ جنگ کا عفریت جنگی دیوتاؤں کے سر سے اتارنا اتنا آسان نہیں، یہ مورثی مرض کی طرح نسل دد نسل چلتا رہتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ثروت نجیب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ثروت نجیب

ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے گرافک ڈیزائنر اور جرنلسٹ ہیں۔ کابل ٹائمز اور یوریشیا کے لیے لکھتی ہیں۔ سارک ادبی شعبہ اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی ممبر ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔

sarwat-najeeb has 6 posts and counting.See all posts by sarwat-najeeb