گاؤدی اینکروں کے تو وارے نیارے ہیں!
خبرناک اپنی مقبولیت کی بلند ترین سطح پر ہے اور مجھ سمیت اس سے وابستہ ان لوگوں کی تنخواہوں میں کٹوتی ہو گئی ہے جو ایک خاص حد سے زیادہ تنخواہ لے رہے تھے۔ جو لوگ یہاں سے گئے وہ تنخواہوں کے دیر سے آنے کے باوجود جانا نہیں چاہتے تھے اور اس کی وجہ جیو ٹی وی کا ماحول ہے جہاں کام کرنے کی بہت آزادی ہے اور آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا جیسا چاہے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دو آ را نہیں ہیں۔ آپ یہ سمجھ لیجیے کہ جہاں ہم پروڈکشن پر سو روپیہ خرچ کر رہے تھے وہاں اب چالیس روپے خرچ کرتے ہیں۔ لوگ ادھار پکڑ کر یا کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے گذارہ کر رہے ہیں۔ کرایہ کے گھروں میں رہنے والے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ مالک مکان کو ٹالتے رہتے ہیں۔
کل میں کہیں جانے کے لیے کرائے کی گاڑی میں بیٹھا تو کیپٹن نے پوچھا، ”آپ کی تنخواہ آ گئی ہے“۔ اس نے بتایا میڈیا سے جو بیٹھتا ہے یہی رونا روتا ہے۔ کوئی کہتا ہے سیٹھوں نے ایکا کیا ہوا ہے کہ مندہ دکھانا ہے۔ کوئی کہتا ہے بندے فارغ کرنے کا بہانہ ہے۔ کوئی کہتا ہے ”کھانچے“ لگنا بند ہو گئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے گورمنٹ نے اشتہار کا ریٹ گرا دیا ہے۔ کوئی کہتا ہے پرانے پیسے پھنسے ہوئے ہیں جو مل نہیں رہے۔ کوئی کہتا ہے دوسرے بزنس میں پیسہ لگایا جا رہا ہے۔
کوئی سمجھاتا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر اشتہار پر پیسہ زیادہ خرچ ہوگا اور یہ کہ نیسلے جیسی کمپنیوں نے اپنے اشتہارات کے فنڈز روکے رکھے ہیں۔ مارکیٹ میں پیسہ لایا نہیں جا رہا۔ جتنے منہ اتنی بولیاں ہیں۔ ایسے میں زرداری صاحب کہتے ہیں کہ میڈیا ساتھ دے حکومت گرانے میں تو ہم اس کے لئے دودھ کی نہریں بہائیں گے۔ کمال ہے! یعنی ایک بار پھر حکومت مخالف پروپیگنڈا کیا جائے، بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنایا جائے، پھر آپ سیٹھوں کے ساتھ شیر و شکر ہو جائیں گے اور ان کے منافعوں میں سے خطیر رقم بھونکوءوں ( اینکروں ) کے پاس چلی جائے گی اور ورکر بے چارہ پھر پیسے پیسے کو ترسے گا۔
جہاں تک جیو نیوز کا تعلق ہے اس کا زیر عتاب ہونا تو بہت عرصہ سے چل رہا ہے اور بہت برے حالات بھی دیکھنے پڑے ہیں لیکن ایسی بدحالی بہر حال کبھی نہیں تھی۔ گورنمنٹ کی اس پالیسی پر مجھ جیسے پروڈیوسرز تنقید کرتے ہیں کہ اگر گورنمنٹ سٹیل ملز، ریلوے اور پی آ ئی اے کو طاقت کے انجکشن لگا سکتی ہے تو میڈیا کو کیوں نہیں۔ آخر یہاں بھی تو پاکستانی ہی کام کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صحافی بے چارہ کیا کرے اسے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔
میں خود پچھلے پندرہ برس سے جیو نیوز سے وابستہ ہوں اور خون جگر پلایا ہے کچھ لگی بندھی تنخواہ کے عوض۔ پچاس منٹ پروگرام میں پہلی بار جب گردے نکالنے والوں کو منظر عام پر لایا تو مختلف ہسپتالوں کی طرف سے آفر ہوئی کہ اتنے پیسے لے لو یا اتنے لے لو۔ نہ عبدالرءوف صاحب ایسے آدمی تھے اور نہ انہوں نے ہماری ایسی ٹریننگ کی۔ مجھے ایک بار آ ئی ایس آئی نے بہالپور میں بٹھا لیا اور کہا کہ جس صحافی کے بارے پوچھو گے ایک ایک روپیہ بتا دیں گے کہ کہاں سے لیتا ہے۔
سہیل شیخ اور امین عباسی صاحب ساتھ تھے اور آپ یقین کیجیے انہوں نے بڑے بڑے جغادڑی اینکروں کے پول کھول دیے۔ ٹکہ ٹکہ لے کر پروگرام کرنے والے سامنے تھے اور میں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پچاس منٹ والے عبدالرءوف کا بتائیں۔ جواب نہیں بن پڑا۔ میں اخلاقی فتح کے ساتھ باہر آیا بلکہ بھیجا گیا ( میں ان دنوں پچاس منٹ کا پروڈیوسر تھا)۔
میڈیا کی حالات برے ہوں گے لیکن سکرین پر آنے والے لوگوں کے حالات کبھی خراب نہیں ہوتے کیونکہ یا تو سیٹھ انہیں نوازتے ہیں یا سیاستدان یا وہ جن کی زبان بول رہے ہوتے ہیں اور یا وہ جو ان کے شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔ میڈیا کے حالات اگر اتنے ہی خراب ہیں تو اینکرز کی تنخواہوں میں اندھا دھند اضافے کی کیا ضرورت ہے۔ مانا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ڈیمانڈ اور سپلائی اور اسی طرح جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کے مصداق پالیسی بنائی جاتی ہے لیکن ایسی بھی کیا اندھیر نگری کہ آپ ایک گاؤدی سے آدمی کو پہلے سکرین پر لاتے ہیں پھر اسے خبر کا چنگیز خان بناتے ہیں پھر اسے نوازتے ہیں پھر اس سے ڈرانا شروع کرتے ہیں اور بالآخر خود اس کے بھاگنے کا مصنوعی ڈر پیدا کر کے دھڑا دھڑ پیسہ پھینکنا شروع کر دیتے ہیں۔
میں خود گواہ ہوں ایسے ایسے گھامڑوں کا جو ان داتا بن کر علیحدہ بنگلے لے کر لوگوں سے دو دو ہزار میں کہانیاں لکھوا کر پروگرام چلاتے رہے ہیں۔ ایک مکھی کے بھنبھنانے پر ڈیفنس والا گھر اور سٹوڈیو چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور پورا دفتر اس حرامزادی مکھی کو بھگانے پر لگ جاتا تھا۔ موصوف کو اپنے ہی پروگرام کے نام کا جواز دینا نہیں آتا تھا۔ ایسے ایسے کالم نگار ٹی وی اینکرز ہیں جن سے ان کے اپنے کالموں کے بارے فی البدیہہ گفتگو کی جائے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
ایسے ایسے اینکرز ہیں جو مختلف شخصیات کو پروگرام میں بلانے کا یا ان کے پاس جانے کے لاکھوں روپے لیتے ہیں۔ ایک ہی اینکر نے بندے رکھے ہوئے ہیں جو کسی بھی دن کسی کے لیے کسی دوسرے سیاستدان کی پگڑی اچھال سکتے ہیں۔ ایسے ایسے تماشے لگاتے ہیں یہ اینکرز کہ خدا کی پناہ! اس ذلت میں سب شامل ہیں کہ ایک اینکر اگر ججمنٹل ہو رہا ہے تو کیوں؟ اس کا کیا کام ہے یہ سب بک بک کرنے کا کہ عدلیہ کو پاپولر جذبات کا خیال کرنا چاہیے۔ ایسے ایسے اینکرز ہیں جنہوں نے اربوں روپے پکڑ کر نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور اب وہی عمران حکومت کے خلاف بھی کریں گے۔ ایک نیا راستہ پنڈی والا دیکھ لیا ہے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ نوازے ہوؤں کو نوازنے کا فن کوئی سیٹھوں سے سیکھے۔ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حالات خراب ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جانبدارانہ رپورٹنگ اور صحافیانہ ٹارگٹ کلنگ کوئی پرانی بات ہے کیا! جب دل چاہتا ہے جمہوریت کے مامے بن جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں جمہوریتوں کے خلاف کرپشن کی کہانیاں کھول لیتے ہیں۔ مجھے بہت شرمندگی ہے اس بات کی کہ جیو نیوز پر سیلاب زدگان کو چھوڑ کر زرداری پر جوتا اچھالنے کے خبر سارا دن چلتی رہی (زرداری حکومت تھی اور لندن میں اس پر جوتا اچھالا گیا تھا)۔ یہ کہنا کہ سارے اشتہار سوشل میڈیا پر چلے جائیں گے بے بنیاد ہے۔
مین سٹریم میڈیا بھی سوشل میڈیا پر توجہ دے اور اپنا حصہ اٹھا لے۔ اب مین سٹریم میڈیا کو بھی خود کو کھولنا پڑے گا اور اپنی نشریات کو سوشل میڈیا پر سنجیدگی سے چلانا ہو گا اور یہ مالکان سب کچھ کریں گے۔ اب سوشل میڈیا پر پاپولر ہوئے لوگوں کو اٹھائیں گے اور پھر پیسہ پھینکیں گے۔ گورنمنٹ اور پیمرا سے بھی کسی اچھے کی امید نہیں ہے کیونکہ اول آخر یہ مالکان کو ہی نوازیں گے نا کہ ورکرز کے حق میں بات کریں۔ تمام ورکرز یونینز کے جلوس دیکھ کر ان کے جھانسے میں آنا حماقت ہے۔
جب مشرف کے خلاف کیمپین کرنی تھی تو اس کا رنگ ہی اور تھا کیونکہ وہاں کمرشل مفاد کو نقصان نہیں پہنچ رہا تھا بلکہ میڈیا انقلابی بنا ہوا تھا لیکن اب معاملہ کمرشل مفاد کا ہے تو رنگ اور ہے۔ گورنمنٹ تو پچھتر نئے چینل لا رہی ہے لیکن یقین کیجیے وہ سب، ”اپنی کھا آ ؤ تے ساڈی لے آؤ“ والا حساب ہی رکھیں گے۔ جیو ٹی وی سمیت سب چینلز کو تنخواہوں کی ایک واضح پالیسی وضع کرنی چاہیے اور میڈیا ہاؤسز کو لوگوں کے لیے خیر بنانا چاہیے ورنہ جن سورماؤں کو وہ لے کر بیٹھیں ہیں وہ بیٹھے بیٹھے بوجھ بن جائیں گے۔ بحران میں ہی مواقع ملتے ہیں لیکن یہ مواقع صرف اپنا اور گاؤدی اینکروں کا پیٹ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ تمام ملازمین کے لیے ہونے چاہییں۔ گورنمنٹ اور یونیز کو بھی سیٹھوں کا آ لہ کار بننے کی بجائے ورکرز کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے۔
- امریکا نیا تماشا لگانے جا رہا ہے - 02/09/2021
- آخر تھپڑ کیوں نہ پڑے؟ - 11/06/2021
- کیا تصوف ایک ذہنی عیاشی ہے؟ - 02/06/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).